ملکی ترقی اب صرف خواب ہے
جب بھی امریکا یا لندن جانے کا اتفاق ہوتا ہے۔ حکمرانوں کی جائیدادیں نظر آتی ہیں‘ ان کی اولاد موج کررہی ہیں
سلطان محمود غزنوی خو بصورت نہ تھا۔ ایک روز اپنا چہرہ آئینے میںدیکھا اور اپنی بدصورتی پر متفکر اور رنجیدہ ہوا۔ اپنے وزیر سے کہا کہ مشہور ہے کہ بادشاہوں کا چہرہ دیکھ کر رعایا کی آنکھوں میں روشنی آتی ہے جب کہ میری صورت دیکھ کر شاید انھیں تکلیف پہنچتی ہو۔
وزیر نے کہا، آپ کی صورت تو ہزاروں میں سے کوئی ایک دیکھتا ہو گا لیکن آپ کی سیرت سبھی کو نظر آتی ہے۔ سیرت و کردار اعلیٰ ہو تو حکمران خود بخود محبوب اور ہردلعزیز ہوجاتا ہے۔ جوہری طور پر اس وزیر باتدبیر نے جو نصیحت کی تھی، وہ ماضی میں بھی سونے کے پانی سے لکھنے کے قابل تھی اور آج بھی۔ اچھی سیرت و کردار اختیار کرنے کے بجائے ہمارے حکمرانوں اور حکمران طبقے نے ناجائز دولت کے ذخائر جمع کر رکھے ہیں ۔
اگر کوئی ان سے ان کی دولت کے ذرایع دریافت کرے تواتنا شور و غل مچا یا جاتا ہے کہ انکوائری کرنے والا ادارہ گھبرا جاتا ہے اور اسے خاموش کرا دیا جاتا ہے۔
بلا خوف وتردید کہا جا سکتا ہے کہ ہمارے ملک میں مقتدر طبقے کے پاس غیرمعمولی حجم میںجائز اورناجائز دولت موجود ہے۔ ٹی وی اینکرز، یوٹیوبرز، تجزیہ کار اور کالم نگار حکمرانوں کی تعریف و توصیف میں آسمان کے قلابے ملانے میں مصروف رہتے ہیں۔حالانکہ حکمرانوں اور رولنگ کلاس کی ڈکشنری میں ''کردار'' نام کا لفظ ہی نہیں ہے ۔ ایک بات لکھنا چاہتا ہوں، اگر ان کی کرپشن کے باوجود ملک تھوڑی بہت ترقی کررہا ہو تو بھی بات بن جاتی، ہمارے جیسے لوگ لکھ سکتے ہیں کہ ملک کی دولت اور ترقی میں اضافہ ہو رہا ہے۔
لہٰذا ہیرے جواہرات کے اس دریا سے اگر کوئی پرندہ چونچ بھر لیتا ہے تو کوئی مضائقہ نہیں۔مگر صاحبان! ہمارے حکمرانوں نے تو ملکی دولت کا دریا ہی خشک کر ڈالا اور سارا مال لپیٹ کر ترقی یافتہ مغربی ممالک میں جا بسے۔ دنیا کے لیے تو خیر ہم مذاق بن چکے ہیں، تمام دوستوں کا رویہ بھی سخت ہوچکا ہے،ملک کی اسٹیبلشمنٹ حالات کی سنگینی سے آگاہ ہے ،شاید اسی لیے ملک اور اداروں کو بچانے کے لیے وہ سخت اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں جو بہت پہلے ناگزیر ہو چکے تھے۔
مگر سوال تو سانپ بن کر کھڑا ہے، ریاست اور اداروں کو اس انجام تک پہنچانے کے ذمے داروں کو کٹہرے میں کون کھڑا کرنے کی ہمت کرے گا؟ کوئی بھی نہیں ہوگا صاحب۔ میرٹ' شفافیت اور ایمانداری کے جعلی نعرے بلند ہوتے رہیں گے۔
