نگران وزیر اعظم کو امریکا جانا چاہیے تھا

نگران وزیر اعظم نے ارشاد فرمایا تھا کہ مَیں نیویارک کے ’’ کئی تھنک ٹینکس‘‘ سے خطاب بھی کروں گا


Tanveer Qaisar Shahid September 25, 2023
[email protected]

نیویارک کو دُنیائے سرمایہ داری کا ''دارالحکومت'' کہا جاتا ہے۔ بحیرۂ اوقیانوس کنارے کھڑے اِسی شہرِ نگاراں میںاقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی (UNGA) کاہفتہ بھر (19تا 25 ستمبر2023) پر مشمل 78واںسالانہ عالمی سربراہی اجلاس ہُوا ہے۔

ہمارے نگران وزیر اعظم جناب انوارالحق کاکڑ بھی اپنے وفد کے ہمراہ جنرل اسمبلی کے اِس اجلاس میں شریک ہُوئے ۔ وہ پانچ روز نیویارک میں رہے ۔وہاں سے لندن چلے گئے۔ جس وقت یہ سطور شایع ہوں گی، ممکن ہے وہ واپس وطن آ چکے ہوں۔ امریکا روانہ ہوتے وقت نگران وزیر اعظم نے کہا تھا: ''جنرل اسمبلی میں بھرپور طریقے سے مسئلہ کشمیر اُٹھاؤں گا۔''

اب سوال یہ ہے کہ نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ صاحب ایک تقریر اور چند ملاقاتیں کر کے پاکستان اور مسئلہ کشمیر کی کیا خدمت کر سکے ہیں، یہ ہم سب کو پتہ ہے۔ انھوں نے نیویارک میں کی گئی پریس کانفرنس میں فرمایا: ''مجموعی طور پر میرا دَورۂ نیویارک کامیاب رہا ہے ۔''بھلا کوئی وزیر اعظم ( خواہ وہ نگران ہی کیوں نہ ہو) کیسے اپنے منہ سے کہہ سکتا ہے کہ اُس کا دَورۂ امریکا ناکام رہا ہے ؟

پاکستان میں کہا جارہا تھا کہ انوارالحق کاکڑ صاحب کو امریکا نہیں جانا چاہیے ۔ انھیں بچت کرنی چاہیے ۔ سابق وزیر خارجہ اور پیپلز پارٹی کے چیئرمین، جناب بلاول بھٹو زرداری، نے کہا تھا: '' انوارالحق کاکڑ کو نیویارک میں جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شریک نہیں ہونا چاہیے ۔ اُن کی جگہ صرف نگران وزیر خارجہ، جلیل عباس جیلانی ، کو جنرل اسمبلی میں پاکستان کی نمایندگی کرنی چاہیے۔

نگران وزیر اعظم پاکستان کے پاس اتنا قلیل ترین اور محدود ترین مینڈیٹ ہے کہ اُن کا UNGA اجلاس میںشریک ہونا بنتا نہیں ہے ۔'' نگران وزیر اعظم نیویارک میں جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شریک ہُوئے ہیں ۔ باشعور طبقہ یہی سوچ رہا ہے کہ اِس مہنگی شرکت سے مگر مملکتِ پاکستان اور پاکستانی عوام کو کیا فائدہ پہنچا ہے؟

مجھے خود بھی کئی بار نیویارک میںUNGA کے سالانہ اجلاسوں کی رپورٹنگ اور مشاہدہ کرنے کے مواقع ملے ہیں۔ مجھے خوب معلوم ہے UNGA میں شریک ہونے والے پاکستانی حکام اور اُن کے ساتھ جانے والوں کی نیویارک میں سرگرمیاں کیا ہوتی ہیں؟ اپنے براہِ راست مشاہدات کی بنیاد پر مَیں کہہ سکتا ہُوں کہ یہ سالانہ سربراہی عالمی میلہ غریب اور قرض کی ماری اقوام اور اِس کے حکمرانوں کے لیے قطعاً غیر مفید ہے۔

محض وقت اور پیسے کا ضیاع! پاکستان کی وزارتِ خارجہ Facts and Figuresکی اساس پر اِس سوال کا شافی جواب دینے سے قاصر ہے کہ گزشتہ برسوں میں پاکستان کے جن جن حکمرانوں نے UNGAکے سربراہی اجلاسوں میں شرکت کی، پاکستان اور پاکستانی عوام کو کیا ملا؟ مسئلہ کشمیر کاذکر اس عالمی فورم پر لیے جانے سے مسئلہ کشمیر کتنا حل ہُوا؟ اور مظلوم کشمیریوں کے مصائب میں کہاں تک اور کتنی کمی واقع ہُوئی ؟ کتنے ممالک نے پوری توانائی کے ساتھ اِس ضمن میں پاکستان کا ساتھ دیا؟جواب حوصلہ افزا نہیں ہے ۔

