بھاگ میرے وطن سے بھاگ
وقت کا تقاضا ہے کہ ہم ان باتوں پر غور کریں کہ کیا کوئی ایسا راستہ ہے کہ ہم بچ سکیں
بھاگ رے پیارے بھاگ میرے وطن سے بھاگ
اوپر اوپر پھول کھلے ہیں بھیتر بھیتر آگ
یہ شعر مرحوم احسان دانش کا ہے۔ انھوں نے یہ شعر آج سے 35 سال پہلے کہا ہوگا جو آج بھی پاکستان میں ایک حقیقت ہے، دوسرے مصرے میں ایک ترمیم کی ضرورت ہے، اب اوپر بھی پھول نہیں کھلے ہوئے بلکہ آگ جل رہی ہے۔
آپ معاشرے کے کسی طبقے سے ملیں ، وہ یہی کہے گا کہ ''بھاگ رے پیارے بھاگ میرے وطن سے بھاگ''۔ ہم یہاں تک کیسے پہنچے؟ ہر ذی شعور پاکستانی بخوبی آگاہ ہے ہم بیرونی طاقتوں کو برا بھلا کہتے رہے کہ وہ پاکستان کے خلاف سازش کر رہے ہیں لیکن یہ حقیقت عیاںہو چکی ہے کہ سب کچھ ہمارا اپنا کیا دھرا ہے۔
روزانہ کوئی نہ کوئی خبر سننے کو ملتی ہے کہ دل دہل جاتا ہے۔ خودکشی کرنیوالوں کے تناسب میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ مہنگائی اور بیروزگاری سے تنگ افراد کے گھریلو جھگڑے اس حد تک بڑھ گئے ہیں کہ ذہنی دباؤ کے شکار لوگ خودکشی پر مجبور ہوئے ہیں۔
چند روز پہلے اخبار کی ایک خبر تھی کہ جنوبی پنجاب کے شہر حاصل پور میں میاں اور بیوی نے معاشی حالات سے تنگ آکر اپنے دونوں بچوں کو زہر دیا، پھر خود بھی زہر پی لیا۔ ان کی موت کا ذمے دار کون ؟ایسے بدقسمت واقعات اور حالات نے کیوں جنم لیا ہے اس کا ادراک اب ہر ذی شعور پاکستانی کو ہے لیکن ''وہ کسے وکیل کرے کس سے منصفی چاہے''۔ پاکستان کی سیاسی معاشی اور سماجی صورتحال کو دیکھ کر تو یہی کہا جا سکتا ہے کہ
دل کے پھپھولے جل اٹھے سینے کے داغ سے
اس گھر کو اگ لگ گئی گھر کے چراغ سے
ہماری حکومتوں کی گورننس نے ہمیں تاریخ کے ایک ایسے کٹہرے میں لا کھڑا کیا ہے کہ جہاں عام شہری بے بس ہے اور حکمران بے حس۔جب نا انصافی انتہا کو پہنچ جائے اور انصاف کاحصول ممکن نہ ھو تو ریاستیں بکھر جاتی ہیں۔ ہمیں اپنے نظام انصاف کا جائزہ لینا چاہیے۔ ماتحت عدلیہ سے لے کر اعلیٰ عدلیہ تک کی صورتحال کیا ہے؟ انصاف کے حصول میں کیا دقتیں ہیں؟ نظام شہادت کیسا ہے؟ وکلاء کی فیس اور ان کی پروفیشنل مہارت کس معیار کی ہے ؟ کیاججز کی تقرری کا عمل انصاف کے تقاضے پورے کر رہا ہے؟
عدالتی چارہ جوئی کے دوران سائل کو کن مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ماتحت عدلیہ میں پیشی کے لیے آنے والے سائلیں، ملزمان،ججز اور عملے کی سیکیورٹی سسٹم میں کیا کیا خرابیاں اور کمیاں ہیں۔ اس وقت پاکستانی عوام کو آسان انصاف تک رسائی تقریباً نا ممکن ہے۔ عدالتی فیصلوں میں تضادات کی بہتات ہے۔ یہ ایسے سوالات ہیں جن کا جواب دینا آسان نہیں۔
وقت کا تقاضا ہے کہ ہم ان باتوں پر غور کریں کہ کیا کوئی ایسا راستہ ہے کہ ہم بچ سکیں۔ پاسپورٹ اور امیگریشن ڈیپارٹمنٹ کے مطابق گزشتہ تین ماہ سے پاسپورٹ بنانے والوں کی تعداد میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے ۔ اعدادوشمار کے مطابق ہر تین ماہ کے دوران تقریبا پانچ لاکھ افراد پاسپورٹ بنوانے کی درخواستیں دیا کرتے تھے لیکن اب یہ تعداد بڑھ کر سات لاکھ سے بھی تجاوز کر گئی ہے۔ اس غیر معمولی رش کی وجہ سے پاسپورٹ کے اجراء میں دیربھی ہو رہی ہے اور پاسپورٹ حاصل کرنے والے افراد کو بھی مشکل کا سامنا ہے۔
جس ملک میں لوگ دو وقت کی روٹی کا آٹا حاصل کرنے کے لیے ہر روز اپنی جانیں گنوا رہے ہو وہاں سے ہجرت کا خیال آنا کوئی انہونی بات نہیں۔ بات صرف مزدور اور کم تعلیم یافتہ لوگوں کی ھی نہیں بلکہ ایک اور خبر کے مطابق گزشتہ چند ماہ کے دوران کئی لاکھ صاحب علم افراد بھی پاکستان سے ہجرت کرگئے ہیں۔
پاکستانی عوام کواس وقت جس صورتحال کا سامنا ہے اس پر دانشوروں اور تجزیہ نگاروں کی عالمانہ باتوں کی اپنی جگہ اہمیت ہے لیکن ہمارے مسلے کو سادہ الفاظ میں سمجھنے کے لیے اس حکایت پر توجہ دینا ضروری ہے۔ اصولی طور پر یہ کام عدلیہ سمیت تمام اہم قومی اداروں پارلیمنٹ انتظامیہ سیاسی جماعتوں اور اسٹیبلشمنٹ کا ہے لیکن گزشتہ ستر سال میں یہ ادارے اپنا قومی فریضہ ادا کرنے میں ناکام رہے ہیں اس لیے ضروری ہے کہ Grand dialogueگرینڈ ڈائیلاگ شروع کیا جا سکے۔