بھارتی حکمران چاند پر غریب عوام پاتال میں
ہندو سپرمیسی کے پرچارک مودی کی پالیسیاں بھارت کو نفرت وغربت کا گڑھ بنا چکیں
بھارت کی ریاست اترپردیش کا ضلع مظفرنگر ان گنے چنے بھارتی اضلاع میں شامل ہے جہاں مسلمانوں کی بڑی تعداد آباد ہے۔اس ضلع میں پچپن لاکھ لوگ بستے ہیں۔
ان میں سے 41فیصد مسلمان ہیں۔اتنی بڑی تعداد ہونے کے باوجود وہ ہندو اکثریت کا مقابلہ نہیں کر پاتے کیونکہ یہ انتظامیہ، کاروبار اور صنعت وتجارت پہ چھائی ہوئی ہے۔بیشتر مسلمان معمولی ملازمتیں کرنے پہ مجبور ہیں اور معاشرے میں کم طاقت یا اثرورسوخ رکھتے ہیں۔خصوصاً جب سے کٹر ہندو، نریندر مودی وزیراعظم بنا ہے، ہندو غنڈے آئے دن مسلمانان ِمظفرنگر کو ڈراتے دہمکاتے اور لڑنے کے بہانے ڈھونڈتے رہتے ہیں۔
انتہا پسند ہندو تنظیموں ، آر یس ایس اور بی جے پی کے رہنما کی حیثیت سے نریندر مودی اور اس کے ہم نوا پچھلے پچاس برس سے یہ پروپیگنڈا کرتے چلے آ رہے ہیں کہ مسلمان حکمران آٹھ سو سال تک ہندو عوام پہ ظلم وستم کرتے رہے اور انھیں غلام بنائے رکھا۔اب ہندؤں کی حکومت ہے لہذا مسلمانوں سے بدلہ لینے کا وقت آ پہنچا۔ اب ہندو عوام کو چاہیے کہ وہ مسلمانوں کو غلام بنا لیں اور ان پہ ہر ممکن ظلم ڈھائیں۔
اس طویل منفی پروپیگنڈے کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ بھارت کے طول و عرض میں عام ہندو اس سے متاثر ہو چکے ۔ان میں مسلم دشمنی کا زہر پھیل چکا۔عام ہندو اس پروپیگنڈے سے اس لیے متاثر ہوئے کہ اس نے ان میں ہندو قوم کے برتر واعلی ہونے کا احساس پیدا کردیا۔وہ فخر وغرور میں مبتلا ہو گئے۔وہ مسلمانوں کو مار پیٹ کر نفسیاتی تسکین محسوس کرنے لگے۔
ان میں اس تصّور نے جنم لیا کہ وہ جب چاہیں مسلمانوں کو مار سکتے ہیں، کوئی انھیں روکنے ٹوکنے والا نہیں۔یہی احساس 2014ء کے بعد بھارت کے گلی کوچوں میں مخلتف طریقوں سے ظاہر ہو رہا ہے۔
کبھی گائے لے جانے پر مسلمانوں کو بہیمانہ طریقے سے شہید کیا جاتا ہے تو کبھی اسلامی لباس پہننے پہ مسلمان ہندو بلوائیوں کے جذبہ ِانتقام کا نشانہ بنتے ہیں اور انھیں سرعام مارا پیٹا جاتا ہے۔گالیاں دی جاتیں اور جے شری رام کے نعرے لگانے پہ مجبور کیا جاتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ آج بھارت میں اکثریتی ہندو اقلیتی مسلمانوں کو جانوروں سے بھی بدتر سمجھنے لگے ہیں اور ان کے ساتھ توہین آمیز، تضحیک سے پُر اور گھٹیا سلوک کیا جاتا ہے۔مٹھی بھر بااثر مسلمانوں کو چھوڑ کر عام ہندو دیگر مسلمانوں سے ناروا اور نفرت انگیز سلوک کرتے ہیں۔
ذرا زور سے مارو