پاکستان کے چپے چپے پر بھوک اور مہنگائی ناچ رہی ہے۔پاکستان دریوزہ گری اور گدائی سے عالمی مالی اداروں، عرب ممالک اور چین سے ڈالرز قرض میں مانگ رہا تھا۔ جب پاکستان کے کئی سرکاری اداروں کے ملازمین کو کئی کئی ماہ کی تنخواہیں دینے کے لیے پیسے نہیں ہیں۔ جب لاہور کے ایک سرکاری اسپتال میں فنڈز نہ ہونے سے ڈاکٹر حضرات موبائل فونز کی روشنی میں مریضوں کی سرجری کرنے پر مجبور ہوئے۔

پاکستان کے انتہائی مراعات یافتہ افراد اور طبقات اپنی مراعات اور بے پناہ سرکاری سہولتوں سے دستکش ہونے کے لیے تیار نہیں ہیں ۔ بجلی ، گیس اور پٹرول کے نرخوں میں عوام کو ذرا سی بھی سہولت دینے کے لیے فنڈز نہیں ہیں لیکن مبینہ طور پر لاہور ہائیکورٹ کے11 ججوں کو 36کروڑ روپے کے بلاسود قرض دینے کے لیے پیسے فوری جھٹ سے نکل آتے ہیں ۔اِس پر ممتاز قانون دان ، حامد خان، نے جو تبصرہ کیا ہے ، وہ پاکستان کے دل جلے عوام کی ترجمانی ہے ۔

اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اِس 78ویں سالانہ اجلاس میں اقوامِ متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کے چار مستقل ممبرز اور دُنیا کے طاقتور ترین اور دولتمند ترین ممالک ( برطانیہ، فرانس ، رُوس اور چین) اور ان کے سربراہ ( رشی سونک، میکرون، پوٹن اور شی جن پنگ) شریک نہیں ہُوئے ہیں۔ بھارت کے نریندر مودی بھی نیویارک نہیں گئے۔ ان ممالک کو مگر کوئی فرق نہیں پڑا ہے۔

نگران وزیر اعظم نے ارشاد فرمایا تھا کہ مَیں نیویارک کے '' کئی تھنک ٹینکس'' سے خطاب بھی کروں گا۔انھوں نے مگر صرف ایک تھنک ٹینک (CFR) سے خطاب کیا ۔ اور اس میں ایک سوال کے جواب میں جناب نے پاک چین تعلقات کے حوالے سے جو تشبیہاتی جملہ ارشاد فرمایا،اس پر سوشل میڈیا پر سخت تنقید سامنے آئی ہے ۔

براعظم ایشیا میں46ممالک ہیں۔معاشی اعتبار سے اِن میں پاکستان 43ویں نمبر پر کھڑا ہے۔ اِس بدترین غربت اور محتاجی کے باوجود پاکستان کی وزارتِ خارجہ ا ور وزارت ِ خزانہ پاکستانی عوام کو یہ بتانے کے لیے تیار نہیں ہے کہ اِس دَورۂ امریکا پر جانے والوں پر کتنے اخراجات اُٹھے ہیں؟ نگران وزیر اعظم نے UNGAکی سائیڈ لائن پر IMFکی منیجنگ ڈائریکٹر Kristalina Georgievaسے دو ہاتھوں کے ساتھ مصافحہ کیا۔

''دی ایکسپریس ٹربیون'' کے مطابق:اِس مختصر ترین ملاقات میںموصوفہ نے ہمارے نگران وزیر اعظم سے کہا: ''پاکستان کے امیر افراد پر ٹیکس وصول کیجیے تاکہ غریب پاکستانیوں کا معاشی تحفظ ہوسکے ۔'' دیکھنا یہ ہے کہ نگران حکومت کے سربراہ آئی ایم ایف کی اِس افسر کے کہے پر کب اور کہاں تک عمل کرتے ہیں! آئی ایم ایف کے کہے گئے جملے کا ایک معنی یہ بھی ہے کہ پاکستان کے حکام پاکستان کے متمول طبقات سے ٹیکس وصولی میں ناکام ہو رہے ہیں ، اور متنوع اور ہوشربا ٹیکسوں کی بمباری صرف غریب اور تنخواہ یافتہ طبقات پر کی جا رہی ہے ۔ نگران بھی انتہائی مراعات یافتہ انتہائی طاقتور طبقات سے ناجائز مراعات واپس لینے میں ناکام ہو رہے ہیں ، جیسا کہ نگران وزیر اعظم نے مبینہ طور پر چٹّا جواب دے دیا ہے: ''ہم مفت بجلی استعمال کرنے والوں سے سہولت واپس نہیں لے سکتے ۔''

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