گھوڑے اور اصطبل
گھوڑے کی مقبولیت کااندازہ اس سے لگایا جاسکتاہے کہ اسے سورج کا بیٹا اورستارہ بھی کہا گیا
ملا نصیرالدین سے کسی نے آکر کہاکہ وزیراعظم کا نوکر خاص ایک بڑا سا ''خوان'' لیے گلی میں چلا آرہا ہے۔
ملا نے کہا، وزیراعظم کانوکر خاص بڑا ساخوان لیے ہوئے گلی میںآرہاہے تو مجھے اس سے کیا؟ اس شخص نے کہا پھر وہ خوان لیے ہوئے آپ کے گھر کی طرف مڑگیا، اس پر ملا نے کہا کہ اگر وہ میرے گھر کی طرف مڑ گیا تو ... تجھے کیا؟
ہمیں بھی اس دنیا اورخاص طورپر اس ملک میں ہونے والی کسی چیز،کسی شخصیت یاکسی خوان سے کوئی دلچسپی نہیں ، سائفر کون ہے ؟ پناما کیاہے؟، توشہ خانہ کو کس سے مطلب ؟ بشریٰ بیگم کی ڈائری میں کیا لکھا ہے، بلٹ پروف کمرے پر کتنا خرچہ آیا ہے، فرح گوگی کے بینک اکاؤنٹس کی تفصیلات کیا ہیں۔
بی بی کی مریدنیاں کون کون؟کہاں کہاں کیاکیا، مطلب یہ کہ کسی چیز سے۔ کوئی رشتہ ناطہ نہیں کہ ابھی ہم دال ماش اور آلو پیاز کے نرخوں سے الجھے ہوئے ہیں، بجلی سے لڑرہے ہیں، پٹرولیم سے لاتیں گھونسے کھا رہے ہیں ، بقول امیرحمزہ خان شینواری ؎
ابھی میں اس چہرے کے خال گننے سے فارغ نہیں ہوا ہوں
آسمان کے ستاروں کی طرف بعد میں توجہ دوں گا
لیکن اس کے باوجود بعض چیزیں یا نام دامن دل می کشید ۔اور ان ہی چیزوں میں سے ایک چیز ''اسٹیبلشمنٹ''بھی ہے جو ان دنوں دانا دانشوروں کی گفتگو میں کچھ زیادہ ہی ادھر ادھر ہو رہی ہے، مجبوری میں سوچنا پڑ رہا ہے کہ یہ حضرت ''سٹبلشمنٹ ''کون ہے،کہاں رہتا ہے ،کیاکردار ہے،کیوں کرتا ہے اورکس کے ساتھ کرتاہے؟ ، آیا یہ کوئی لیڈرہے، وزیر ہے ،افسر ہے، دکاندار ہے ،سوداگر ہے، ڈاکٹر ہے یا انجینئر ہے وغیرہ ۔
آپ تو جانتے ہیں کہ ہم نہایت ''ثقہ'' سرکاری اکیڈمیوں، سند یافتہ اوربہت اعتباری سرکاری اداروں کے تربیت یافتہ محقق ہیں، ہم ہی کیا اب تو ہمارے ٹٹوئے تحقیق نے ایک اکیڈمی سے ریسرچ میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کرلی ہے ۔تحقیقی اصول کے مطابق جب کسی ''چیز'' کے بارے میں تحقیق کا بیڑا اٹھایا جائے تو سب سے پہلے اس چیز کا نام زیر تحقیق آتا ہے ،چنانچہ ہم نے جب سے کھوج لگانے کا آغاز کیا ہے تو تب سے چیزوں کے بخیے ادھیڑنے شروع کر دیے ہیں۔
اس سلسلے میں ہم نے جب لفظ ''اسٹیبل'' کاشجرہ نسب لسانیات اور آئٹمالوجی کی روشنی میں چیک کیا تو اس کی بنیاد میں بھی ''اس'' یعنی گھوڑے کو پایا جو اور بھی بے شمار زبانوں کے لاتعداد الفاظ کاجد امجد ہے ۔گھوڑ ے کو پشتو میں ''اس '' فارسی میں ''اسپ'' سنکسرت میں ''اشو'' انگریزی میں ''ہارس'' کہتے ہیں ، گھوڑا یا ''اس'' چونکہ انسانی تاریخ میں ویسی ہی ایک انقلابی ایجاد ہے جیسی بقول فلپ ختی ہمارے زمانے میں موٹروہیکلز، ٹینک اورہوائی جہازہیں ۔اس سے پہلے دور سست رفتار انسان اورگائے بیل کا تھا۔