مگر کیا ہمیں پوچھنے کا حق نہیں کہ پاکستان کو مقتدر طبقے نے کیسے زندہ درگور کر ڈالا۔ ایک عرض کرنے کے بعد' ہندوستان کی طرف آتا ہوں۔
ہمیں تو بتایا گیا تھا کہ مقبوضہ کشمیر کے بغیر ' پاکستان مکمل نہیں ہوتا۔ یہ ہماری شہہ رگ ہے، ہمارا کوئی خبر نامہ' مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم کے بغیر مکمل نہیں ہوتا۔ مگر سوال تو یہ ہے' کیا ہم اتنے طاقتور اور مضبوط ہیںکہ مقبوضہ کشمیر کے شہریوںکو ہندوستانی مظالم سے محفوظ کر پائیں؟ کیا آزاد کشمیر میں ناروے جیسا مثالی نظام موجود ہے؟ جناب!ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔ چھہتر برس سے ایک ہی طرح کی باتیں سن کر اب بے یقینی محسوس ہوتی ہے۔
بیان بازی تو ہر کوئی کر سکتا ہے۔ بہر حال اس سے آگے بات کرنا خطرے سے خالی نہیں۔ کیونکہ یہاں تو حب الوطنی یا غداری کا سرکاری سرٹیفکیٹ ملنا' حد درجہ ممکن ہے۔ مگر ایک بات کرنا ضروری ہے ہمارا قومی بیانیہ' ہمیں دنیا سے متصادم کر چکا ہے۔ ہم عالمی تنہائی کا شکار ہیں۔
ہندوستان میں بھی کرپشن موجود ہے' مگر ان کے سیاسی اور غیر سیاسی حکمران ' کرپشن کی آلائش سے کافی حد تک صاف ہیں۔ آپ نریندر مودی کو سارا دن گالیاں نکالیں مگر کیا اس حقیقت سے انکار کیا جاسکتا ہے کہ نریندر مودی کا اقتدار 2001میں گجرات کی وزارت اعلیٰ سے شروع ہوا جو اب تک جاری ہے لیکن بائیس سال مسلسل اقتدار میں رہنے کے باوجود وہ دولت مند نہیں بن سکا،نہ اس کے بھائی بہن اور رشتہ دار دولت مند بن سکے، اس نے گجرات کو ہندوستان کی ترقی کا انجن بنا دیا۔
وزارت عظمیٰ پانے کے بعد' ہندوستان 9 فیصد سے لے کر بارہ فیصد تک مسلسل ترقی کر رہا ہے۔ گزشتہ ساٹھ برس میں مودی کے ذاتی اثاثوں میں ایک روپے کا اضافہ نہیں ہوا۔ اس پر کرپشن کا ایک بھی الزام نہیں ۔ کوئی غیر ملکی جائیداد نہیں ۔ ملک سے باہر ایک دھیلے کا اکاؤنٹ نہیں۔ مجھے نریندر مودی کی سیاست اور بی جے پی کے سیاسی نظریہ سے مکمل اختلاف ہے۔ مگر کیا نریندر مودی اور اس کی کابینہ ذہانت، لگن اور ایمان داری سے کام نہیں کررہی ہے ۔
کیا ہمارے حکمران اور ان کے ساتھی حکمرانی کا ایسا معیار قائم کرسکے ہیں؟ مقتدر طبقہ ہمیںنگل چکا ہے۔خواص کا ذکر چھوڑیئے۔ اب ہمارے عوام بھی اسی رنگ میں رنگے جا چکے ہیں۔
