قصہ کراچی کے چوتھے دلیپ کمار کا دوسرا اور آخری حصہ
نذیر بیگ نے مشہور انڈین گلوکار مکیش کے گیت گا کر ایک سماں باندھ دیا تھا
اس کلب کی موسیقی کی محفلوں میں جہاں نوجوان گلوکار اور گلوکارائیں اپنے فن کا اظہار کرتی تھیں وہاں مجید خان لاہور کے نامور فنکاروں کو بھی مدعو کیا کرتے تھے۔
اسی دوران موسیقار نثار بزمی کو کراچی میں ایک فلم سہرا میں موسیقی دینے کا موقعہ مل گیا تھا، موسیقار نثار بزمی نے فلم سہرا کے لیے ایک گیت ایسٹرن فلم اسٹوڈیو میں نذیر بیگ کی آواز میں ریکارڈ کرایا تھا۔ یہ نذیر بیگ کی زندگی کا سب سے زیادہ حسین دن تھا۔
اس کی پلے بیک سنگر بننے کی سب سے بڑی خواہش پوری ہوگئی تھی۔ مسعود رانا اور اخلاق احمد نذیر بیگ کی اس کامیابی پر بڑے خوش تھے چلو ان کے دوستوں میں ایک دوست کو کسی فلم کے لیے گیت گانے کا موقعہ میسر آگیا تھا مگر نذیر بیگ کے لیے یہ خوشی بہت عارضی ثابت ہوئی، فلم سہرا کے فلم ساز اور ایسٹرن فلم اسٹوڈیو کے مالک کے درمیان کوئی جھگڑا ہوگیا تھا۔ جھگڑے کی وجہ کوئی نہ جان سکا تھا اور پھر گیت کی ریکارڈنگ کے بعد ہی فلم سہرا کا چیپٹر بند کردیا گیا تھا۔
یہ خواب بھی زندگی کا حصہ ہوتے ہیں، نذیر بیگ کا پلے بیک سنگر بننے کا خواب گوکہ اب ایک دھواں بن چکا تھا مگر اس نے ہمت نہیں ہاری تھی اس نے کراچی میں موسیقی کے پروگراموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا شروع کردیا تھا۔
اسی دوران اسے پتا چلا سولجر بازار کلب کے صدر مجید خان ایک میوزک گروپ لے کر ڈھاکا جانے کا پروگرام بنا رہے ہیں، نذیر بیگ نے بھی ڈھاکا جانے کا فیصلہ کیا اور مجید خان سے ایک ملاقات میں اپنی خواہش کا اظہار کیا کہ وہ بھی آپ کے میوزک گروپ کے ساتھ ڈھاکا جانے کا آرزو مند ہے۔ اگر آپ مجھے بھی ساتھ لے جائیں تو میں آپ کا یہ احسان زندگی بھر نہیں بھولوں گا، مجید خان نے نذیر بیگ کو بھی اپنے میوزیکل گروپ میں شامل کرلیا تھا اور نذیر بیگ کی زندگی کا یہ موڑ ہی نذیر بیگ کی زندگی کا ناقابل فراموش حصہ بن گیا تھا۔
کچھ ہی دنوں کے بعد نذیر بیگ ڈھاکا پہنچ گیا تھا اور پھر یہاں اس نے چند موسیقی کے پروگراموں میں حصہ لے کر اپنی آواز کا بھی خوب جادو جگایا تھا، اس کی آواز بھی اچھی تھی اور یہ ایک خوبرو نوجوان بھی تھا، لوگ میوزک فنکشنوں میں اسے پسند کرنے لگے تھے۔
ڈھاکا کی مشہور گلوکارہ فردوسی بیگم نے خاص طور پر ندیم کی قدم قدم پر بڑی معاونت کی اور اسے وہاں کی فلمی شخصیات اور موسیقاروں سے ملوایا، اسی دوران اس کی ملاقات ڈھاکا کے مشہور موسیقار کریم شہاب الدین سے ہوئی، اسے موسیقار شہاب الدین ہی نے بطور پلے بیک سنگر اپنی ایک دو فلموں میں گوایا اور اس کی بطور سنگر ایک اچھی انٹری ہوگئی تھی، موسیقار کریم شہاب الدین نے ہی گلوکار مسعود رانا کو بھی ڈھاکا کی اردو فلموں میں گوایا تھا۔
وہ بہت اچھا میوزک کمپوزر اور ارینجر تھا اور بہت سی بنگالی اور اردو فلموں کا بیک گراؤنڈ میوزک بھی دے چکا تھا ، نذیر بیگ ڈھاکا کی اردو فلموں میں بحیثیت سنگر آگے بڑھتا جا رہا تھا اب یہاں اس کی قسمت کچھ نئے گل کھلاتی ہے۔
