افغانستان مہاجرین اور پاکستانی مفادات
اگست 2021 میں کابل کے سقوط کے بعد سے چھ لاکھ سے زیادہ نئے افغان مہاجرین پاکستان میں داخل ہوئے ہیں
میڈیا کی ایک خبر میں سرکاری ذرایع کا حوالہ دے کر بتایا گیا ہے کہ حکومت نے تمام غیر قانونی افغان مہاجرین کو ان کے وطن واپس بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ ایسے مہاجرین کی تعداد گیارہ لاکھ کے قریب ہے۔ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ نگراں وفاقی کابینہ نے اس فیصلے کی منظوری کا گرین سگنل بھی دے دیا ہے۔
افغان مہاجرین کی بڑھتی ہوئی تعداد اور ان کی سرگرمیاں پاکستان کے سماجی و اقتصادی نظام کے لیے زہر قاتل بنتی جارہی ہیں، پاکستان اپنے شہریوں کے اجتماعی مفادات کا تحفظ کرنے اور موثر حکمرانی کو برقرار رکھنے میں خاصی مشکل محسوس کررہا ہے۔
یہ بھی دیکھنے میں آرہا ہے کہ افغان مہاجرین کا ایک غالب حصہ پاکستان میں دہشت گردی، خود کش دھماکوں اور بم دھماکوں میں ملوث ہے جب کہ مقامی پاکستانیوں کے اشتراک سے یہ لوگ غیرملکی کرنسی، خصوصاً ڈالرزکے غیرقانونی کاروبار میں ملوث ہیں۔ کئی ارب ڈالر غیرقانونی طور پر افغانستان اور دیگر ممالک میں بھجوائے گئے ہیں جس کی وجہ سے پاکستانی روپے کی قدر گری اور پاکستان کے قرضوں کا حجم غیر معمولی طور پر بڑھ گیا اور پاکستان کا کاروباری طبقہ سخت مالی مسائل کا شکار ہوگیا۔
آٹے ، گھی اور کھاد کی اسمگلنگ اور چینی جیسی اشیائے ضروریہ کی غیر قانونی تجارت سمیت مختلف غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث ہونے پر بڑھتے ہوئے خدشات کے تناظر میں دیکھا جائے تو حکومت پاکستان کو ایسا فیصلہ کرنے میں تاخیر نہیں کرنی چاہیے بلکہ رجسٹرڈ افغان مہاجرین کی واپسی کے لیے بھی عملی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے تاکہ پاکستان سرد جنگ کی باقیات سے جان چھڑا سکے۔
ان غیر رجسٹرڈ مہاجرین کی اکثریت خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں موجود ہے ، پنجاب، سندھ خصوصاً کراچی میں بڑی تعداد میں افغان مہاجرین موجود ہیں، ان میں سے زیادہ تر پاکستان کا شناختی کارڈ بنوانے میں کامیاب ہوچکے ہیں۔
یہاں تک کہ آزاد جموں و کشمیر ہزاروں غیر قانونی افغان باشندوں کی میزبانی کر رہا ہے، جب کہ گلگت بلتستان میں بھی افغانستان سے لوگ آکر رہ رہے ہیں، افغانستان میں طالبان کی اقتدار میں واپسی بھی پاکستان کے لیے پہلے سے زیادہ مسائل کا سبب بنی ہے۔
اگست 2021 میں کابل کے سقوط کے بعد سے چھ لاکھ سے زیادہ نئے افغان مہاجرین پاکستان میں داخل ہوئے ہیں۔ اب ترقی یافتہ مغربی ممالک، امیر عرب ممالک، جاپان، جنوبی کوریا وغیرہ افغانستان کی طالبان حکومت کی مالی معاونت کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں، یہ ممالک پاکستان میں پناہ گزینوں کی امدادی کوششوں میں تعاون کرنے سے بھی گریزاں ہیں۔
