معیشت کی بحالی کے چند بڑے چیلنجز
ہمیں سیاسی اور معاشی محاذ پر ایک نئے فہم کی ضرورت ہے۔ ایسی سوچ جو ہمیں علاقائی سطح کی معیشت کی بنا پر جوڑ سکے
پاکستانی معیشت کی درستگی ایک بڑی تبدیلی کا تقاضہ کرتی ہے ۔ یہ عمل روائتی نہیں بلکہ غیر معمولی نوعیت پر مبنی اقدامات کی صورت میں ہی ممکن ہوسکتا ہے۔
معیشت کی درستگی کا معاملہ جہاں عالمی مالیاتی اداروں ، عالمی دنیا اور عالمی سطح پر سرمایہ کاری کے عمل سے جڑا ہوا ہے وہیں اس عمل میں داخلی محاذ پر ایک بڑے سخت گیر اصلاحات یا انفراسٹرکچرل سطح پر بہت کچھ تبدیل کرنے سے بھی جڑا ہوا ہے۔ یہ جو ہماری خوش فہمی یا جذباتیت یا لاٹری سے جڑی حکمت عملی ہے کہ معاشی ترقی میں باہر کی دنیا ہماری مدد میں پیش پیش ہوگی درست حکمت عملی نہیں۔
یہ ہی وہ حکمت عملی ہے جو تسلسل یا تواتر کے ساتھ ہماری ناکامی کا سبب بن رہی ہے ۔وجہ صاف ہے کہ ہم یا ہمارا نظام بنیادی نوعیت کی سخت گیر اصلاحات کرنے کے لیے تیار نہیں ہے ۔ ایسے میں معاشی ترقی یا معاشی بدحالی سے نکلنے کی خواہش تو ہوسکتی ہے مگر حقایق اس کے برعکس ہیں۔
پاکستان کو معاشی ترقی کے عمل کو مختلف سطحوں پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ اول طویل المدتی، درمیان المدتی اور مختصر المدتی بنیادوں پر فریم ورک، منصوبہ بندی اور عملدرآمد کی حکمت عملی ، دوئم معیشت اور سیاست کی مضبوطی کا فریم ورک ، سوئم نظام میں خود احتسابی اور شفافیت کے عمل کو یقینی بنانا ،چہارم داخلی اور خارجی سرمایہ کاری کو یقینی بنانا اور اس کے لیے دو طرفہ سازگار ماحول کو فوقیت دینا ، پنجم ادارہ جاتی اصلاحات میں جدیدیت کی بنیاد پر تبدیلیوں کو ممکن بنانا، ششم معیشت اور عام آدمی کے مفادات میں ہم آہنگی، توازن اور باہمی مفاد کو ترجیح دینا، ہفتم معاشی معاملات یا کاروباری طبقہ کے ریکارڈ کو مرتب کرنا یا ٹیکس نیٹ کو بڑھانا اور بالخصوص طاقت ور طبقوں کو ٹیکس نیٹ میں لانا، ہشتم چھوٹی صنعتوں کو فروغ دینا اور معاشرے کے مجموعی مزاج کو معاشی امور یا انٹرپینیور شپ سے جوڑنا ، نہم گورننس یا حکمرانی کے نظام میں بہتری اور شفافیت کو پیدا کرنا ، دہم ادارہ جاتی عمل میں بلاوجہ کا پھیلاؤ اور غیر ترقیاتی اخراجات میں کمی اور مقامی صنعت کا فروغ۔
معاشیات کے تناظر میں چند بڑے چیلنجز کو دیکھیں تو حال ہی میں ورلڈ بینک نے پاکستان کی معیشت کی حالت پر شدید تشویش کا اظہار کیا ہے ۔ ان کے بقول زراعت اور رئیل اسٹیٹ پر فوری طور پر ٹیکس لگانے کے لیے اقدامات کیے جائیں اور معاشی استحکام کے لیے جی ڈی پی کے سات فیصد کے برابر مالیاتی ایڈجسٹمنٹ کرتے ہوئے اپنے بے جا اخراجات کم کرے۔
اسی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں گزشتہ مالی برس میں غربت بڑھ کر 39.04فیصدتک پہنچ گئی ہے جو کہ پچھلے برس 34.02فیصد تھی ۔ اور ان ہی خراب معاشی حالات کی وجہ سے مزید سوا کروڑ افراد غربت کے جال میں ہی پھنس گئے ہیں ۔تقریبا ساڑھے نو کروڑ پاکستانی اس وقت غربت کی زندگی گزار رہے ہیں ۔جب کہ پچھلے برس یہ تعداد سات کروڑ ساٹھ لاکھ تھی ۔اسی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کا معاشی ماڈل مکمل طور پر تباہ شدہ ایک بڑی سرجری کا تقاضہ کرتا ہے۔