ہندوستان کے سیاست دانوں کی مثال دیتے ہوئے شرمندہ ہو جاتا ہوں۔ لیکن کیا کروں۔ کیرالہ ہندوستان کی نویں مال دار ریاست ہے۔ اس کا جی ڈی پی ایک سو پینتالیس بلین ڈالر ہے۔ ترقی کی شرح بارہ فیصد ہے جب کہ اس ریاست کی شرح تعلیم 90فیصد سے بھی زیادہ ہے۔ کیرالہ کا موجودہ وزیراعلیٰ پینا رائی وجاپن ہے۔ اس نے الیکشن کمیشن میں جو گوشوارہ جمع کرایا ہے۔
اس کے مطابق ' اس کے تمام اثاثہ جات کی قیمت صرف چون (54) لاکھ بھارتی روپے ہے جب کہ اس کے بینک اکاؤنٹ میں صرف دو لاکھ روپے موجود ہیں' اس کے علاوہ اسٹاک مارکیٹ میںایک کمپنی کے ایک ہزار حصص اس کے پاس موجود ہیں 'اسٹاک مارکیٹ میں ان حصص کی کل مالیت دس ہزار بھارتی روپے ہے۔
کیرالہ کے وزیراعلیٰ کی بیوی ' کملا دیوی کے بینک اکاونٹ میں پانچ لاکھ روپے ہیں جب کہ اس کے اثاثے کی مارکیٹ ویلیو پینتیس لاکھ بھارتی روپے ہے۔وزیراعلیٰ وجاپن کا تعلق ہندوستان کی کیمونسٹ مارکسٹ پارٹی سے ہے۔
اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ نہ ہندو ہے' نہ مسلما ن اور نہ ہی مسیحی ۔ لیکن وہ ایماندار اور ذہین انسان ہے۔ سادہ سے لباس میں ملبوس' یہ وزیراعلیٰ اپنے صوبے کی دولت میں بھرپور اضافہ کر رہا ہے۔
ہمارا ملک ایک چراگاہ ہے۔ جہاں ہر طاقتور جانور' اپنے حصے سے کہیں زیادہ سبز گھاس کھا کر توانا در توانا ہو رہاہے۔ ہمارے نظام میں بھی ایماندار وزیراعظم ' صدور اور وزراء اعلیٰ آئے ہیں۔مگر جنرل ضیاالحق کے دور نے پورے نظام کی بنیاد ہی تبدیل کر دی ہے۔
سیاست دانوں اور ریاستی اداروں کے سربراہان نے سرکاری وسائل کی لوٹ مار کا ایک ایسا نظام ترتیب دیا، جس میں کرپشن کو آئینی اور قانونی شیلٹر دیا گیا، صوابدیدی اختیارات میں مالی فوائد کو شامل کرکے رشوت و کرپشن کو قانونی بنا دیا گیا، اپنی مراعات خود ہی بڑھا لو، کوئی جرم نہیں ہے، یہ نظام آج بھی پوری آب وتاب کے ساتھ قائم ہے۔ اور جو بھی اس نظام کے خلاف کھڑا ہوتا ہے، اسی کو نشان عبرت بنادیا جاتا ہے۔
جب بھی امریکا یا لندن جانے کا اتفاق ہوتا ہے۔ حکمرانوں کی جائیدادیں نظر آتی ہیں' ان کی اولاد موج کررہی ہیں۔ یہ اور ان کی اولادیں' قیمتی ترین گاڑیوں میں سفر کرتے ہیں۔ پرائیویٹ جہازوں میں محو سفر ہوتے ہیں۔ وہاں کے مقامی گورے ان کی آن بان اور شان دیکھ کر گھبرا جاتے ہیں۔
اب تو ان کے ساتھ گن مینز اور عملے کا پورا قافلہ ہوتا ہے۔کچھ نہیں کہنا چاہتا۔ مگر سلطان محمود کے وزیر نے آج سے ہزار برس پہلے جو مشورہ دیا تھا، کیا آج بھی ہمارے ملک کے لیے وہ سند نہیں ہے؟ کیا ہمیں کیرالہ کے وزیراعلیٰ جیسا کوئی وزیراعلیٰ نہیں مل سکتا؟ مجھے تو اپنے ملک کی ترقی ایک خواب لگتی ہے۔