افغانستان سے بیشتر لوگ 2 راستوں سے پاکستان آ رہے ہیں، ایک بلوچستان سے اور دوسرا طورخم بارڈر سے، طورخم سے تقریباً 5 ہزار افراد ایک دن میں پاکستان آتے ہیں جن میں سے 2 ہزار یہاں ہی رہ جاتے ہیں، مگر ان کے بارے میں یہ پتا نہیں چلتا کہ وہ کہاں قیام کرتے ہیں۔
طورخم بارڈر پر تعینات سیکیورٹی اہلکار ان افغان شہریوں کو پاکستان میں داخل ہونے دیتے ہیں جن کے پاس سفری دستاویز '' تذکرہ'' ہوتی ہے جو افغانستان حکومت کی جانب سے جاری کی جاتی ہے، پاکستان آنے والے بیشتر افغانیوں کے پاس جعلی تذکرہ ہوتا ہے، تاہم اس دستاویز کی تصدیق نہیں کی جا سکتی، تذکرہ دو تین طریقوں سے لکھا ہوتا ہے، یہ کبھی پرنٹ ہوا ہوتا ہے، بعض اوقات یہ فارسی زبان میں یا پھر ہاتھ سے لکھا ہوتا ہے۔
افغانستان سے آنے والوں کی ایک بڑی تعداد میڈیکل گراونڈز پر پاکستان آتے ہیں، پاکستان میں داخل ہونے کے بعد یہ لوگ واپس گئے یا نہیں گئے، یہ اعدادوشمار غلط سلط بنا دیے جاتے ہیں ۔ حکومت کو ایسی پالیسی بنانی چاہیے کہ تذکرہ کے ذریعے افغان شہریوں کا پاکستان میں داخلے کا سلسلہ ختم ہوجائے اور صرف پاسپورٹ پر ویزہ رکھنے والے افغان شہریوں کو پاکستان آنے کی اجازت دی جائے۔
اس کے علاوہ جو افغان شہری علاج کی غرض سے پاکستان آتے ہیں، ان کا ڈیجیٹل ڈیٹا ہونا چاہیے، جو براہ راست مرکزی نظام سے منسلک ہو، یوں یہ معلوم ہوسکے گا کہ افغانستان سے علاج کے لیے آنے والے مریض خیبر پختونخوا، بلوچستان ، پنجاب یا سندھ کے کس شہر کے اسپتال سے علاج کرارہے ہیں اور مریض کے ساتھ آنے والے لوگ کہاں قیام پذیر ہیں اور یہ لوگ اپنے ویزہ کی مقررہ مدت سے پہلے واپس افغانستان چلے گئے ہیں یا نہیں۔ پاکستان آنے والوں کے بارے میں یہ پتا نہیں چلتا کہ وہ دہشت گرد ہیں، علاج کے لیے آئے ہیں یا کسی اور مقصد کے لیے یہاں آئے ہیں'اس لیے ڈیٹا ضروری ہے۔
پاک افغان سرحد کو مزید محفوظ کرنے کی ضرورت ہے، کسٹمز اور کسٹمز انٹیلی جنس کے دائرہ کار کو بھی بڑھانا چاہیے، خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں پولیس کی تربیت اور ٹریننگ جدید خطوط پر ہونی چاہیے۔ خیبر پختونخوا افغان پناہ گزینوں کی غیر قانونی سرگرمیوں سے سب سے زیادہ متاثر صوبہ ہے، خیبر پختو نخوا میں افغان باشندے اغواء برائے تاوان، منشیات فروشی، غیر قانونی اسلحہ، ٹریفک حادثات، انسانی اسمگلنگ اور دیگر بڑے جرائم میں ملوث ہیں۔
بہت سے غیر قانونی افغان باشندے مختلف جرائم میں قانونی اداروں کو مطلوب ہیں جن میں سے بہت سے گرفتار ہیں۔ خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے مختلف علاقوں میں کئی مشکوک افراد گرفتار ہوئے تو ان سے جدید ترین امریکی اسلحہ برآمد ہوا ہے، دہشت گردوں کے پاس نائٹ ویژن کیمرے اور چشمے بھی موجود ہیں، جن کی مدد سے رات کے اندھیرے میں ڈیڑھ سے دوکلومیٹر دور تک باآسانی دیکھا جاسکتا ہے۔
