نریندر مودی کی سیاست کا بیانیہ
نریندر مودی کی اس سیاست کو سخت گیر ہندووں کی حمایت حاصل ہے
نریندر مودی کی سیاسی طاقت ہندواتا ہے۔ وہ بھار ت کو ہندواتا کے تحت چلانا چاہتے ہیں ۔ نریندر مودی کی اس سیاست کو سخت گیر ہندووں کی حمایت حاصل ہے۔
اگلے برس 2024میں بھارت میں لوک سبھا کے انتخابات ہونے والے ہیں ۔نریندر مودی، بی جے پی اور انتہا پسند جماعتوں کی ساری توجہ کا مرکز عام انتخابات ہیں ۔ اس وقت سیاست پر نریندر مودی کی مقبولیت میں کمی واقع ہوئی ہے ۔کئی ریاستوں کے حالیہ انتخابات میں نریند ر مودی کی جماعت کو شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
یہ ہی وجہ ہے کہ اس وقت نریندر مودی کا چیلنج جہاں اگلے عام انتخابات او را س کے نتائج ہیں تو دوسری طرف اسی انتخابات کو بنیاد بنا کر اسے ایک مضبوط سیاسی بیانیہ درکار ہے ۔ وہ ہندواتا کی سیاست کو بھی چھوڑنے کے لیے تیار نہیں اور اسے اپنی طاقت ہی سمجھتے ہیں ۔لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس بار وہ معاشی بیانیہ بھی دینا چاہتے ہیں او رلوگوں کی اس نقطہ پر حمایت چاہتے ہیں کہ ہمیں بھارت کو معاشی میدان میں ایک بڑے کردار کے طور پر پیش کرنا ہے۔
وہ بھارت میں ووٹرز کو یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ آج کی ہماری معیشت عالمی دنیا کو مجبور کرتی ہے کہ وہ ہمارے ساتھ خود کو جوڑے رکھے ۔ان کا نیا معاشی نعرہ '' ساری دنیا ایک خاندان ایک مستقبل ہے '' ۔ بھارت میں اس کی زیادہ تشہیر کی جارہی ہے کہ ہم اس پورے خطہ کی سیاست میںہی اپنی معاشی ترقی کی بنیاد پر بڑی طاقت بن گئے ہیں ۔
حالیہ 9اور10ستمبر 2023کو دہلی میں ہونے والی جی 20کی سربراہی کانفرنس کو بھی اسی سیاسی و معاشی بنیاد پر جوڑ کر دیکھا جانا چاہیے ۔ کیونکہ نریندر مودی اس کانفرنس او راس کے مشترکہ اعلامیہ یا نئے معاشی امکانات کو بنیاد بنا کرایک نئے معاشی ترقی کے بیانیہ کو ایک بڑے سیاسی بیانیہ کے طور پر پیش کرنے کا ارادہ رکھتا ہے ۔نریندر مودی اس جی 20کانفرنس کے ماحول، تجاویز اور اعلامیہ کو بنیاد بنا کر اسے انتخابی سیاست کے طور پر استعمال کرنے کی بھرپور کوشش کریں گے۔
نریندر مودی نے بڑی کمال ہوشیاری سے جی 20کانفرنس کو بنیاد بنا کر داخلی سطح پر موجود کاروبار طبقات، میڈیا، سیاسی قیادت یا جماعتوں، سول سوسائٹی کے سامنے اپنی ترقی کی بنیاد پر نیا انتخابی ایجنڈا پیش کرنے کی وہ کوشش کررہے ہیں۔بھارت او رنریندر مودی نے اس جی 20 کانفرنس کی بنیاد پر خود کو ایک بڑے عالمی کھلاڑی کے طو رپر پیش کیا ہے او ر یہ پیغام دنیاکو دیا جارہا ہے کہ بھارت معاشی امکانات کا ملک ہے اور سب کو اس سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔
یہ ہی وجہ ہے کہ اس جی 20کانفرنس کا ماحول کافی سجایا گیا او راس کے نتیجے میں فوری طور پر معاشی امکانات کے مقابلے میں سیاسی فوائد کو حاصل کرنا ہے ۔لیکن ساتھ ساتھ وہ بھارت میں عوام کو یہ پیغام بھی دے رہے ہیں کہ ہم اس بات کے اہل ہیں چین کے مقابلے میں تیسری دنیا کے کی ترقی پزیر اور ابھرتی ہوئی معیشت کے مالک ممالک کی قیادت کرسکتے ہیں ۔کیونکہ چین کے بعد بھارت ایک بڑی عالمی مارکیٹ کی حیثیت رکھتا ہے او راسی فائدہ کو وہ بنیاد بنا کر اس پورے خطہ میں ایک بڑی معاشی طاقت بننے کی خواہش رکھتا ہے۔
نریندر مودی بھارت کو ایک بڑی معاشی طاقت کے طور پر پیش کرکے انتخابی مقابلہ میں بڑی کامیابی کے خواہش مند ہیں ۔اسی بنیاد پر '' انڈیا مڈل ایسٹ یورپ اکنامک کاریڈور'' کو بھارت کی سفارتی اور ڈپلومیسی کے محاذ پر خصوصی اہمیت دی جارہی ہے ۔یہ ہی وجہ ہے کہ نریندر مودی کے سیاسی مخالفین او ربالخصوص کانگریس میں یہ تشویش کا پہلو موجود ہے کہ ہمیں مودی کے نئے سیاسی و معاشی عزائم سے نئے مسائل کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔
