خوش آمدید
عدل و انصاف کے معاملہ میں سب سے بڑی رکاوٹ وہ نظام ہے جو ہمیں فرنگیوں سے ورثہ میں ملا ہے
محترم جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے عدالتِ عظمیٰ کے منصب پر فائز ہوتے ہی ملک و قوم میں سرخوشی کی ایک زبردست لہر دوڑ گئی ہے۔ اُن کی عظیم شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں ہے۔
میں اُس کا نام نہ لوں اور لوگ پہچانیں
کہ آپ اپنا تعارف ہوا بہارکی ہے
اُن کے والدگرامی قیامِ پاکستان سے قبل تحریک پاکستان کے ہراول دستہ کے علمبردار اور بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے معتمدِ خاص تھے۔
امید واثق ہے اُن کے دور میں حق و انصاف کا بول بالا ہوگا۔ محترم قاضی صاحب ایک درویش صفت انسان ہیں اور نمود و نمائش سے انھیں کوئی دلچسپی نہیں جس کا مظاہرہ اِس بات سے ہوچکا ہے کہ انھوں نے نہ صرف اپنے استقبال کے موقع پر روایتی گارڈ آف اونر قبول کرنے سے انکار کردیا بلکہ آیندہ بھی کسی پروٹوکول نہ دیے جانے کی سخت ہدایت کر دی ہے۔
یہ بات یقینِ کامل کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ اُن کی تقرری کے ساتھ ملک کی عدلیہ کی تاریخ میں ایک نئے اور سنہری باب کا اضافہ ہوا ہے۔ وہ ایک بے خوف اور انتہائی جرات مند شخصیت و کردار کے حامل ہیں اور مصلحت پوشی کے الفاظ اُن کی لغت میں شامل نہیں ہیں۔
اُن کا ماضی اور حال آئینہ کی طرح صاف و شفاف ہے جس پر اِنشاء اللہ آیندہ بھی کوئی خراش نہیں آنے پائے گی۔
قاضی صاحب کے مسندِ انصاف کے اعلیٰ ترین عہدہ پر فائز ہونے کے بعد دیگر آنریبل جج صاحبان نے بھی اظہارِ مسرت کیا ہے۔ امید ہے کہ قاضی صاحب کی قیادت میں اُن کی ٹیم بھی بہترین کردار ادا کرے گی اور عدل و انصاف کی ایک نئی تاریخ رقم ہوگی۔
یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ وطنِ عزیزکی عدلیہ کا حال بہت اچھا نہیں ہے اور نچلے درجہ کی عدالتوں کے بارے میں یہ تاثر عام ہے کہ وہاں انصاف ملتا نہیں بلکہ بکتا ہے۔ اِس معاملہ میں وکلاء حضرات کا کردار بھی کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔
انھیں عدل و انصاف سے زیادہ اپنی فیس میں دلچسپی ہوتی ہے۔انصاف میں تاخیر روزمرہ کا معمول ہے جب کہ کہا یہ جاتا ہے کہ انصاف میں تاخیر انصاف سے انکار کے مترادف ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ عدل و انصاف کے شعبہ میں کب، کتنی اور کیا کیا اصلاحات ہوتی ہیں۔ کیا اِس سلسلہ میں ہونے والی تاخیر بھی انصاف سے انکارکے زمرے میں تو نہیں آئے گی؟
تاریخ میں عدل و انصاف کے حوالہ سے بادشاہ نوشیرواں اور جہانگیر کے نام بھی لیے جاتے ہیں لیکن سب سے بڑا نام خلیفہ ثانی حضرت عمر بن خطاب ؓ کا ہے جس کی کوئی مثال نہیں ہے۔ ایک اور قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ عدل و انصاف کے معاملہ میں شفافیت لازمی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ انصاف ہوتا ہوا بھی دکھائی دے۔
اِس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ عدل و انصاف کے معاملہ میں سب سے بڑی رکاوٹ وہ نظام ہے جو ہمیں فرنگیوں سے ورثہ میں ملا ہے جس میں بیشمار رکاوٹیں اور قباحتیں شامل ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اِس صورتحال سے کیوں کر نبرد آزما ہوا جائے اور کس طرح نمٹا جائے؟بہرحال ملک میں اس وقت جو بھی نظامِ انصاف رائج ہے عدلیہ کو اُسی کے دائرہ کار میں محدود رہتے ہوئے لوگوں کو انصاف دلانا ہے۔
عدلیہ کی ذمے داری یہ بنتی ہے کہ آئین کی بالادستی کو یقینی بنایا جائے اورکوئی ایسا قدم نہ اٹھانے دیا جائے جو آئین سے متصادم یا اُس کی کسی بھی شق کے خلاف ہو۔ مختصر یہ کہ آئین کی بالادستی کو منوانا اور برقرار رکھنا عدلیہ کی بنیادی ذمے داری ہے۔ اِس کے علاوہ عوام کے بنیادی حقوق کا تحفظ بھی عدلیہ کی ذمے داری بنتی ہے۔
انصاف کے ترازو میں سب کو برابر تولنا بھی آزاد عدلیہ کی ذمے داری ہے۔ بدقسمتی سے ہماری عدلیہ کا ماضی بہت زیادہ لائقِ تحسین نہیں ہے کیونکہ بعض فیصلے زور اور دباؤ کے تحت یا مصلحت پوشی کے سبب کرنے پڑے تھے۔اِس وقت بھی ہماری عدلیہ کو کئی چیلنجز درپیش ہیں جن سے نمٹنے کے لیے جج صاحبان اور خصوصاً محترم چیف جسٹس صاحب کو انتہائی جرات مندی اور ثابت قدمی کے ساتھ مقابلہ کرنا ہوگا لیکن ہمیں پورا یقین ہے کہ اُن کے پایہ استقامت میں ذرا سی بھی لغزش نہیں آئے گی۔
اقبالؔ نے ایسی صورتحال کے حوالہ سے کیا خوب کہا ہے۔
تندی باد مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب
یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اڑانے کے لیے
وطنِ عزیز اِس وقت سیاسی اور معاشی مشکلات کی گردشوں میں پھنسا ہوا ہے جس سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے مکمل یکجہتی اور اتحاد کی اشد ضرورت ہے۔ حب الوطنی کا تقاضہ بھی یہی ہے کہ تمام ادارے شانہ بشانہ کام کریں اور اپنے دائرہ اختیار سے باہر نکلنے سے قطعی گریز کریں۔ احتیاط لازم ہے اور غلطی کی کوئی گنجائش باقی نہیں ہے۔