اس سچائی کی ایک مثال پچھلے دنوں ضلع مظفرنگر کے ایک دیہہ، خوباپور میں سامنے آئی۔وہاں ایک ہندو عورت، تریپتا تیاگی نے پرائمری اسکول کھول رکھا تھا۔اسکول میں مسلمان اور ہندو بچے پڑھتے تھے۔ تریپتا اکثر ہندو بچوں سے مسلم طالب علم کو پٹواتی تھی۔مسلمان بچہ پڑھائی میں معمولی سی غلطی بھی کرتا تو تریپتا کے غیظ وغصب کا نشانہ بن جاتا۔
پچھلے ماہ ہندو بچوں کے ہاتھوں پٹتے ایک مسلم طالب علم کی وڈیو بھارت اور پوری دنیا میں وائرل ہو گئی۔اس وڈیو میں تریپتا تیاگی وقتاً فوقتاً مسلمانوں کے خلاف زہر اگلتی اور انھیں بھارت سے نکل جانے کا کہتی ہے۔
مسلمان بچہ خوف سے کانپ رہا ہے۔آنکھوں میں آنسو ہیں مگر سنگ دل ٹیچر کو اس پہ ذرا رحم نہیں آتا، وہ مارنے والے بچوں سے کہتی ہے کہ اسے زور سے مارو۔بیچارا بچہ پٹتا رہا۔بعد ازاں مسلم طلبہ نے صحافیوں کو بتایا کہ تریپتا تیاگی صرف مسلمان بچوں کو ہندو بچوں سے پٹواتی تھی۔
اس دلدوز واقعے نے بھارت میں انسان دوست اور غیر معتصب بھارتیوں کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔انھوں نے سوشل میڈیا پہ اس واقعے کے خلاف زورار احتجاج کیا۔اس احتجاج کے بعد ہی مودی حکومت حرکت میں آئی مگر تریپتا تیاگی کے خلاف کوئی سخت کارروائی نہیں ہوئی۔اس کے خلاف قابل ضمانت پرچا کاٹا گیا لہذا وہ جیل نہ جا سکی۔
بلکہ آر ایس ایس، بجرنگ دل اور وشواہندو پریشد کے کٹر ہندو رہنماؤں نے اسے اپنی ''ہیروئن'' بنا کر پیش کیا۔یہی وجہ ہے، تریپتا میں اتنی جرات پیدا ہو گئی کہ وہ کہہ اٹھی:''مجھے اپنے کیے پر شرمندگی نہیں ۔''گویا کٹر ہندوؤں کی حمایت پا کر اس کا ضمیر مردہ ہو گیا۔
یہ نہایت تشویش ناک اور خطرناک امر ہے کہ نریندر مودی اور اس کی ٹیم نے بھارت میں مسلمانوں کے خلاف جو زہریلے اور نفرت انگیز نظریات پھیلا دئیے ہیں، وہ بڑی تیزی سے عام ہندوؤں میں نفوذ کر رہے ہیں۔اسی لیے مسلمانوں ، دلتوں اور غیر ہندو قبائلیوں کے خلاف جنم لیتے خوباپور اور منی پور جیسے انسانیت سوز واقعات بھارت میں معمول بن چکے۔
ان واقعات کی وجہ سے بھارت میں خانہ جنگی اور وسیع پیمانے پہ فسادات ہونے کا خطرہ بڑھ رہا ہے۔کانگریس کے سابق صدر، راہول گاندھی نے خوباپور واقعے کے متعلق ٹویٹ کر کے اپنی قوم کو خبردار کیا:
''یہ استانی معصوم بچوں کے ذہنوں میں تعصب و نفرت کے بیج بو رہی ہے۔اس نے اسکول جیسے مقدس مقام کو نفرت کی منڈی میں بدل دیا...ایک استاد اس سے زیادہ اپنے ملک وقوم کو نقصان نہیں پہنچا سکتا۔
بی جے پی پورے ملک میں مٹی کا تیل چھڑک کر جو خوفناک آگ لگا رہی ہے، یہ واقعہ اسی کی پیداوار ہے...بچے بھارت کا مستقبل ہیں، ان سے نفرت مت کیجیے، ہم سب کو مل کر انھیں محبت کا سبق پڑھانا چاہیے۔''