ادھر ورلڈ بینک کے مطابق رواں سال افغانستان میں مہنگائی کی شرح میں نو فیصد سے زائد اور اشیا خورونوش کی قیمتوں میں 12 فیصد کمی دیکھی گئی، جب کہ افغانستان کی عبوری حکومت نے عالمی بینک کی حالیہ رپورٹ کا خیرمقدم کرتے ہوئے اس میں حقائق کو درست انداز میں پیش کرنے کے عمل کو سراہا ہے۔
افغانستان کی عبوری حکومت اکثر ایسی خبریں جاری کرتی رہتی ہے جس میں بتایا جاتا ہے کہ کابل اور دیگر شہروں میں امن ہے، کاروبار ترقی کررہا ہے، بھارت، چین اور کئی ممالک کی کمپنیاں وہاں پروجیکٹ شروع کرچکی ہیں ، یہ بھی کہا جاتا ہے کہ افغانستان میں 1200 سے زائد معدنی ذخائر موجود ہیں، اس معدنی دولت کا تخمینہ 3 ٹریلین ڈالر ہے۔ رواں برس 31 اگست کو افغان حکومت کے عہدیداروں نے مقامی اور بین الاقوامی کارپوریشنوں کے ساتھ کان کنی کے 7 معاہدوں پر دستخط کیے ہیں۔
سادہ سا سوال ہے کہ جب افغانستان کی معیشت اتنی مستحکم ہورہی ہے، امن و امان قائم ہے، کاروباری ترقی کررہا ہے، افغانستان کی کرنسی کی قدر پاکستانی روپے سے زیادہ ہے، نئی سرمایہ کاری ہورہی ہے، اگر یہ سب کچھ سچ اور حقیقت ہے تو یہ افغانستان کی حکومت اپنے افغان باشندوں کو واپس لانے کا اعلان کیوں نہیں کررہی ہے؟ پاکستان میں موجود افغان پناہ گزین افغانستان میں اپنے اپنے گھروں میں واپس کیوں نہیں جاتے اور سب سے بڑھ کر حکومت پاکستان کیوں افغان پناہ گزینوں کو واپس بھجوانے کا حتمی فیصلہ نہیں کرتی؟
افغانستان کی پاکستان مخالف پالیسیوں اور افغان مہاجرین کی وجہ پاکستانی سیکیورٹی اورمعیشت بری طرح متاثر ہورہی ہے ، پاکستان میں دہشت گردی اور بدامنی سے معاشی سرگرمیوں میں کمی آئی، غیر یقینی کی صورتحال اور خدشات میں اضافہ ہوا اور سرمایہ کاروں کا اعتماد متزلزل ہوا۔
دہشت گردی کے باعث 83 ہزار پاکستانی شہید ہوئے، افغان تنازعے کے بالواسطہ اور بلاواسطہ نقصانات 126 ارب ڈالر تک ہیں۔ اگرچہ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں نمایاں کامیابیاں حاصل کی ہے، تاہم ملک میں ابھی بھی بڑے پیمانے پر دہشت گردانہ حملوں کا خطرہ موجود ہے، افغانستان ٹرانزٹ ٹریڈ پاکستان میں بلیک اکانومی کے حجم میں غیرمعمولی پھیلاؤ کی بنیاد ہے۔
افغان حکام افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے آئٹمز کی قیمتوں کے حوالے سے پاکستان کسٹمز کے ساتھ غلط بیانی کرتے ہیں، جس کے نتیجے میں اشیا کی رپورٹ شدہ اور حقیقی قدر میں نمایاں فرق سامنے آتا ہے۔ حال ہی میں منظر عام پر آنے والا سولر پینلز اسکینڈل اس کی تازہ مثال ہے۔ افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کو انٹرنیشنل قوانین کے مطابق کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