سفر کے غلط آغاز کا خمیازہ پہلا حصہ
ہمارا شماربدنصیبی سے ان چنداقوام میں ہوتا ہے جنھوں نے اپنے تلخ تجربوں سے کچھ سیکھنے کی کبھی ذرہ برابرزحمت گوارانہیں کی
کتنا دکھ ہوتا ہے، یہ محسوس کرتے ہوئے کہ ہم نے آزادی کے بعد اپنی پون صدی کی قومی تاریخ کے دوران شاید ہی چند سال کا کوئی پر سکون دورگزرا ہوگا۔
قوموں کی تاریخ میں مشکل ادوار ہمیشہ آتے ہیں لیکن وہ اپنے ہر امتحان میں سرخرو ہوکر آگے بڑھنے کا سفر جاری رکھتی ہیں، وہ اپنے تجربوں سے سیکھتی ہیں تا کہ ماضی کی غلطیوں کو مستقبل میں دہرانے سے بچا جائے۔
ہمارا شمار بدنصیبی سے ان چند اقوام میں ہوتا ہے جنھوں نے اپنے تلخ تجربوں سے کچھ سیکھنے کی کبھی ذرہ برابر زحمت گوارا نہیں کی۔ آزادی کے فوراً بعد ہم نے غلط سمت میں سیاسی ، قانونی، انتظامی اور خارجہ تعلقات کے امور میں یکے بعد دیگرے ایسے فیصلے کیے جن کے نتیجے میں وقفوں وفقوں سے متنوع بحرانوں کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہوگیا جو آج بھی جاری ہے۔
ہمیں چونکہ آغاز سے ہی یک طرفہ تصویر پیش کرنے والی تاریخ پڑھائی، سنائی اور بتائی گئی ہے لہٰذا ہماری نوجوان نسل کی ابھرتی ہوئی سیاسی قیادت اور متوسط طبقے کے پرجوش نوجوان ملک کی سیاسی تاریخ کے ابتدائی دورکے ہمارے چند ایسے فیصلوں سے ناواقف ہیں جن کے نتیجے میں ملک موجود لمحے تک بحرانی کیفیت میں مبتلا ہے، لہٰذا وقت کی ضرورت ہے کہ سیاسی تاریخ کے ان حقائق کو اجاگرکیا جائے جن کے بیان سے عموماً گریزکیا جاتا رہا ہے۔
نو آبادیاتی تسلط سے آزادی کے بعد آئین سازی ہماری سب سے پہلی ترجیح ہونی چاہیے تھی۔ ایک نو تخلیق ریاست کو آئین کے بغیر چلانے کا دنیا میں آج تک کوئی نسخہ ایجاد نہیں کیا جا سکا ہے۔
آزادی کے فوراً بعد آئین سازی پر توجہ دینے کے بجائے سیاسی مخالفین کے خلاف انتقامی کارروائیوں اور عہد شکنیوں کا آغاز کردیا گیا۔ ملک کو بنے ایک سال نہیں ہوا تھا کہ سندھ اور سرحد کی صوبائی حکومتیں ختم کرکے ان صوبوں پر گورنر راج مسلط کردیا گیا۔ سندھ کے وزیراعلیٰ خان بہادرکھوڑو کو صوبائی اسمبلی کی حمایت حاصل تھی۔
سندھ اسمبلی ایک منفرد اعزاز رکھتی تھی۔ یہ غیر منقسم ہندوستان میں شامل کسی بھی صوبے کی وہ پہلی اسمبلی تھی جس نے 3 مارچ 1943کو قیام پاکستان کی حمایت میں ایک قرارداد منظور کی تھی۔ یہ وہ وقت تھا کہ جب کسی کے لیے بھی یقین سے یہ کہنا بڑا مشکل تھا کہ پاکستان کا تصور ایک حقیقت میں تبدیل ہو سکتا ہے۔
اس قرارداد کو پیش کرنے والے کوئی اور نہیں جناب جی ایم سید تھے، جنھوں نے اپنی تقریباً تمام بقیہ زندگی اس پاکستان میں قید و بند میں گزار دی جس کے بانیوں میں وہ سر فہرست تھے۔
صرف یہی نہیں بلکہ سندھ ہی وہ پہلی صوبائی اسمبلی تھی جس نے 26 جون 1947 میں پاکستان میں باقاعدہ شمولیت کا اعلان کیا تھا۔
22 اگست 1947 کو صوبہ سرحد میں ڈاکٹر خان صاحب کی حکومت برطرف کر دی گئی۔ قلات بلوچستان کی وہ ریاست تھی جس کے سربراہ خان آف قلات نے پاکستان سے الحاق کیا تھا اور اسے مالی مدد بھی فراہم کی تھی۔ ان کو بھی جبراً معزول کر دیا گیا ، اس وقت سے آج تک یہ صوبہ سیاسی بے چینی کا شکار ہے اور یہاں امن قائم نہیں ہو سکا ہے۔
اب آئیے ہم رخ کرتے ہیں ماضی کے مشرقی بنگال یعنی مشرقی پاکستان اور آج کے بنگلہ دیش کی جانب سندھ کی طرح بنگال بھی ہندوستان کا وہ مسلم اکثریتی صوبہ تھا جو تحریک پاکستان میں پیش پیش تھا۔ 14 اگست کو پاکستان وجود میں آیا اور نومبر 1947 میں ایک قومی تعلیمی کانفرنس کے مطابق بنگالی زبان کو سرکاری زبان کا درجہ نہیں دیا گیا۔