بھارت کے مشہور مسلمان رہنما، اسد الدین اویسی نے ٹویٹ کیا:''اسکول کا یہ لرزہ خیز واقعہ بی جے پی کی نو سالہ نفرت انگیز مہم کا نتیجہ ہے۔اب تو معصوم (ہندو) بچوں کے ذہن میں بھی یہ بات بٹھائی جا رہی ہے کہ وہ سزا ملنے کا خوف لیے بغیر مسلم بچوں کو مارپیٹ کر اور انھیں ذلیل کر سکتے ہیں۔''
ورون گاندھی بی جے پی کا واحد رہنما ہے جس نے اس واقعے پر اظہار ِافسوس کیا۔اس نے ٹویٹ کیا؛''معلومات کے مندر میں ایک بچے کے ساتھ جو توہین آمیز سلوک کیا گیا، ان نے بھارت ماتا (مملکت)کا سر شرم سے جھکا دیا۔''
مودی حکومت کو مگر اس اندوہناک واقعے پر کوئی شرم آئی اور نہ اس نے اپنے ضمیر پہ کوئی بوجھ محسوس کیا۔الٹا حکومت کی ہدایت پر سوشل میڈیا میں واقعے سے متعلق ہندو انتہا پرستی کی مذمت کرنے والی پوسٹوں اور ٹویٹس پہ پابندی لگا دی گئی۔
گویا مودی حکومت کی بھرپور سعی رہی کہ اس واقعے کی سنگینی کو دبا دیا جائے۔اس کے باوجود یہ ظالمانہ واقعہ عالمی میڈیا پہ نمایاں ہوا اور مشہور ویب سائٹس نے اسے نشر کیا۔
حالات سے عیاں ہے کہ اگر جوباپور واقعے میں استانی مسلمان ہوتی اور بچہ ہندو تو مودی حکومت قیامت برپا کر دیتی۔استانی کو فورا ً گرفتار کر کے مارا پیٹا جاتا۔اس کے گھر اور اسکول پہ بلڈوزر چل جاتے۔یہی نہیں مسلم استانی کے رشتے داروں پر بھی عذاب نازل ہو جاتا۔استانی مگر ہندو تھی، اسی لیے اس کے خلاف سخت ایکشن نہیں ہوا بلکہ ہندو قوم پرستوں نے تو اسے اپنی ہیروئین بنا لیا۔
اس قسم کی منافقت بھارت بھر میں عام ہو چکی۔یہ ہے مودی حکومت کا اصل چہرہ جسے وہ دنیا والوں سے پوشیدہ رکھتی ہے تاکہ اس کی خباثت، مسلم دشمنی اور چال بازیاں افشا نہ ہو سکیں۔
چاند سے کیا ملا؟
جب بھارتی خلائی جہاز چاند پہ اتر گیا تو بھارتی حکومت نے بہت خوشیاں منائیں۔اب وہ سورج کی جانب خلائی جہاز بھجوانے کا ارادہ رکھتی ہے۔سوال لیکن یہ ہے کہ ایک بنجر اور ویران مقام پہ تقریباً دس کروڑ ڈالر (تیس ارب روپے)خرچ کر کے مودی حکومت کو کیا ملا؟سچ یہ ہے کہ کچھ بھی نہیں!کیا یہ بہتر نہ تھا کہ دس کروڑ ڈالر سے غریبوں کے لیے اسکول یا اسپتال بنا دیا جاتا۔
انھیں روزگار کے لیے رقم فراہم کی جاتی۔کوئی فلاحی منصوبہ شروع کیا جاتا جو غربا کو فائدہ دیتا، ان کا معیار زندگی بلند کر دیتا۔ایسا کچھ نہیں ہوا، بس عالمی میڈیا میں ''واہ واہ''سے مودی جنتا کو یہ نفسیاتی تسکین مل گئی کہ ''شائنگ انڈیا'' سپر پاورز کے نقش قدم پر چلتے چاند پہ جا پہنچا۔
حکمران طبقے کا پروپیگنڈا
