پلاسٹک سے سنگین بیماریاں لاحق ہونے کا خطرہ
دو تحقیقی رپورٹوں کے چشم کشا نتائج پلاسٹک اشیا سے وابستہ کئی مضرِ صحت پہلو پہلی بار سامنے لے آئے
گھر، دفتر ہو یا بازار، ہر جگہ پلاسٹک سے بنی کئی اشیا روزانہ ہم استعمال کرتے ہیں۔ پلاسٹک کی مختلف اقسام ہیں۔
نائلون اور پولیسٹر بھی ان میں شامل ہیں جن سے بنے کپڑے ہم زیب تن کرتے ہیں۔ پلاسٹک ایک ہلکا، پائدار، لچکداراورآسانی سے دستیاب سستا مادہ ہے جسے کسی بھی شکل میں موڑا جا سکتا ہے۔ انہی خصوصیات کی بنا پہ پلاسٹک کو مقبولیت ملی اور عام استعمال کی سیکڑوں چیزیں پلاسٹک سے بننے لگیں۔
ان کے ذریعے غریب عوام کے لیے بھی ممکن ہو گیا کہ وہ ضرورت کی ایسی اشیا سستے داموں خرید سکیں جو پہلے مہنگے مادوں سے بننے کی وجہ سے مہنگی اور ان کی دسترس سے دور تھیں۔ غرض پلاسٹک نے انسان کی زندگی آسان بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔
لیکن اب پلاسٹک کے مضر ِصحت پہلو بھی سامنے آ رہے ہیں جنھوں نے اس مصنوعی مادے کو انسان دشمن بنا دیا۔
یہ یاد رہے کہ دنیا کا پہلا مصنوعی پلاسٹک ''بیک لائٹ'' تھا جو 1907ء میں امریکی موجد، بیکی لینڈ نے ایجاد کیا۔ اسے فینول (کوئلے سے نکلے مادے) اور کیمیائی گیس، فارملڈیہائڈ کے ملاپ سے تیار کیا گیا۔ اس کے بعد کوئلے، پٹرول اور قدرتی گیس کو مختلف کیمیائی مادوں میں ملا کر مصنوعی پلاسٹک کی مختلف اقسام تیار کر لی گئیں۔
جنگ عظیم دوم کے بعد پلاسٹک کی اقسام کو وسیع پیمانے پر بنایا جانے لگا۔ آج ہر سال دنیا بھر میں پھیلے کارخانے ''چالیس کروڑ ٹن ''سے زیادہ پلاسٹک تیار کرتے ہیں۔ آبادی بڑھنے کی وجہ سے ہر سال پلاسٹک کی مقدار بھی بڑھ رہی ہے۔ خیال ہے کہ 2050ء میں ''ایک ارب ٹن '' پلاسٹک تیار ہو گا۔
دنیا کا 98 فیصد پلاسٹک رکازی ایندھن (پٹرول، کوئلے، قدرتی گیس) سے تیار ہوتا ہے۔ اس پلاسٹک کی تیاری میں 13 ہزار سے زائد کیمیکل استعمال ہوتے ہیں۔ بقیہ ایک دو فیصد پلاسٹک قدرتی اشیا مثلاً کپاس، گوند، رال وغیرہ سے بنتے ہیں۔
پلاسٹک سے بنی اشیا کا سب سے منفی پہلو یہ ہے کہ مسلسل استعمال کے دوران ان کے ذرات جھڑتے رہتے ہیں جو بہت ننھے منے ہونے کی وجہ سے ہمیں دکھائی نہیں دیتے۔ یاد رہے، ایک پتھر پہ پانی کا محض ایک قطرہ بھی ٹپکتا رہے تو وہ آخر کار اس میں سوراخ کر دیتا ہے۔
غرض مادوں کا جھڑ جانا ایک قدرتی عمل ہے۔ ماہرین نے پلاسٹک کے غیر مرئی ذرات کو دو گروہوں میں تقسیم کیا ہے۔ اول ''مائکروپلاسٹک'' (Microplastic) جو ایک سے پانچ ہزار مائکرومیٹر تک کے ہوتے ہیں۔ دوم ''نینوپلاسٹک'' (Nanoplastic) جن کا سائز ایک مائکرومیٹر سے کم ہوتا ہے۔
