G20 کانفرنس اور کینیڈا انڈیا تنازعہ
ہندوستانی سخت طیش میں ہیں اور کینیڈا کو سخت سست کہتے ہوئے سنگین نتائج کی دھمکی دے رہے ہیں
امسال اگست کے تیسرے ہفتے جوہنسبرگ میں برکس سربراہی اجلاس سے انڈیا کو بہت امیدیں تھیں۔ انڈیا کی خواہش تھی کہ انڈیا اور چین کے درمیان سرحدی تنازعہ کے سلسلے میں بریک تھرو ہو جائے جس سے 2024ء میں ہونے والے عام انتخابات میں جناب نریندر مودی کو بہت مدد ملے گی لیکن ایسا نہ ہو سکا۔
سربراہی اجلاس کی سائیڈ لائن ملاقات بے نتیجہ رہی جس کا مشترکہ اعلامیہ تک جاری نہیں ہوا۔برکس اجلاس کے 18 دن کے بعد دہلی میںG-20اجلاس منعقد ہوا۔چونکہ انڈیا اور چین دونوں G-20 تنظیم کے ممبر ہیں اس لیے ایک مرتبہ پھر وہی امید ابھری لیکن وائے ناکامی یہاں بھی انڈیا کی بن نہ آئی۔
چین کے صدر جناب شی G-20 اجلاس میںشریک نہیں ہوئے۔ادھر 9ستمبر کو ہونے والے اجلاس سے صرف دو دن پہلے چین نے اپنے ملک کا نقشہ جاری کیا جس میں موجودہ انڈیا کے کئی علاقے بشمول لداخ اور ہماچل پردیش چین کے علاقے دکھائے گئے۔یوں چین نے G-20اجلاس کے شروع ہونے سے پہلے ہی انڈیا کو بے مزہ کر دیا۔
G-20 اصل میں19ممالک اور یورپین یونین پر مشتمل ان ممالک اور ان کے مرکزی بینکوں کے مابین تعاون کی تنظیم ہے، دہلی سربراہی اجلاس میں افریقن یونین کو بھی مکمل ممبر شپ مل گئی ہے اس لیے اب یہ G-20 نہیں بلکہ عملاًG-21تنظیم بن گئی ہے گو کہ یورپین یونین کے سارے ممبر ممالک یورپین یونین کی وجہ سے اس تنظیم سے جڑے ہوئے ہیں اور اب افریقن یونین میں شامل تمام افریقی ممالک بھی اس تنظیم سے وابستہ ہو گئے ہیں۔
تنظیم کے ابتدائی ممبران میں ارجنٹائن، آسٹریلیا، برازیل، کینیڈا، چین، فرانس، جرمنی، انڈیا، انڈونیشیا، اٹلی، جاپان، میکسیکو، روس، سعودی عرب، جنوبی افریقہ، جنوبی کوریا، ترکی، برطانیہ اور امریکا شامل ہیں۔یہ تنظیم 1999میں وجود میں آئی۔دہلی اجلاس نو اور دس ستمبر کو ہوا۔
اس اجلاس کے لیے انڈیا نے غیر معمولی تیاریاں کیں۔اس بات کا خاص طور پر بندوبست کیا گیا کہ کسی معزز مہمان کی نظر غریب بستیوں پر نہ پڑے۔ غریب بستیوں کے گرد کئی کئی فٹ اونچے سبز کپڑے کے تھان لگا کر ان کو چھپا دیا گیا۔حتیٰ کہ ان بستیوں کے رہائشیوں کو باہر سڑک پر نکلنے سے بھی منع کر دیا گیا۔غریبوں کی بستیوں کو اس لیے مہمانوں کی نظروں سے اوجھل کر دیا گیا کیونکہ 1990کی دہائی سے مسلسل دنیا کو ایک Amazing,Shiningاور تیزی سے ترقی کرتا انڈیا دکھایا جا رہا ہے۔