مودی حکومت دعوی کرتی ہے کہ بھارت زبردست معاشی ترقی کر رہا ہے۔یہ بھی ایک بڑا جھوٹ اور حکمران طبقے کا پروپیگنڈا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ اس معاشی ترقی سے صرف بھارت کے وہ افراد مستفید ہو رہے ہیں جو حکمران طبقے اور شہروں کے دولتمند طبقوں میں شامل ہیں۔ان مستفیدگان کی تعداد 20 سے 25 کروڑ کے درمیان ہو گی۔بقیہ ایک ارب سے زائد بھارتی باشندے پہلے کی طرح غربت، بیماری، جہالت، پسماندگی، بیروزگاری اور مہنگائی کے پنجوں میں پھنسے بڑی افسوس ناک اور قابل رحم زندگی گذار رہے ہیں۔
ماہرین معاشیات کی رو سے نریندر مودی نے وزیر اعلی گجرات کے طور پر 2001ء تا 2014 ء ترقی کا جو ماڈل اپنایا، وہ وزیراعظم بن کر پورے بھارت پہ تھوپ دیا۔اس ''گجرات ماڈل''کے نمایاں نکات یہ ہیں:
٭...حکومت اور کارپوریٹ سیکٹر (نجی کمپنیوں)کو مل کر کام کرنا چاہیے۔
٭...سرکاری اداروں اور نجی کمپنیوں میں ملازمین کی تنخواہیں کم سے کم رکھی جائیں تاکہ منافع بڑھ سکے۔
٭...کارپوریٹ سیکٹر کو ٹیکسوں کی چھوٹ دی جائے تاکہ وہ زیادہ سرمایہ کاری کر سکے۔
٭...نجی شعبے کو وسیع وعریض زمینیں سستے دامنوں دی جائیں۔
٭...سرکاری اداروں کی نجکاری کر دی جائے۔
٭...حکومت کارپوریٹ سیکٹر پہ کم سے کم پابندیاں لگائے۔
گجرات ماڈل کے درج بالا نکات سے صاف ظاہر ہے کہ یہ بنیادی طور پر بھارتی حکمران طبقے (سیاست دانوں، جرنیلوں، افسر شاہی اور ججوں)، کرپٹ صنعت کاروں و کاروباریوں وغیرہ کے مفادات کو تحفظ دیتا اور انھیں مالی فائدہ پہنچاتا ہے۔یا پھر ان طبقوں سے وابستہ متوسط طبقے کے ارکان کو کچھ مالی فائدہ ہوتا ہے۔ان کے علاوہ یہ ماڈل بقیہ بھارتی عوام کو بہت کم مالی فوائد دیتا ہے۔
یہی وجہ ہے، مودی حکومت نے پچھلے نو برس سے ایسی کوئی سرکاری رپورٹ شائع نہیں کی جس سے پتا چل سکے کہ بھارت میں کتنے غریب بستے ہیں۔سچ یہ ہے کہ کم ازکم پچاس کروڑ بھارتیوں کی ماہانہ آمدن بیس ہزار روپے سے کم ہے۔
گویا وہ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کرنے پہ مجبور ہیں۔اقوام متحدہ کی حالیہ رپورٹ ''The State of Food Security and Nutrition in the World 2023''کے مطابق ایک ارب چار کروڑ بھارتی باشندوں کو عمدہ غذا میّسر نہیں۔گویا وہ غربت اور پیسے نہ ہونے کی بنا پہ اچھی غذا نہیں کھا سکتے۔
پچاس کروڑ بھارتی غریبوں کی تعداد معمولی نہیں، یہ ایک جگہ جمع ہو جائیں تو وہ بھارت اور چین کے بعد سب سے بڑی انسانی آبادی ہو گی۔بھارتی حکمران طبقے کی مگر ان کروڑوں غریبوں کی حالت بدلنے پہ کوئی توجہ نہیں، وہ ہندو قوم کو چاند سورج پر پہنچا کر اسے دنیا کی سب سے طاقتور، جنگجو اور ڈکٹیر قوم بنانے کا خواب دیکھ رہا ہے۔اور عام ہندو بھی مسلمانوں کو زیر نگین دیکھ کر جذباتی جوش وخروش میں اپنے حقیقی مسائل فراموش کر بیٹھے ہیں۔