مقتدا منصور کم بخت نے رُلا دیا
ایسے بے شمار واقعات ہمارے اطراف میں بکھرے ہوئے ہیں۔ جو زبانی تاریخ کا حصہ ہیں
یاد تو نہیں کہ کب اور کہاں ان سے پہلی ملاقات ہوئی تھی لیکن یہ اچھی طرح یاد ہے کہ اپنی گفتگو سے وہ مجھے اپنے قبیلے کے لگے، اگر غلط یاد نہیں تو سکھر سے آئے تھے۔ فراٹے سے سندھی بولتے اور پڑھتے تھے۔
ان دنوں ہم '' روشن خیال'' نکال رہے تھے اور میں بی بی سی کی ملازمت چھوڑ کر پاکستان واپس آگئی تھی۔ ضمیر نیازی، آئی اے رحمان سب ہی موجود تھے۔ یقین تھا کہ ہم سب مل کر پاکستان کے زمین و آسمان بدل دیں گے۔ ایسے زمانے میں مقتدا علی کا ملنا ایک خوش آیند بات تھی۔
وہ مقتدا علی سے مقتدا منصور ہوئے اور زندگی کی آخری سانس تک ایکسپریس کے ان ہی صفحوں پر لکھتے رہے۔ وہ سندھ کی ترقی پسند سیاست میں برسہا برس سرگرم رہے۔ ان کے کالموں اور ان کی سیاست کا نتیجہ 4 کتابوں کی صورت میں نکلا۔ وہ ایک نابینا بیوہ کے بیٹے تھے۔ کیا بینا بیٹا انھوں نے اٹھایا۔
مقتدا جنگ و جدل کے خلاف تھے اور اسی طرح ہندوستان اور پاکستان کی دوستی کو اپنا ایمان سمجھتے تھے۔ انھوں نے اس موضوع پر بہت کچھ لکھا۔ وہ نرملا دیش پانڈے کے حد درجہ مداح تھے۔ ان کی دعوت پر ہندوستان گئے۔ وہاں سے واپس آکر انھوں نے نہایت اثر انگیز کالم لکھے۔ ان میں سے ان کا ایک کالم '' کم بخت نے رلا دیا'' اس کی بہترین مثال ہے۔ مقتدا لکھتے ہیں۔
گوگل انڈیا نے ایک اشتہاری فلم بنائی جسے دوستوں نے فیس بک کے ذریعہ شیئر کیا۔ یہ تقسیم ہند کے نتیجے میں ہونے والی ہجرتوں میں بچھڑ جانے والے دو دوستوں یوسف اور بلدیو کی کہانی ہے۔ جنھیں گوگل نے 66 برس بعد ڈھونڈ نکالنے اور ایک دوسرے سے ملنے کا موقع فراہم کیا۔
یوسف تو لاہور ہی میں رہ گیا ، مگر بلدیو کا گھرانہ فسادات کے نتیجے میں دہلی منتقل ہوگیا۔ یوں دونوں ایک دوسرے سے اچانک بچھڑ گئے۔ کئی دہائیاں گزرنے کے باوجود دلوں میں ایک دوسرے کی یاد تو تازہ تھی، مگر ملنے کی کوئی امید باقی نہیں تھی، لیکن گوگل نے جو دنیا بھر کی معلومات چٹکیوں میں آپ کی دہلیز پر پہنچاتی ہے، ان کی ناامیدی کو امید بلکہ حقیقت میں بدل دیا۔
گوگل پر سرچ کے ذریعہ دونوں خاندانوں کی نہ صرف ایک دوسرے تک رسائی ہوئی، بلکہ ایک دن یوسف بلدیو سے ملنے دلی پہنچ جاتا ہے۔ یوں یوسف اور بلدیو کا ملاپ ہوتا ہے، جو ایک انتہائی جذباتی منظر ہے۔ جاندار اسکرپٹ اور خوبصورت فلم بندی نے اس اشتہار کو انتہائی پر اثر فلم بنادیا ہے، جس نے حساس قلب و ذہن رکھنے والے بہت سے لوگوں کو رلا دیا۔
