ہم پی بھی گئے چھلکا بھی گئے
نوجوان شاہد حسین، جنھیں کراچی کے مختلف تھانوں اور پھر لانڈھی جیل میں بدترین تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا
کراچی کے ایک اسپتال کی نفسیاتی امراض کی وارڈ میں معروف ڈاکٹرز ایک نوجوان کے خوف کا علاج کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، یہ 1971کا سال تھا۔
نوجوان شاہد حسین، جنھیں کراچی کے مختلف تھانوں اور پھر لانڈھی جیل میں بدترین تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا، کراچی یونیورسٹی کے طالب علم تھے۔ ایران میں شہنشاہ رضا شاہ پہلوی کا عروج تھا۔ رضا شاہ نے اپنے حسب نسب کو ایران کی ہزار سالہ امارات سے جوڑا اور ایک جشن کا اہتمام کیا۔ اس وقت پاکستان میں جنرل یحییٰ خان کا مارشل لاء عروج پر تھا۔
جنرل آغا محمد یحییٰ خان اس جشن میں شرکت کے لیے تہران گئے تھے۔ سندھ کمیونسٹ پارٹی نے شہنشاہ کے آمرانہ نظام کے بارے میں حقائق عام کرنے کے لیے ایک پمفلٹ شایع کرنے کا فیصلہ کیا۔ شاہد حسین اس ٹیم میں شامل تھے جن کے سپرد پمفلٹ تقسیم کرنے کی ذمے داری دی گئی۔ وہ اس وقت لالو کھیت میں اپنے خاندان کے ساتھ مقیم تھے۔ پمفلٹ تحریر ہوا۔
اس کو سائیکلو اسٹائل کرایا گیا اور تقسیم کا سلسلہ شروع ہوا۔ کراچی پولیس کے سی آئی ڈی ڈپارٹمنٹ کو اس کی بھنک مل گئی، یوں گرفتاریاں شروع ہوئیں۔ نوجوان شاہد حسین، ہدایت حسین، ڈاکٹر م، حسان اور ڈاکٹر علوی گرفتار کر لیے گئے، پروفیسر جمال نقوی روپوش ہوئے، انھیں میر غوث بخش بزنجو نے اپنے گاؤں نال بھیج دیا تھا۔
شاہد حسین بتاتے تھے کہ پان والے نے انھیں بتایا تھا کہ سی آئی ڈی کا ایک اہلکار ان کے بارے میں پوچھ رہا ہے،دوسرے دن انھیں گرفتار کرلیا گیا۔ شاہد حسین کو پہلے مختلف تھانوں میں رکھا گیا، ان پر شدید تشدد ہوا، اور پھر لانڈھی جیل منتقل کر دیا گیا۔
لانڈھی جیل میں مزید تشدد کا شکار ہوئے، ان کا نروس بریک ڈاؤن ہوگیا۔ شاہد حسین پر تشدد کی خبریں این ایس ایف کے کارکنوں کو ملیں۔ سینئر صحافی عابد علی سید اس وقت ایک انگریزی روزنامہ میں رپورٹر تھے۔
انھیں یہ معلوم ہوا کہ شاہد حسین کو اسپتال منتقل کیا گیا ہے۔ عابد علی کسی طرح اسپتال کے نفسیاتی علاج کے وارڈ سے اس کمرہ تک پہنچنے میں کامیاب ہوئے جہاں شاہد زیرِ علاج تھے، یوں اخبار میں شاہد حسین پر تشدد کی خبر شایع ہوئی۔ سیاسی جماعتوں، مزدوروں کی تنظیموں ،این ایس ایف کے عہدیداروں ، دانشوروں اور ادیبوں نے شاہد حسین پر تشدد کی مذمت کی مگر اعلیٰ حکام نے اس واقعے کی تحقیقات کرانا گوارہ نہیں کیا۔ 20 دسمبر 1971 کو پیپلز پارٹی کی حکومت قائم ہوگئی۔
پیپلز پارٹی کی حکومت نے فوری طور پر ان سیاسی قیدیوں کی رہائی پر توجہ نہ دی۔ نیشنل عوامی پارٹی کے رہنما سردار عطاء اﷲ مینگل اور میر غوث بخش بزنجو نے شاہد حسین اور دیگر سیاسی قیدیوں کا مقدمہ اس وقت کے صدر ذوالفقار علی بھٹو کے سامنے پیش کیا، یوں صدر بھٹو کی ہدایت پر شاہد حسین اور باقی سیاسی قیدی رہا ہوئے۔
