پرانے زمانے یاد آئے مگر اب کیا
اپنے بہتر مستقبل کے لیے خدارا حکمران جماعتیں اب تو اپنی عقل کا استعمال کریں
آج ملک کو بنے ہوئے 75 برس بیت گئے مگر ملک کے حالات بہتر نہ کرسکے، جب کہ مجھے پیدا ہوئے 78 برس گزر گئے زندہ رہا تو دسمبر 2023 میں 79 برس میں داخل ہو جاؤں گا۔
ہمارا کیا دور اور زمانہ تھا۔ جب ایک روپے میں 16 آنے ہوتے تھے اور ایک آنے کے چار پیسے ہوتے تھے اور ایک آنے میں کئی ایک چیزیں مل جاتی تھیں۔ جب بڑے ہوئے تو سندھ مدرسہ الاسلام میں پانچویں جماعت میں والد نے داخل کروایا تو خرچ کرنے کے لیے چار آنے ملتے تھے تو خوب مزہ آتا تھا۔ آلو کے سموسے پکوڑے کھانے کے بعد بھی ہم دوست ایک آنہ بچا لیتے تھے وہ مزے کے دن تھے۔
آج پیچھے مڑ کر دیکھتا ہوں تو بڑی تکلیف ہوتی ہے جب اور بڑے ہوئے تو ریلوے میں 20 برس کی عمر میں ملازمت اختیار کر لی۔ ایوب خان کے دور میں 1967 میں ملک بھر ہڑتالیں اور مظاہرے جاری تھے آٹے اور چینی کی قیمتوں میں فی کلو چار آنے اضافہ ہوا تھا پورا ملک ایوب خان کے خلاف کھڑا ہوگیا تھا۔ ریلوے سمیت شپ یارڈ، کے پی ٹی میں ہڑتالیں جاری تھیں۔
طلبا فیسوں میں اضافے کے سلسلے میں مظاہرے کر رہے تھے اور ڈی ایس ایف اور این ایس ایف ترقی پسند طالب علم، صحافی، دانشور، شاعر اور ادیب بڑھتے ہوئے ظلم کے خلاف مسلسل لکھتے اور مظاہرے کرتے رہے اور پھر ایوب کی کابینہ سے نکلنے والے ذوالفقار علی بھٹو نے پڑوسی ملکوں جن میں روس اور خاص کر چین میں سوشلسٹ انقلابات کو دیکھتے ہوئے اور اپنے ملک میں بڑھتے ہوئے طوفان کو دیکھتے ہوئے ترقی پسند دانشوروں، مزدوروں، کسانوں کے مظاہرے دیکھتے ہوئے نومبر 1967 میں لاہور میں ڈاکٹر مبشر حسن کے گھر پر پاکستان پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھ دی۔
جس کا منشور اس وقت کے رحیم J.A ، ڈاکٹر مبشر حسن، معراج محمد خان، خورشید حسن میر، بابائے سوشلزم شیخ محمد رشید، مختار رانا، اسلم گورداس پوری سمیت تمام ہی لیفٹ کے ترقی پسند عوام دوست رہنماؤں نے بنایا۔ جس کا پہلا نعرہ روٹی، کپڑا اور مکان اور اسلامی سوشل ازم ہماری معیشت، اسلام ہمارا دین اور طاقت کا سرچشمہ عوام ہو گا۔
اس کے بعد عوام سڑکوں پر نکل آئے اور جنرل ایوب خان کو جانا پڑا اور اقتدار دوسرے فوجی جرنیل یحییٰ خان کو منتقل کر دیا گیا اور پھر 1970 میں پہلی مرتبہ عوام کو ووٹ کا حق مل گیا۔ اس کے بعد کی تاریخ میں جو کچھ ہوا وہ سب کو معلوم ہے ہمارا ملک ٹوٹ گیا اور مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن گیا، لیکن بعد میں کیا ہوا۔ اس کا بھی تاریخ کے طالب علموں کو معلوم ہے۔
اس دور میں ترقی پسند تحریکیں مضبوط تھیں اور بڑی فعال تھیں طالب علم کی تنظیمیں بھی محنت کشوں کے ساتھ مل کر نعرہ لگاتی تھیں،کون بچائے گا پاکستان، طلبا، مزدور اور کسان۔ خیر وقت گزرتا گیا اور حالات بدلتے گئے۔
انجمن ترقی پسند مصنفین،کمیونسٹ پارٹی، ٹریڈ یونین تحریک، ملوں اور کارخانوں میں ترقی پسند ٹریڈ یونین کے رہنما، سائٹ، لانڈھی،کورنگی میں نبی احمد، ایس لودھی، عثمان بلوچ، محترمہ کنیز فاطمہ، نایاب نقوی، ابوبکر بھائی، ابن ایوب بابا، غیاث الدین، محمد یامین، ڈاکٹر اعزاز نذیر، ڈاکٹر شمیم زین الدین، زین الدین خان لودھی سمیت ہم سب ریلوے کے مزدور رہنما مرزا محمد ابراہیم، پھر کمیونسٹ پارٹی کے نازش علی امروہوی، جام ساقی، نذیر عباسی، معراج محمد خان، داؤد مل کے رہنما عزیز الحسن، باور خان، اشرف حسین رضوی سمیت ہم سب شامل تھے آج جب ہم پیچھے مڑ کر دیکھتے ہیں تو بڑا عجیب لگتا ہے۔