ایسے بے شمار واقعات ہمارے اطراف میں بکھرے ہوئے ہیں۔ جو زبانی تاریخ کا حصہ ہیں اور جنھیں جمع کر کے دستاویزی شکل دینے کی ضرورت ہے۔ مقتدا کو ایک ایسا ہی واقعہ گورنمنٹ اسکول جیکب لائنز کراچی میں ایک استاد محمد نذیر نے سنایا، جو چند برس پہلے ریٹائرڈ ہوئے ہیں۔ ان کا خاندان مشرقی پنجاب کے ضلع گرداسپور سے ہجرت کر کے پاکستان آیا تھا۔ خاندان کے کئی لوگ فسادات کی نذر ہوگئے۔
لٹا پٹا یہ خاندان جب ہجرت کر رہا تھا تو نذیر کی 19 سالہ پھوپھی ان سے بچھڑ گئی۔ شکر کہ وہ بلوائیوں کے ہتھے چڑھنے کے بجائے ایک شریف النفس سکھ فوجی کپتان کو ملی۔ جس نے اسے اپنی ماں کے پاس چھوڑ کر خاندان والوں کا سراغ لگانے کی کوشش کی، مگر چونکہ یہ خاندان پاکستان منتقل ہوگیا تھا، اس لیے کئی ماہ کی کوشش کے باوجود وہ اپنے خاندان والوں تک نہ پہنچ سکی۔ اس سکھ فوجی کی ماں نے جو کہ ایک نیک دل خاتون تھی۔
اس لڑکی سے کہا کہ اگر تو اس طرح لاوارث انداز سے باہر نکلی تو یہ دنیا تجھے نگل جائے گی۔ اس لیے بہتر یہی ہے کہ تو میرے بیٹے سے شادی کر لے۔ بیس، پچیس برس بعد جب نذیر کے بڑے بھائی کا بیٹا اعلیٰ تعلیم کے لیے گیا تو اس کی دوستی ایک سکھ لڑکے سے ہوئی۔ گرداسپور سے تعلق نے دونوں کی دوستی کو مزید مضبوط بنا دیا۔ دونوں دوستوں نے اپنے اپنے گھر والوں کو ایک دوسرے کے بارے میں بتایا تو یہ عقدہ کھلا کہ وہ سکھ لڑکا ریٹائرڈ بریگیڈیئر کا ہی بیٹا نہیں نذیر کی گمشدہ پھوپھی کا بیٹا ہے۔ یوں1980 کے عشرے میں ان دونوں خاندانوں کا ملاپ ہوا۔
معروف شاعر احمد راہی کا وہ جملہ آج بھی دل پر نشتر کی طرح چلتا ہے کہ '' لاہور سے امرتسر صرف 27 میل کی مسافت پر ہے، مگر میں نے یہ فاصلہ 27 برس میں طے کیا۔'' میری بیگم کے خالو سراج الدین آگرہ میں پیدا ہوئے 17 برس کی عمر میں پاکستان آئے اور پھر کبھی اس دیار میں نہ جاسکے جہاں ابھرتی ہوئی جوانی کے دن گزارے تھے۔ دو برس قبل82 برس کی عمر میں آگرہ دیکھنے کی حسرت لیے اس دنیا سے چلے گئے۔
بارہا یہ واقعہ رقم کیا ہے کہ دہلی کے ایک بڑے سکھ ٹیکسی ڈرائیور سے جب میں نے ٹوٹی پھوٹی پنجابی میں جامعہ ملیہ جانے کا کہا تو اس نے فوراً پوچھا '' تسی پاکستانوں آئے ہو'' میرے اثبات میں سر ہلانے پر اس نے بتایا کہ اس کا تعلق ساہیوال سے ہے اور جب بٹوارا ہوا تو وہ پانچویں جماعت میں پڑھتا تھا۔ اسے اپنے اسکول کے دوستوں کے نام اور شکلیں یاد ہیں۔ پھر خود ہی بڑبڑایا کہ جانے وہ کس حال میں اور کہاں ہوں گے۔ اچانک میری طرف مڑا اور پوچھا کہ میں نے کبھی ساہیوال دیکھا ہے۔