اسی ادارے نے پاکستان کے تناظر میں اپنی جاری کردہ پالیسی کے مسودہ کا اجرا کیا ہے جس میں کم انسانی ترقی ، غیر پائیدار مالیاتی صورتحال ، زراعت، توانائی اور نجی شعبہ جات کو ضابطہ میں لانا اور ان شعبوں میں اصلاحات کو مستقبل کی حکومت کا ترجیحی ایجنڈا قرار دیا ہے ۔ اسی طرح جی ڈی پی کے تناسب سے ٹیکس میں فوری طور پر پانچ فیصد اضافہ کرنے اور اخراجات کو جی ڈی پی کے تقریباً 2.07فیصد تک کم کرنے کے اقدامات تجویز کیے گئے ہیں۔
دوسری جانب ہمارے سامنے ایف بی آر کے سابق سربراہ شبر زیدی کا انٹرویو بھی موجود ہے جس میں ان کے بقول پی ٹی آئی حکومت میں جب انھوں نے بعض شعبوں پر ٹیکس لگانے یا ان کو حساب کتاب میں لانے پر زور دیا تو اس سیاسی اور غیر سیاسی اشرافیہ نے مزاحمت دکھائی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ طاقت ور اشرافیہ یا تو خود ریاست و حکومت ہے یا ان کا ان کے ساتھ باہمی گٹھ جوڑ ہے ، جومسائل کو پیدا کرنے کا سبب بن رہا ہے۔
اسی طرح ہماری معیشت کی بدحالی میں ایک بڑا چیلنج مسلسل سیاسی عدم استحکام اور سیاسی محاذ پر تواتر کے ساتھ جاری سیاسی مہم جوئی یا ایڈونچرز کا کھیل جو سیاست کے ساتھ ساتھ معاشی عدم استحکام کا سبب بن رہا ہے ۔ یہ تھیوری کہ سیاسی مسائل کو پس پشت ڈال کر صرف اور صرف معیشت پر توجہ دینے سے مسائل حل ہوسکیں گے، غلط حکمت کی جانب قدم ہے۔ کیونکہ سیاست اور معاشی ترقی کا باہمی تعلق اہم ہے اور اس کو جوڑ کر ہی معاشی ترقی کا عمل آگے بڑھ سکتا ہے ۔لیکن اس کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ جو بھی سیاسی اور معاشی پالیسیاں یا قوانین یا ادارہ جاتی تبدیلیاں کی جائیں ان میں ذاتی مفادات کی سوچ اور فکر کو پیچھے چھوڑنا ہوگا ۔
اسی طرح جو علاقائی ممالک میں نئی سیاسی اور معاشی تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں اس میں بھی ہمارے لیے بہت سے سبق ہیں اور ہمیں سیکھنے کی ضرورت ہے کہ ہم کیا حکمت عملی اختیار کریں ،بھارت میں ہونے والی جی 20اجلاس اور وہاں ہونے والے اقدامات اور فیصلوں نے خطہ کی سیاست اور معیشت کو ایک نئے موڑ کر لاکھڑا کردیا ہے۔
اگر ہم نے خطہ کی سیاست میں اپنی سیاست سمیت معیشت کی اہمیت اور نئے امکانات اور نئے مواقعوں کو بنیاد بنا کر آگے بڑھنا ہے تو ہمیں سیاسی اور معاشی محاذ پر ایک نئے فہم کی ضرورت ہے ۔ ایسی سوچ جو ہمیں علاقائی سطح کی معیشت کی بنا پر جوڑ سکے ۔ لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ پہلے ہمیں اپنے داخلی محاذ پر دیانت داری سے تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے ۔ جو ہمارے داخلی سطح کے مسائل ہیں ان کا تجزیہ کرکے اسے درست سمت میں لے کر چلنا اور ایک ایسی متبادل پالیسی کی طرف پیش رفت کرنا جو ہمیں داخلی سطح پر مضبوط کرسکے۔
یہ ہی حکمت عملی ہمیں خارجی محاذ پر معاشی طور پر بھی مضبوط بناسکے گی ۔یہ جو داخلی محاذ پر مافیاز پر مبنی گٹھ جوڑ بن گیا ہے وہ ہمیں آگے کی بجائے مزید پیچھے کی طرف دھکیلے گا۔ جب تک طاقتور لوگوں کو آئین ، قانون اور ادارہ جاتی عمل کی سطح پر گرفت لایا یا جوابدہ نہیں بنایا جائے گا ہماری معاشی اصلاح کے امکانات مخدوش ہی رہیں گے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ہم یہ سب کچھ کرنے کے لیے تیار ہیں اور کیا ہماری طاقت ور اشرافیہ یہ کڑوی گولی کھاکر ریاستی مفاد میں فیصلے کرے گی یا بلی کے گلے میںگھنٹی کون باندھے گا، اہم سوال ہے۔