جیسا کہ بتایا گیا کہ بیشتر پلاسٹک رکازی ایندھن (پٹرول، قدرتی گیس، کوئلے) اور کیمیائی مادوں سے بنتے ہیں۔ پانچ چھ سال پہلے امریکا میں چند ماہرین طب نے یہ خدشہ ظاہر کیا کہ پلاسٹک کے ذرات انسانی جسم میں پہنچ کر انسانوں کو مختلف بیماریوں کا نشانہ بنا سکتے ہیں۔
وجہ یہ کہ ذرات اتنے چھوٹے ہیں کہ ہمارے جسم کے خلیے انھیں جذب کر لیتے ہیں۔ ذرات پھر خلیوں کی مشینری میں کوئی بھی طبی نقص یا نقائص پیدا کر سکتے ہیں۔
جب ماہرین طب کا درج بالا خدشہ سامنے آیا تو طبی سائنس داں اس جانب متوجہ ہوئے کہ تحقیق کی جائے، پلاسٹک کے ذرات انسانی جسم میں پہنچ کر کیا کسی قسم کی خرابیاں پیدا کرتے ہیں؟ کیا ان کے ذریعے انسان بیماریوں میں مبتلا ہو سکتا ہے؟
یہ ذرات اگر انسان کے بدن میں طویل عرصہ موجود رہیں تو کیا منفی تبدیلیاں جنم دے سکتے ہیں؟ غرض کئی طرح کے سوالات پیدا ہو گئے کیونکہ رکازی ایندھن اور کیمیائی مادے بنی نوع انسان کے لیے فائدے مند ہونے کے باوجود انسانی صحت پہ منفی اثرات بھی مرتب کرتے ہیں۔
2023ء کا سال اس لحاظ سے انقلاب انگیز ثابت ہوا کہ پلاسٹک کے مضرصحت پہلو افشا کرنے والی دو مستند اور اہم تحقیقی رپورٹیں سامنے آئیں جنھوں نے مغربی دنیا میں ہلچل مچا دی۔ پاکستان میں میڈیا سائنسی رپورٹوں کو اہمیت نہیں دیتا، اس لیے وہ وطن عزیز میں نمایاں نہ ہو سکیں۔
یہ واضح رہے کہ پلاسٹک اشیا جلد ضائع نہیں ہوتیں بلکہ وہ آہستہ آہستہ گلتی سڑتی ہیں۔ یوں ان کے ذرات ہوا، پانی اور مٹی میں رفتہ رفتہ شامل ہو جاتے ہیں۔ جب گاڑیوں کے ٹائر سڑک سے رگڑتے ہیں، تو ان کے ذرات ہوا میں تیرنے لگتے ہیں۔
یہ پھر سانس لیتے انسانوں کے جسم میں بذریعہ ناک یا منہ داخل ہو جاتے ہیں۔ پینے والے پانی اور کھائی گئی خوراک میں بھی پلاسٹک کے ذرے موجود ہو سکتے ہیں۔ غرض پلاسٹک اشیا کی فراوانی کے باعث ان کے ذرات کی بھی دنیا میں کثرت ہو چکی اور اب روزانہ ہر انسان انھیں کسی نہ کسی طرح اپنے جسم میں داخل کر رہا ہے۔
پہلی دھماکہ خیزرپورٹ
اقوام متحدہ نے ماحولیاتی مسائل سے نمٹنے کی خاطر ایک ادارہ، یونائٹیڈ نیشنز انوائرمنٹ پروگرام شروع کر رکھا ہے۔اس ادارے کے ماہرین نے پلاسٹک کے ذرات پہ ایک تحقیقی رپورٹ ''پلاسٹک میں کیمیائی مادے'' (Chemicals in Plastics - A Technical Report) مرتب کی جو پچھلے ماہ شائع ہوئی۔