اس پروپیگنڈا کے زور پر انڈیا دنیا کو یہ باور کرانے میں کامیاب رہا ہے کہ یہ ملک اب ایک خوشحال،ترقی یافتہ ملک ہے۔اگر مہمانوں کی نظر غریب انڈیا پر پڑ جاتی تو پچھلے چالیس پینتالیس سال کی بالی وڈ اسٹائل پروپیگنڈا مہم زمین بوس ہو جاتی۔ ناچتے،گاتے،مسکراتے انڈیا کو دکھانے کے لیے دو دن کی کانفرنس پر4000کروڑ ہندوستانی روپے خرچ کر دئے گئے۔
ہر مہمان کی ضیافت کے لیے سونے اور چاندی کے برتن لگائے گئے۔ دوشیزائیں خدمت کے لیے موجود تھیں۔دو دن کی سربراہی کانفرنس کے دوران ہر اجلاس اور ہر شو کے لیے وزیرِ اعظم مودی جی کپڑوں کے نئے جوڑے میں ملبوس نظر آئے۔
G-20 سربراہی کانفرنس میں انڈیا نے کئی ایک کامیابیاں سمیٹیں۔ایک تو ساری دنیا کی نظریں انڈیا پر مرکوز رہیں۔امریکا کے ساتھ کئی ایم او یوز پر دستخط ہوئے،ان میں سے 5ایم او یوز بہت اہم ہیں۔پہلے ایم او یو میں امریکا اور انڈیا نے اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ دونوں ملک مل کر جیٹ انجن تیار کریں گے۔اس طرح اس پر عمل پیرا ہونے سے انڈیا امریکی ٹیکنالوجی سے لیس ہو کر جیٹ انجن بنانے والا ملک بن جائے گا۔ دوسرے ایم او یو میں کہا گیا ہے کہ امریکا انتہائی ایڈوانس 31ڈرون طیارے انڈیا کو بیچے گا اور بعد میں یہ ڈرونز انڈیا میں ہی اسمبل ہوں گے۔
تیسرے ایم او یو کے مطابق انڈیا،امریکا کی مدد سے سیمی کنڈکٹرز انڈیا کے اندر اسمبل کر کے ٹیسٹ کر سکے گا۔چوتھے ایم او یو کے تحت دونوں ممالک باہمی تعاون کرتے ہوئے 2024میں خلاء میں ایک مشترکہ مشن انٹرنیشنل سپیس اسٹیشن کی طرف بھیجیں گے ۔پانچویں ایم او یو کے مطابق دونوں ممالک کے درمیان چھ تجارتی جھگڑوں کو WTOمیں حل کروا لیا جائے گا۔انڈیا اور سعودی عرب کے درمیان بھی کئی ایم او یوز سائن کیے گئے جن میں سے ایک کے مطابق سعودی عرب انڈیا سے مزید افرادی قوت منگوائے گا۔
یاد رہے کہ سعودی عرب میں پہلے ہی 18سے20لاکھ ہندوستانی کام کر کے زرِ مبادلہ انڈیا بھیج رہے ہیں۔ایک طرف انڈیا سے مزید لیبر فورس منگوائی جا رہی ہے،دوسری طرف پاکستانی لیبر فورس کو نکالا جا رہا ہے۔G-20 کانفرنس میں انڈیا کو سخت مایوسیاں بھی ہوئیں۔ہندوستانی حکومت نے تمام سربراہوں کو گاندھی جی سمادھی پر چلنے کا کہا تو سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے سمادھی پر جانے سے یکسر انکار کر دیا۔گاندھی جی جیسے مہاتما کی سمادھی پر جانے سے انکار انڈیا کے لیے دھچکا تھا۔
امریکی صدر جو بائیڈن آئے تو دودن کی کانفرنس کے لیے تھے لیکن وہ بمشکل ایک ہی دن قیام کر کے ویت نام چلے گئے۔انڈیا کے لیے سب سے بڑی مایوسی دو انتہائی اہم ممالک کے صدور کادہلی اجلاس میں شرکت سے معذرت کرنا تھا۔