ڈھاکا کی مشہور بنگالی اور اردو فلموں کے فلمساز و ہدایت کار احتشام جن کو فلمی دنیا میں کیپٹن احتشام کے نام سے پکارا جاتا تھا ان کا ڈھاکا کی فلمی دنیا میں بڑا نام اور بڑا مقام بھی تھا جب کہ ان کے بھائی مستفیض بھی مشہور فلم ساز اور تقسیم کار ادارے کے مالک تھے۔
کیپٹن احتشام کی بیٹی فرزانہ جس کی ہر سال سالگرہ کیپٹن صاحب بڑی دھوم دھام سے مناتے تھے اور ان کی بیٹی کی سالگرہ کی تقریب میں ڈھاکا کے تقریباً سارے ہی ممتاز اور مشہور فلم آرٹسٹ شرکت کرتے تھے جس دن فرزانہ کی سالگرہ کی تقریب تھی اس دن میوزک کا فنکشن بھی تھا اور خوش قسمتی سے نذیر بیگ کو بھی اس فنکشن میں گانے کا موقعہ مل گیا تھا۔
نذیر بیگ نے مشہور انڈین گلوکار مکیش کے گیت گا کر ایک سماں باندھ دیا تھا اور خوب جی جان سے اس نے اپنی گائیکی سے سامعین کے دل جیت لیے تھے خوبصورت اور نوجوان نذیر بیگ نے سالگرہ کی اس تقریب میں اپنا ایسا رنگ جمایا کہ وہ کیپٹن احتشام کی بیٹی فرزانہ کو بہت پسند آیا اور کیپٹن احتشام نے نذیر بیگ میں چھپا ہوا ایک اداکار بھی بھانپ لیا تھا۔
اس نے نذیر بیگ کو ایک ہیرو کی حیثیت سے دیکھنا شروع کیا اور پھر سالگرہ کی تقریب کے بعد کیمرہ مین اے آر ناصر سے کہا کہ نذیر بیگ میں ایک ہیرو بننے کی خوبیاں موجود ہیں۔ میں اس کو اپنی ایک فلم میں نئی اداکارہ شبانہ کے ساتھ کاسٹ کرنا چاہتا ہوں مگر میں پہلے یہ چاہتا ہوں کہ تم میرے کہنے کے مطابق اس کا فوٹو شوٹ کرو بلکہ ایسا کرو اس کو کاکس بازار کے خوبصورت مقام پر لے جا کر اس کی دس پندرہ منٹ کی ایک مختصر فلم بھی بنا کر لے آؤ پھر دیکھتے ہیں۔
کیمرہ مین اے آر ناصر نے پھر ایسا ہی کیا اور نذیر بیگ کی ایک مختصر فلم شوٹ کرکے لایا اور اس کیمرہ مین نے نذیر بیگ کی لمبی ناک کو بھی اس طرح شوٹ کیا کہ اس کا چہرہ خوبصورت انداز سے شوٹ ہوا اور کیمرہ مین نے اس کے کچھ شاٹ دلیپ کمار کے اسٹائل میں بھی لیے ان شاٹس میں نذیر بیگ ایک ہیرو کا روپ دھار گیا تھا جب وہ فوٹو شوٹ اور فلم کیپٹن احتشام نے دیکھی تھی تو وہ بھی حیران ہوگئے تھے اور کیمرہ مین اے آر ناصر سے بولے یار! یہ لڑکا تو زبردست ہیرو بن سکتا ہے، پھر انھوں نے نذیر بیگ کا وہ فوٹوشوٹ اور فلم اپنے بھائی مستفیض کو بھی دکھائی انھوں نے بھی کیپٹن احتشام کے فیصلے پر اپنا بھی فیصلہ نذیر بیگ کے حق میں دے دیا اور پھر قسمت نے پلٹا کھایا کیپٹن احتشام نے نذیر بیگ کو بھی وہ فلم دکھانے کے بعد کہا ارے بابا! تم کو تو ہم ہیرو بنائے گا اپنی فلم میں۔
یہ سن کر نذیر بیگ گھبرا گیا اور بولا ''نہیں سر! میں ہیرو کیسے بن سکتا ہوں مجھے تو ایکٹنگ بالکل نہیں آتی ہے۔'' کیپٹن بولے '' وہ ہم تم کو سکھائے گا۔'' نذیر بیگ نے کہا '' میں تو یہاں سنگر بننے کے لیے آیا ہوں۔ ایک سنگر بننا ہی میرا خواب اور برسوں کی آرزو ہے۔'' کیپٹن احتشام نے نذیر بیگ کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا '' ارے بابا! تم ہماری فلم میں پلے بیک بھی کرے گا اور ہیرو بھی بنے گا اور ہم تم کو اداکاری سکھائے گا۔ ایکٹر، ڈائریکٹر بناتا ہے ہم بھی تم کو ایکٹر بنائے گا بس ہم نے فیصلہ کرلیا ہے۔ اب یہ ہمارا کام ہے۔ تم ہماری نئی اردو فلم چکوری میں ہیرو بھی آئے گا اور گانا بھی گائے گا۔''