میں نے اسے بتایا کہ میری بڑی بیٹی کی سسرال ساہیوال کی ہے، تو گویا وہ اچھل پڑا۔ پنجابی میں اس نے جو کہا اس کا مطلب یہ تھا کہ تم تو اپنے رشتہ دار نکل آئے ہو۔ تمہاری بیٹی میری بہو ہے، اس لیے بہو کے باپ سے میں کرایہ نہیں لوں گا۔ میرے اصرار پر اس نے بادل ناخواستہ کرایہ تو لے لیا مگر مجھ سے ملتجانہ انداز میں کہا کہ میں اس کے ساتھ چائے پیوں۔ میں اس کے جذبات کے تلاطم کو محسوس کررہا تھا۔ اس لیے انکار نہ کرسکا اور اس کے ساتھ ایک چائے خانے میں بیٹھ گیا۔
تقسیم ہند ایک حقیقت ہے، یہ تاریخ کا اہم واقعہ ہے۔ اس کے نتیجے میں وجود میں آنے والے ممالک تاریخی حقیقت ہیں۔ مگر اس دوران ہونے والی ہجرتیں بھی تاریخ کا جبر ہیں۔ بیشمار گھرانے ایسے ہیں جو اس جبر کے نتیجے میں تقسیم ہوئے۔ بہت سے خاندان نا چاہتے ہوئے بھی اپنے اجداد کی دھرتی چھوڑنے پر مجبور ہوئے۔
آج نصف صدی سے زیادہ عرصہ گزرنے کے باعث سرحد کی دونوں جانب گوکہ ایسے لوگ اب بہت کم رہ گئے ہیں جنھوں نے ہجرتوں کا دکھ سہا۔ نہ چاہتے ہوئے بھی اپنی جنم بھومی چھوڑی اور آگ و خون کے سیلاب رواں کو اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ مگر ان کی اولادوں میں بھی اپنے اجداد کی دھرتی دیکھنے کا جوش و ولولہ پایا جاتا ہے، کیونکہ انھوں نے اپنے بزرگوں سے ان کے آبائی وطن کی جو داستانیں سنی ہیں وہ ان کے قلب و ذہن پہ نقش ہوچکی ہیں۔
جو باقی بچے ہیں ان کی آنکھوں میں آج بھی ان گھروں، گلیوں اور محلوں کو دیکھنے کے خواب سجے ہیں۔ جہاں انھوں نے آنکھ کھولی، بچپن اور لڑکپن کے دن گزارے۔ وہ اسی تمنا میں دن بتا رہے ہیں کہ کسی دن انھیں یہ خوشخبری ملے گی کہ دونوں حکومتوں نے سینئر شہریوں کو ایک دوسرے کے ملک جانے کی کھلی اجازت دے دی ہے۔ سرحد کی دونوں جانب ایسے بے شمار نوجوان ملیں گے، جنھوں نے اجداد کا آبائی وطن کبھی نہیں دیکھا اور نہ ہی اس سے کوئی جذباتی لگائو ہے مگر انھیں جستجو ہے کہ کسی طرح وہ اپنے ماضی کے نقوش تلاش کرسکیں۔
آئیے! ہم سب مل کر دھرتی کے ہر یوسف کو اس کے لڑکپن کے دوست بلدیو سے ملانے کی راہ ہموار کریں اور قیام امن میں اپنا حصہ ڈالیں۔
مقتدا نے مجھ سے بارہا یہ کہا کہ آئیے! آپا ہم دونوں مل کر ان واقعات کو اکٹھا کریں اور اسے فلم یا ٹیلی ڈرامے کی شکل دیں لیکن وہ وقت کبھی نہ آیا۔ وہ زندگی سے اتنی جلدی گزرگئے، لیکن انھوں نے اپنی شریک حیات عطیہ کو بے آسرا نہیں چھوڑا، اپنے بچوں کو اچھی تعلیم دلائی اور وہ ایک ایسے مخلص دوست تھے کہ نا وقت جا کر سب کو رلا گئے۔