چین عمومی جی ڈی پی کے لحاظ سے امریکا کے بعد دنیا کی دوسری بڑی اکانومی اور Purchasing power parity کے لحاظ سے دنیا کی سب سے بڑی اکانومی بن چکا ہے۔یہ ایک بہت بڑی آبادی رکھتا ہے۔چین کے صدر جناب شی کا اجلاس میں شریک نہ ہونا کانفرنس کی کامیابی کو گہنا گیا۔اسی طرح روس کے صدر جناب ولادی میر پیوٹن کا G-20کانفرنس میں شرکت نہ کرنا خوشحال ہندوستان کے سورج کو بادلوں کی لپیٹ میں لے گیا۔
قسمت نے ہندوستان کو کانفرنس کی کامیابی کی خوشی بھی نہ منانے دی۔کانفرنس ابھی ختم ہی ہوئی تھی اور ہندوستانی میڈیا ابھی پورے طور پر رطب اللسان نہیں ہو پایا تھا،ادھر پاکستان میں بہت سے دوست انڈیا کی کامیابیوں اور پاکستان کی ناکامیوں پر بھرپورخوشیاں منانا شروع ہی ہوئے تھے کہ کینیڈا کے وزیرِ اعظم جناب ٹروڈو نے اپنے ملک واپس پہنچ کر ہائوس آف کامنز میں بیان دیا کہ 18جون کو اوٹاوہ کے گرونانانک گردوارے میں ہر دیپ سنگھ نجر کے قتل کی تفتیش یہ بتاتی ہے کہ اس قتل میں انڈین ریاست کے اہلکار ملوث ہیں۔
جناب ٹروڈو کے اس بیان سے ایک بھونچال آ گیا۔اوٹاوہ اور دہلی کے مابین سفارتی تعلقات میں شدید کشیدگی پیدا ہو گئی۔کینیڈا نے انڈیا کے افسر پون کمار کو کینیڈا سے بے دخل کر دیا۔انڈیا نے شدید غصہ دکھاتے ہوئے کینیڈا کے ایک سینیئر سفارت کار کو بے دخل کر دیا۔دونوں ممالک جواب الجواب ایک دوسرے پر الزامات کی بوچھاڑ کر رہے ہیں۔خالصتان تحریک کی کھلم کھلا حمایت بڑھتی جا رہی ہے۔امریکا بہت محتاط ہے لیکن امریکا نے کہا ہے کہ وہ کینیڈین موئقف کے ساتھ کھڑا ہے۔
سکھ دنیا میں جہاں کہیں بھی ہیں ہر دیپ سنگھ نجر کے قتل پر انڈیا کے خلاف غم وغصے کا اظہار کر رہے ہیں ۔یہ شاید صحیح ہوگا کہ تمام سکھ خالصتانی نہیں ہیں لیکن تحریک کی حمایت ضرور بڑھ رہی ہے۔کینیڈا کے لیے امریکا کی حمایت کامطلب تمام مغرب، جاپان، آسٹریلیا کی حمایت ہے لیکن امریکا چین کے آگے بند باندھنے کے لیے انڈیا کو بہت اہمیت دیتا ہے اس لیے یہ تنازعہ بہت دور نہیں جائے گا۔
امریکا انڈیا سے کچھ مراعات لے کر معاملے کو دبا دے گا۔ہندوستانی سخت طیش میں ہیں اور کینیڈا کو سخت سست کہتے ہوئے سنگین نتائج کی دھمکی دے رہے ہیں۔اس سفارتی جنگ کا انڈیا کو بہت نقصان ہوا ہے۔انڈیا امن و آشتی کا داعی بنا ہوا تھا۔اس کی اس حوالے سے ہوا اکھڑ گئی ہے۔ انڈیا چاہتا تھا کہ ساری دنیا میںG-20 کانفرنس سے کامیابیاں سمیٹتا نظر آئے لیکن وہ ہوا جس کو کہتے ہیں کہ سر منڈاتے ہی اولے پڑے۔