اس وقت کے پاکستان پبلک سروس کمیشن نے بنگالی زبان کو منظور شدہ مضامین کی فہرست سے نکال دیا۔ صرف یہیں تک اکتفا نہیں کیا گیا بلکہ کرنسی نوٹ اور ڈاک ٹکٹ سے بھی بنگالی الفاظ مٹا دیے گئے۔ اس وقت پاکستان کی آبادی 6 کروڑ 60 لاکھ تھی جس میں بنگالی بولنے والے پاکستانیوں کی تعداد 4 کروڑ 40 لاکھ تھی اور جن کا مطالبہ یہ تھا کہ بنگالی زبان کو بھی پاکستان کی سرکاری زبانوں میں شامل کیا جائے۔
بنگالی زبان سے متعلق فیصلے کے خلاف، دسمبر 1947 یعنی قیام پاکستان کے صرف چار ماہ بعد ہی ڈھاکا یونیورسٹی سے مزاحمتی اور احتجاجی تحریک کا آغاز ہوگیا۔ حالات کی ستم ظریفی ملاحظہ کیجیے کہ جو نوجوان بنگالی مسلمان ، چند ماہ پہلے تک تحریک پاکستان میں سب سے آگے اور پر جوش نعرے لگا رہے تھے آج وہ شدید احساس محرومی کا شکار ہو کر اپنے ہی محبوب مسلم رہنماؤں سے اپنے جائز حق کے طلبگار تھے۔
ان نوجوانوں میں دوسروں کے علاوہ شیخ مجیب الرحمن بھی پیش پیش تھے جو مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے شعلہ بیان رہنما ہوا کرتے تھے۔
طلبا کی یہ طویل جدوجہد ایک عوامی تحریک میں تبدیل ہوگئی اور مختلف مشکل مراحل سے گزرکر 21 فروری 1952 کو اس وقت اپنی انتہا کو پہنچی جب مظاہرہ کرنے والے طلبا اور ان کے حامیوں پر پولیس نے فائرنگ کر دی جس سے درجنوں طالب علم ہلاک ہو گئے۔
اس واقعے کے بعد پورے مشرقی پاکستان میں شدید احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوگیا، جس کے بعد 1956 کے آئین میں بنگالی کو بھی آئینی طور پر قومی زبان کا درجہ دے دیا گیا۔
21 فروری کا دن آج بھی نہ صرف بنگلہ دیش کا قومی دن ہے بلکہ اقوام متحدہ کے ادارے یونیسیف کی جانب سے ہر سال عالمی سطح پر اس تاریخ کو ، مادری زبان کے بین الاقوامی دن کے طور پر بھی منایا جاتا ہے تاکہ دنیا میں مادری زبانوں کے تحفظ کے حوالے سے شعور کو اجاگرکیا جائے۔
ملک کے مشرقی بازو میں پھیلنے والی اس سیاسی بے چینی کے اثرات مغربی پاکستان پر بھی پڑنے لگے۔ 1952 اور 1953 کے دوران غذائی بحران پیدا ہوا، طلبا تحریک ابھر کر شدت پکڑنے لگی اور مذہبی تحریک کے بعد لاہور شہر میں ملک کا پہلا مارشل لا لگایا گیا۔
اس وقت خواجہ ناظم الدین وزیراعظم تھے، ان کا تعلق نواب ڈھاکا کے خاندان سے تھا۔ انھوں نے علی گڑھ یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی اور تحریک پاکستان کے لیے اپنی زندگی وقف کردی تھی۔ خواجہ صاحب انتہائی شریف اور ایمان دار انسان تھے۔
طاقتور بیوروکریسی کے ایک چالاک اعلیٰ افسر غلام محمد اس وقت تک گورنر جنرل کے طاقتور ترین عہدے پر قابض ہوچکے تھے۔ وزیر اعظم خواجہ ناظم الدین کو بحرانوں میں گھیرکر،گورنر جنرل نے انھیں کابینہ سمیت برطرف کردیا۔ کمال '' اتفاق'' دیکھیے کہ ٹھیک اسی وقت امریکا میں متعین پاکستان کے سفیر محمد علی بوگرہ نے وزیر اعظم کا حلف اٹھا لیا جو ان دنوں امریکا سے پاکستان آئے ہوئے تھے۔
اسے بلاشبہ ملک کی سیاسی تاریخ کا سیاہ واقعہ کہا جانا چاہیے۔ حلف اٹھانے والے ملک کے اس تیسرے وزیر اعظم نے آزادی کے بعد بدلتی ہوا کا رخ دیکھ کر سیاست کا میدان چھوڑکر وزارت خارجہ میں شمولیت اختیار کر لی تھی۔ سوویت یونین سے پاکستان کے تعلقات خراب کرنے میں موصوف نے خاص کردار ادا کیا تھا۔ (جاری ہے)