جو کلی طور پر ''زرعی'' جانورہیں جب کہ گھوڑا یا ''اس'' خالص جنگی جانور ہے، گائے بیل زراعت کاروں اورمیدانی لوگوں کے جانور تھے جب کہ گھوڑا خانہ بدوش صحرائی لوگوں کی دریافت تھا، جنگوں اورفتوحات میں تیزی اوروسعت گھوڑے کے ساتھ آئی اورجن خانہ بدوشوں کے پاس گھوڑا تھا، وہ ساری دنیا پر چھاگئے۔
مصر کی مضبوط حکومت پر مٹھی بھر چرواہوں نے بڑی آسانی سے قبضہ کرلیا اورفلپ ختی کے مطابق اس کی واحد وجہ گھوڑا تھا ، لکھتا ہے کہ گھوڑا اس خطے کے لوگوں کے لیے اتنا ڈراونا اور خطرناک جانورتھا کہ اس خطے کے لوگ تو صرف اس کی ہنہناہٹ سن کر بھاگ جاتے تھے ۔
خیر بات کو اپنے موضوع تک محدود کرتے ہوئے یہ کہوں گا بلکہ میں نہیں تاریخ کہتی ہے کہ گھوڑے کی مقبولیت کااندازہ اس سے لگایا جاسکتاہے کہ اسے سورج کا بیٹا اورستارہ بھی کہا گیا۔ لفظ اسٹار، آسٹر ، ایسٹر، آسمان، اسکائی آکاش، السماء یہاں تک کہ ایشیا ، آسیا کے الفاظ بھی اس سے نکلے ہیں ،آسٹریلیا ،آسٹریا، اسکاٹ لینڈ ، اسکنڈے نیویا یا اسین بھی اس سے مشتق ہیں۔
لفظ آستان، استھان، آستانہ سب گھوڑے کے ٹھہرنے کی جگہ سے مشتق ہیں جو بہت سارے ممالک کے نام کاحصہ ہے ، پاکستان ،ہندوستان، افغانستان، عربستان، انگلستان وغیرہ ، یہ ہی نہیں بلکہ اسٹینڈ، اسٹال، اسٹیج اوراسٹیبل ، لفظ جب عربی میں گیا تو (ص) ہوگیا جس سے اصل، اصطرلاب ، اسطحر ،اصفہان کے علاوہ ایک اہم ترین لفظ ''اصطبل'' بھی بنتا ہے جو اس تیل یا اس تبیلہ بھی بولا جاتا ہے لیکن قابل ذکر لفظ یہی انگریزی کا ''اسٹیبل'' ہے۔ جسے کچھ لوگ''اسٹیبل'' بھی بولتے ہیں ، اس طرح ''اسٹیبلشمنٹ'' کا ترجمہ۔ اصطبل والے بھی بنتا ہے جو گھوڑے پالتے ہیں، سدھاتے ہیں، دوڑاتے ہیں اورخریدتے بیچتے ہیں۔
گھوڑا جو طاقت کی اکائی (ہارس پاور) بھی ہے ،اس کے بارے میں ایک حکایت مشہورہے کہ قیامت کے روزسب کچھ اڑ جائے گا صرف ''گھوڑا'' اپنے پیروں پر کھڑا ہوگا پھر آندھیاں اس کاگوشت پوست بھی اڑا لے جائیں گی لیکن ڈھانچہ بدستوراپنے پیروں پر کھڑا رہے گا ، عام طورپر پکی سرکاری نوکری والوں کو بھی ''اسٹیبل'' کہاجاتا ہے ۔
یوں کل ملاکر'گواہوں کے بیانات وکیلوں کے دلائل اورشہادتوں کے مدنظر اسٹیبل اوراسٹیبلشمنٹ کے معنی خود واضح ہوجاتے ہیں بقول رحمان بابا۔
لکہ ونہ مستقیم پہ خپل مقام یم
کہ خزان راباندے راشی کہ بہار
ترجمہ۔ چاہے خزاں آئے یا بہار ، میں کسی پیڑ کی طرح اپنی جگہ مستقیم یعنی سیدھا کھڑا رہتاہوں۔
اب یہ تو ہمارا کام نہیں کہ اسٹیبل اور اسٹیبلشمنٹ کے اجزائے ترکیبی بھی آپ کو بتا دیں ، کچھ تو آپ خود بھی کرلیا کریں۔