اس رپورٹ نے انکشاف کیا کہ پلاسٹک کی تیاری میں جو 13 ہزار سے زائد کیمیکل استعمال ہوتے ہیں، ان میں ''تین ہزار دو سو'' سے زائد کیمیائی مادے انسانی صحت کے لیے خطرناک ہیں۔ معنی یہ کہ وہ انسان کو کسی نہ کسی بیماری یا طبی خلل میں مبتلا کر سکتے ہیں۔
رپورٹ کی رو سے یہ خطرناک کیمیائی مادے خاص طور پہ بوڑھوں، بچوں اور حاملہ خواتین کو مختلف امراض میں مبتلا کر تے ہیں کیونکہ ان کا جسمانی مدافعتی نظام کمزور ہوتا ہے۔
خدانخواستہ کوئی حاملہ عورت پلاسٹک ذرات کی وجہ سے کسی بیماری کا نشانہ بن جائے تو وہ اسے اپنے بچے میں بھی منتقل کر سکتی ہے۔اسی طرح خدشہ ہے کہ یہ ذرات مردوں کی تخلیقی صلاحیت ختم یا کمزور کر سکتے ہیں۔
واضح رہے، یہ حقیقت پچھلے چند برسوں میں سامنے آئی ہے کہ پلاسٹک کے ذرے انسانی صحت کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ مگر اس سلسلے میں طبی تحقیق نہ ہونے کے برابر ہے۔ اسی لیے اب تک ماہرین طب نہیں جان سکے کہ یہ ذرات مختصر مدت میں انسانوں کو کس قسم کا نقصان پہنچاتے ہیں۔ اور طویل المعیاد لحاظ سے انھیں کون سی بیماریوں کا نشانہ بنانے کی قدرت رکھتے ہیں۔
دوسری چشم کشا رپورٹ
تین مستند سائنسی اداروں...بوسٹن کالج امریکا، منڈیرو فاؤنڈیشن(Minderoo Foundation) آسٹریلیا اور سینٹر سائنٹفک مناکو (Centre Scientifique de Monaco)کے ماہرین طب نے مشترکہ طور پہ تحقیق کی کہ پلاسٹک مصنوعات تیاری کے مرحلے سے لے کر استعمال اور ضائع ہونے تک انسانی صحت پرکس قسم کے اثرات مرتب کرتی ہیں۔ اس تحقیق کا نتیجہ ماہ مئی میں سامنے آیا اور اس نے بھی طبی دنیا میں ہلچل مچا دی۔
تحقیق سے افشا ہوا کہ جو مرد وزن پلاسٹک کے کارخانوں میں کام کرتے ہیں، وہ ان امراض میں گرفتار ہو سکتے ہیں: سلیکا روگ (silicosis)، دل کی بیماریاں، پھیپھڑوں کی پرانی متعرض بیماری (chronic obstructive pulmonary disease)، اور پھیپھڑوں کا کینسر۔
دنیا بھر میں ہزارہا مردوزن پلاسٹک اشیا کی ریسائکلنگ کا کام بھی کرتے ہیں۔ یعنی وہ ناکارہ پلاسٹک اشیا جمع کر کے انھیں کارخانوں یا کوڑا گھروں تک پہنچاتے ہیں۔
یہ لوگ بھی مختلف بیماریوں کا شکار ہو سکتے ہیں جن میں خون کی کمی (leukaemia)، لیمفوما (lymphoma)، دماغ کا کینسر، سینے کا کینسر، میسوتھیلوما (mesothelioma)، پھیپھڑوں کا کینسر، تخلیقی صلاحیت میں کمی اور دل کے امراض نمایاں ہیں۔