کیونکہ ابھی تک تو نریندر مودی کے مخالفین مودی کی ہندواتا سیاست کو بھارت کے لیے خطرہ کے طور پر پیش کرتے تھے ۔لیکن اب مودی کے معاشی ایجنڈے او ربھارتی معاشی حاکمیت پر کیسے تنقید کی جائے ۔ اگرچہ انتخابات او راس کے سیاسی نتائج پر کچھ کہنا قبل ازوقت ہوگا لیکن نریندر مودی کی پوری کوشش ہے کہ اس وقت جو ان کی حکومت کے بارے میں کمزور تصورات ابھر رہے ہیں اس کو کم کیا جائے اور معاشی ترقی کے ایجنڈے کو بنیاد بنا کر اسے ایک بڑے سیاسی ہتھیار کے طو رپر استعمال کیا جائے۔
نریندر مودی داخلی اور خارجی دونوں محاذوں پر '' ایک ملک ایک خاندان او رایک مستقبل '' کی پالیسی کو آگے بڑھانا چاہتے ہیں ۔لیکن اس کا تجزیہ کریں تو اس میں سب سے بڑی رکاوٹ ان کا او رکی حکومت کا ہندواتا پر مبنی سیاست ہے ۔کیونکہ یہ جو نیا بیانیہ بنایا جارہا ہے اس کو بنیاد بنا کر اگر مودی کی سیاست کا تجزیہ کیاجائے تو اس میں بھارت میں موجود مسلمانوں، کشمیریوں او ردیگر اقلیتوں کے ساتھ جو سلوک یا غیر انسانی طرز عمل اختیار کیا جارہا ہے وہ اس معاشی ترقی کے ایجنڈے سے مطابقت نہیں رکھتا۔
کیونکہ نریندر مودی کی پالیسیوں پر تنقید صرف عالمی میڈیا تک ہی محدود نہیں بلکہ عالمی سطح پر انسانی حقوق کے اداروں اور دنیا کی پارلیمنٹ سمیت وہاں کہ میڈیا میں موجود ہے کہ مذہب کی بنیاد پر انتہا پسند رجحانات پر مبنی پالیسیاں بھارت کے لیے خطرہ ہے ۔ ایک طرف بھارت کے لیے تو دوسری طرف مجموعی طور پر اس خطہ کی سیاست میں بھی بھارتی جنگی او رانتہا پسندانہ عزائم خطرات کا نقشہ پیش کرتے ہیں ۔یہ ہی وجہ ہے کہ بھارت میں بھی سول سوسائٹی کے پنڈتوں کے بقول مودی کے سخت گیر عزائم ہماری ملک کی معیشت کی ترقی کو بھی پیچھے کی طرف دکھیل سکتی ہے۔
نریندر مودی ایک طرف نہ صرف بھارت بلکہ پوری عالمی دنیا کو اپنی گلوبل حمایت کے ساتھ جوڑنا چاہتے ہیں اور دنیا کو ایک ہونے کا واضح پیغام دے رہے ہیں تو دوسری طرف نریندر مودی کی مذہبی او رانتہاپسندانہ یا ہندواتا پر مبنی سیاست بھارت میں ہندووں کے اپنے ہی اندر یا دیگر مذاہب میں تقسیم، نفرت اور تعصب جس میں سیاست بھی ہے او رمذہب بھی پیش کررہا ہے ۔حالیہ دنوں میں کینیڈا میں ایک سکھ راہنما ہردیپ سنگھ نجر کے قتل پر بھارت اور کینیڈا تنازعہ سامنے آیا ہے ۔ دونوں نے ایک دوسرے کے سفارت کار کو ملک بدر کردیا ہے۔
کینیڈا کے وزیر اعظم کے بقول یہ واقعہ دہشت گردی کے زمرے میں آتا ہے جو ہماری خود مختاری کے خلاف ہے جو کسی بھی صورت برداشت نہیں کی جائے گی۔سکھوں کی عالمی تنظیم کے مطابق تھوڑے عرصہ میں سولہ سے زیادہ سکھوں کو مختلف ملکوں میں نشانہ بنایا گیا او راس کے پیچھے بھارت کی خفیہ ایجنسیاں شامل ہیں ۔یہ عمل ظاہر کرتا ہے کہ جو کام بھارت سیاسی اور سفارتی طور طریقوں سے نہیں کرپاتا تو اس کے بعد پرتشدد پالیسی ہی کو بنیاد بنا کر وہ اپنے مخالفین کے خلاف بطور ہتھیار استعمال کرتا ہے ۔
اس لیے اگر آج بھارت ایک بڑی معیشت کے طور پر سامنے آرہا ہے تو دوسری طرف اس کی انتہا پسندانہ سیاست یا انتہا پسندی جیسا طرزعمل یا رجحانات بالخصوص دیگر مذاہب کے ساتھ ایک بڑا چیلنج ہے ۔کیونکہ انتہا پسندی یا پرتشدد رجحانات کو بنیاد بنا کر معاشی ترقی کا عمل ہوسکتا ہے مگر یہ پائیدار عمل نہیں ۔بھارت کے آئین سے سیکولر ازم کے لفظ کو نکالنے کی سوچ ظاہر کرتی ہے کہ مودی حکومت کا سب سے بڑا ہتھیار جو اس وقت سیاسی محاذ پر غالب ہے وہ انتہا پسندی پر مبنی ایجنڈا ہے۔