شاہد حسین ابھی مکمل طور پر صحتیاب نہیں ہوئے تھے کہ بھٹو حکومت نے ان کے والدکی ملازمت ختم کر دی۔ شاہد حسین کے والد ان چند لوگوں میں شامل تھے جنھوں نے ہندوستان سے فاریسٹری میں ڈگری حاصل کی تھی، مگر اب بھٹو حکومت کو قابل افسرکی ضرورت نہیں تھی، یوں اب نوجوان شاہد حسین پر گھرکی ذمے داریاں بڑھ گئیں۔
شاہد حسین کی شخصیت پر دو دانشوروں سید سبط حسن اور کمیونسٹ پارٹی کے سابق سیکریٹری جنرل پروفیسر جمال نقوی کی شخصیتوں کا خاصا اثر تھا۔ ڈاکٹر جعفر احمد، سید سبط حسن سے خاصے قریب تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ شاہد حسین تو سید سبط صاحب سے مذاق کرنے کی جرات کرلیتے تھے۔
اگرچہ شاہد حسین کے ماموں پروفیسر مجتبیٰ حسین بائیں بازوکے نامور نقاد اور ادیب تھے مگر شاہد حسین ہمیشہ سید سبط حسن کی نفاست اور ان کی طرزِ زندگی کا ذکر کرتے تھے۔ شاہد حسین خاصے عرصہ تک پروفیسر جمال نقوی کے سحرکا شکار رہے مگر جب جمال صاحب نے سوشلسٹ تحریک سے لاتعلقی کا اظہار کیا تو شاہد حسین کے رویے میں تبدیلی آگئی۔
شاہد حسین مکتبہ دانیال کے مالک ملک نورانی اور ان کی اہلیہ ممتاز نورانی سے بھی خاصے متاثر تھے۔ ممتاز نورانی نے شاہد حسین کے کہنے پر ترقی پسند تحریک سے متعلق کئی کتابیں شایع کی تھیں۔ شاہد حسین نے تین کتابیں تحریرکیں۔
یہ کیسا المیہ ہے کہ ایک مکتبہ کی ترقی پسند پروپرائٹر نے ان سے کتاب شایع کرنے کے لیے خطیر رقم وصول کی تھی۔ شاہد حسین کو انگریزی کے اخبار سے ریٹائر کیا گیا مگر وہ کئی برسوں تک اپنے واجبات کی ادائیگی کے لیے کوشاں رہے۔
شاہد حسین حیرت انگیز طور پر سچے انسان تھے۔ نفسیاتی امراض کے پروفیسر ڈاکٹر سید ہارون جنھوں نے 70 کی دہائی میں شاہد حسین کا علاج کیا اور انھوں نے شاہد حسین کو Dream Boyیعنی خوابوں میں رہنے والا نوجوان قرار دیا۔ شاہد حسین نے ایمانداری سے زندگی گزاری۔ انھوں نے اپنے بچوں کے کیریئر بنانے پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا۔ وہ دوستوں کی مدد کرنے میں فخر محسوس کرتے تھے۔
معروف صحافی سہیل سانگی نے لکھا ہے کہ شاہد حسین نے 70 کے عشرہ میں بعض اہم سیاسی موضوعات پر بہت اچھے مضامین تحریر کیے جن میں ''سیکولرازم کیا ہے'' اور ''فسطائیت کیا ہے'' شامل ہیں۔ سہیل سانگی نے لکھا ہے کہ شاہد حسین کے یہ مضامین کمیونسٹ نوجوانوں کی تربیت کے لیے کتاب سیاسی تعلیم میں سندھی میں ترجمہ کرکے شایع ہوئے۔
شاہد حسین کا برسوں سے معمول تھا کہ وہ صبح دوستوں کو ٹیلی فون کیا کرتے تھے، جس دن شاہد حسین کا انتقال ہوا اس دن شام کو 4 بجے بھی، انھوں نے راقم کو فون کیا، اب یہ ٹیلی فون بجنا بند ہوگیا ہے۔ شاہد حسین آخری وقت تک سچے مارکسٹ رہے۔ وہ آخری عمر میں پھیپھڑوں کے کینسر کا شکار ہوئے اور اپنی پیدائش والے دن دنیا سے رخصت ہوئے۔
ان کی موت معروضی صحافت اور ترقی پسند تحریک کے لیے ایک نقصان ہے۔ گزشتہ سال اختر بلوچ ، مدثر مرزا اور اس سال ایکسپریس کے ایڈیٹر طاہر نجمی اور اب شاہد حسین کے رخصت ہونے پر ایک شاعر کے یہ اشعار ہمارے دکھوں کی عکاسی کررہے ہیں۔
اس عالم کیف و مستی میں اس انجمن عرفانی میں
سب جام بکف بیٹھے ہی رہے، ہم پی بھی گئے چھلکا بھی گئے