پھر اسی بات کا پتا کیپٹن احتشام کی بیٹی کو بھی چلا تو اس نے بھی نذیر بیگ کے حق میں فیصلہ دے دیا اس طرح کیپٹن احتشام ان کے بھائی مستفیض اور پھر خاص طور پر احتشام کی چہیتی بیٹی فرزانہ کا متفقہ فیصلہ نذیر بیگ کو ہیرو بنانے میں ہو گیا تو کیپٹن احتشام نے جو فلم چکوری میں نئی ہیروئن شبانہ کے ساتھ اداکار عظیم کو پہلے ہیرو لینے کی سوچ رہے تھے انھوں نے اب عظیم کی جگہ نذیر بیگ کو ہیرو کاسٹ کیا اور ندیم کا نیا نام بھی نذیر بیگ کو کیپٹن احتشام نے ہی دیا۔
اس طرح اداکار عظیم کی کیپٹن احتشام سے ناراضگی بھی ہوگئی تھی اور اداکار عظیم نے کہا تھا کہ کیپٹن صاحب ایک نئے لڑکے کو چکوری میں ہیرو لے کر ضرور اپنی ساکھ کو نقصان پہنچائیں گے اور اپنی فلم کو فلاپ کروائیں گے مگر کیپٹن احتشام نے کسی کی بات پر دھیان نہیں دیا اور فلم چکوری میں پہلے نذیر بیگ اور فردوسی بیگم کے ساتھ گیت کی ریکارڈنگ کی جس میں ندیم نے سیڈ سانگ ریکارڈ کرایا تھا جس کے بول تھے:
کبھی تو تم کو یاد آئیں گی
وہ بہاریں وہ سماں
فلم کے موسیقار روبن گھوش تھے۔ پھر یہی گیت احمد رشدی کی آواز میں بھی دوسرے موڈ میں ریکارڈ کرایا گیا تھا ایک ہیپی اور دوسرا سیڈ موڈ اور دونوں گیتوں کی عکس بندی آؤٹ ڈور میں بڑی خوبصورت ہوئی تھی بڑی کم مدت میں چکوری مکمل ہوگئی تھی اور پھر اسے 22 مارچ 1967 میں نمائش کے لیے پیش کردیا گیا تھا۔
یہ شبانہ اور ندیم کی پہلی فلم تھی اور اس پہلی فلم نے کامیابی کے جھنڈے گاڑ دیے تھے۔ یہ فلم ڈھاکا میں 81 ہفتہ تک چلی تھی اور اس فلم نے پلاٹینم جوبلی منائی تھی۔ فلم ''چکوری'' ندیم کی پہلی کامیابی تھی اور دوسری بڑی کامیابی ہدایت کار کیپٹن احتشام کی بیٹی فرزانہ سے ندیم کی شادی تھی۔ فرزانہ پہلی ہی ملاقات میں نذیر بیگ کی محبت میں گرفتار ہوگئی تھی اور ندیم بھی اس کی محبت کی خوشبو سے بیگانہ نہیں تھا۔
عشق اور مشک چھپائے نہیں چھپتے جب اس محبت کا پتا کیپٹن احتشام کو چلا تو وہ بھی بڑے حیران ہوئے تھے مگر ان کی اپنی بیٹی کی خوشیوں کے راستے میں وہ دیوار بننے کے بجائے اپنی بیٹی کی پسند کو پھر اپنی پسند بھی بنالیا تھا اور اس طرح نذیر بیگ ندیم ان کے گھر کا ایک فرد بن گیا تھا اور ڈھاکا میں ندیم فرزانہ کی شادی بڑی دھوم دھام سے کی گئی تھی جس میں ڈھاکا کی تمام فلمی شخصیات کے علاوہ لاہور فلم انڈسٹری اور کراچی سے تعلق رکھنے والے ندیم کے بہت سے دوستوں اور فلمی شخصیات نے بھی ندیم فرزانہ کی شادی میں شرکت کی تھی اور یہ شادی ڈھاکا میں موسیقار مصلح الدین اور گلوکار ناہید نیازی کے بعد یہ دوسری یادگار شادی تھی جس میں دلہن بنگالی اور دولہا غیر بنگالی تھا پھر یہ شادی شدہ جوڑا لاہور آگیا تھا اور لاہور میں ندیم نے رہائش اختیار کر لی تھی اور لاہور کی فلم انڈسٹری کا مصروف ترین ہیرو بن گیا تھا۔