آج ملک میں 2 کمیونسٹ پارٹی ایک امداد قاضی اور ایک انجینئر جمیل احمد راولپنڈی، نیشنل پارٹی کے سابق رہنما ڈاکٹر حئی بلوچ مرحوم اور نیشنل پارٹی کے عبدالمالک بلوچ، جان محمد بلیدی، ملک ایوب عوامی ورکرز پارٹی کے سابق اور موجودہ سربراہ عابد حسن منٹو، اختر حسین ایڈووکیٹ، بخشل تھلو اور ان کی بیگم عالیہ بخشل، نیشنل پارٹی جان محمد بلیدی سب ہی موجود ہیں مگر اب ہم محدود ہوگئے ہیں، چند دن پہلے کراچی پریس کلب کے باہر گریٹ لیفٹ ڈیموکریٹک الائنس کا ایک مظاہرہ تھا۔ جہاں میرے خیال میں ہزاروں نہ سہی سیکڑوں سیاسی ورکرز ہوں گے۔
ہمارے کراچی کے صدر شفیع شیخ اور جمیل شاہد ایڈووکیٹ نے عوامی ورکرز پارٹی نے اس کا اہتمام کیا تھا مگر بڑی مایوسی ہوئی سیاسی کارکن ٹریڈ یونین رہنما ایوب قریشی، ڈاکٹر توصیف احمد سمیت کوئی تین یا چار سو لوگ جمع تھے۔ پریس کے نمایندے بھی برائے نام تھے۔
ہاں ابھی محترمہ کنیز فاطمہ، اشرف حسین رضوی اور عزیز الحسن حیات ہیں جنھوں نے ایک بڑی لمبی جدوجہد کی ہے اسی طرح پاکستان مزدور محاذ کے سیاسی اور مزدور رہنما طفیل عباس، ذکی عباس اور اظہر بھی بڑے فعال رہے اور ان کے ساتھی چوہدری شوکت علی ان کی اہلیہ اب بھی کام کر رہے ہیں لیکن آج ہمارے ملک میں وہی سیاسی جماعتیں اور حکام مارشل لا کی شکل میں اور سیاسی جماعتیں جمہوریت کی شکل میں ہمیں ورلڈ بینک آئی ایم ایف کے چکر میں مہنگائی کا تحفہ دے کر بڑی مشکل میں ڈال گئے ہیں۔
ملک کے نئے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے فل کورٹ جن میں محترم 15 ججز شامل ہیں انھیں ملک بھر کے عوام کو ان کے چہرے دکھا کر عوام کو بتا دیا ہے کہ یہ ہمارے سپریم کورٹ کے 15 ججز ہیں اور ہم سب مل کر کچھ بہتری کی طرف سفر کریں گے اور 55 ہزار کیسز جوکہ زیر التوا ہیں ان پر غوروخوض کیا جائے گا۔
ہم سمجھتے ہیں اگر ملک میں انصاف ہوگا، اصل جمہوریت ہوگی تمام لوگوں کو انسانی حقوق ملیں گے تو شاید ہمارا ملک بھی ترقی کی منزلیں طے کر سکے گا ورنہ وہی جاگیرداروں، سرمایہ داروں، فوجی جرنیلوں، بیورو کریٹ اور اشرافیہ کی حکمرانی ہوگی تو پھر ہم کس طرح کرپشن، لوٹ مار، اقربا پروری سے نجات حاصل کرسکیں گے۔
آج ملک میں بھوک، غربت بے روزگاری، بیماری، بے گھری اور خودکشی کے رجحان بڑھتے جا رہے ہیں جب کہ دوسری طرف کرپشن، لوٹ مار، رشوت خوری، قتل و غارت زمینوں پر قبضے، بجلی اور گیس کی چوری، چینی، آٹا، گندم کی ذخیرہ اندوزی اور ڈالر کی اسمگلنگ کی جا رہی ہو تو پھر ہماری نوجوان اور پڑھی لکھی نسل ملک چھوڑ کر دیار غیر جا رہی ہے۔
اپنے بہتر مستقبل کے لیے خدارا حکمران جماعتیں اب تو اپنی عقل کا استعمال کریں اور ہر جماعت اپنے اپنے منشور میں محنت کشوں، کسانوں، ہاریوں کو سینیٹ سمیت قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں 10، 10 سیٹیں دینے کا اعلان ہی کر دیں، اسی طرح الیکشن کمیشن آف پاکستان میں جس طرح خواتین کے لیے مخصوص نشستوں کی تعداد مقررکی ہے، اسی طرح کم ازکم 15 کروڑ غریب عوام مزدور کسان کے لیے بھی مخصوص نشستوں کی ہدایات تمام پارٹیوں کو جاری کی جائیں، ورنہ پھر ہمارے ملک کے عوام انھی سیاسی جماعتوں کو ووٹ دے کر برسر اقتدار لے آئیں گے اور ہم پھر اندھیروں میں رہتے ہوئے اپنی زندگی گزار رہے ہوں گے۔
آج اگر دہشت گردی کے ساتھ ساتھ انکم ٹیکس کی ادائیگی، بجلی چوری، گیس چوری، چینی اور آٹا چوری یا اسمگلنگ، ڈیزل پٹرول کی اسمگلنگ نہ روکی گئی تو ملک اپنے پیروں پر کھڑا نہ ہو سکے گا اور ڈالرکی قدر مزید بڑھتی جائے گی۔ ڈالر کی اسمگلنگ، ذخیرہ اندوزی اور ایران اور افغانستان سے اسمگلنگ کو روکا جائے۔ خالد علیگ کا شعر یاد آگیا:
ہم صبح پرستوں کی یہ ریت پرانی ہے
ہاتھوں میں قلم رکھنا یا ہاتھ قلم رکھنا