ملکوں ملکوں جو لاکھوں لوگ پلاسٹک کے کارخانوں اور کوڑا گھروں کے قریب رہتے ہیں، وہ بھی بیماریوں کا شکار ہو سکتے ہیں۔ وجہ یہی کہ پلاسٹک سے قربت کی بنا پہ اس کے زیادہ ذرات ان کے جسم میں سرایت کر سکتے ہیں۔
رپورٹ کے ماہرین کی رو سے ان لوگوں میں یہ طبی خلل موجود ہو سکتے ہیں: حاملہ خواتین میں بچوں کا قبل از وقت پیدا ہو جانا، نوزائیدہ بچوں کا کمزور پیدا ہونا، دمہ، بچوں میں خون کی کمی، دل کی بیماریاں، پھیپھڑوں کی پرانی متعرض بیماری اور پھیپھڑوں کا کینسر۔
دونوں رپورٹوں سے عیاں ہے کہ پلاسٹک کے ذرات انسانوں کو کئی موذی بیماریوں میں مبتلا کر سکتے ہیں، خاص طور پہ انھیں جو طویل عرصہ ان ذروں کے درمیان گذارتے ہیں۔ چونکہ دنیا بھر میں پلاسٹک اشیا کے استعمال میں اضافہ ہو رہا ہے، اسی لیے عام لوگ بھی اب ان بیماریوں میں مبتلا ہو سکتے ہیں۔
اس کے سبب رپورٹیں تیار کرنے والے ماہرین طب نے تجویز دی ہے کہ پلاسٹک اشیا کا استعمال کم سے کم کرنے کے لیے ایک بین الاقوامی معاہدہ کیا جائے تاکہ انسانیت ان کے مضر صحت اثرات سے محفوظ ہو سکے۔ نیز انھوں نے عوام کو خبردار کیا ہے کہ وہ روزمرہ زندگی میں پلاسٹک اشیا کے استعمال میں زیادہ سے زیادہ کمی لے آئیں۔
مثال کے طور پہ پاکستان میں عموماً تنور سے روٹیاں پلاسٹک سے بنے شاپروں میں لائی جاتی ہیں۔اسی طرح کھانے پینے کی دیگر چیزیں بھی پلاسٹک شاپروں میں پیک کی جاتی ہیں۔ اس عمل کو فوراً روک دینا چاہیے کیونکہ گرم کھانے یا مشروب کی وجہ سے پگھلتے پلاسٹک کے ذرات اشیائے خورونوش میں شامل ہو کر براہ راست ہمارے جسم میں پہنچ جاتے ہیں۔
وہ ذرات نہ جانے پھر انسانی جسم میں کیا گُل کھلاتے ہیں۔ بعید نہیں کہ وہ کوئی خطرناک مرض جنم دے کر انسان کو اگلے جہاں پہنچا دیں۔ مریض اور اس کے پیاروں کو علم ہی نہیں ہو پاتا کہ مرض پلاسٹک کے ذرات کی وجہ سے پیدا ہوا ۔
پانی اور مشروب بھی ہمارے ہاں پلاسٹک کی بوتلوں میں عام ملتا ہے۔گھروں میں ریفریجریٹر میں پانی پلاسٹک بوتلوں ہی میں رکھا جاتا ہے۔سبھی پلاسٹک اشیا بنانے والوں کا دعوی ہے کہ یہ انسانی صحت کو نقصان نہیں پہنچاتیں۔ مگر بیان کردہ طبی رپورٹیں منظرعام پر آنے کے بعد بہتر ہے کہ ہر کوئی پلاسٹک اشیا احتیاط سے استعمال کرے۔ اور مناسب یہی ہے کہ ان کا استعمال ترک کر دیا جائے۔
نیز حفظ ماتقدم کے طور پہ دن میں پانچ چھ بار ہاتھ دھونا لازمی بنا لیجیے تاکہ پلاسٹک کے ذرات ، جراثیم اور وائرس ہاتھوں کے ذریعے جسم میں داخل نہ ہو سکیں۔ احتیاط سے آپ اپنی تندرستی کی لازوال دولت سدا برقرار رکھ سکتے ہیں۔