اپنی حدود میں رہیے
صدر کو جاننا چاہیے کہ وہ اپنے ہر اقدام کے لیے وزیر اعظم کی ایڈوائس کا پابند ہے
اس وقت دنیا بھر میں جو پارلیمانی جمہوریتیں موجود ہیں ان کی ماں برطانوی جمہوریت ہے۔ بادشاہت بلکہ زیادہ صحیح تر شہنشاہیت کے خاتمے اور جمہوری نظام کو رائج کرنے میں برطانیہ نے بڑے سلیقے سے کام کیا۔ انھوں نے بادشاہت کو کسی خونی انقلاب کے ذریعہ ختم نہیں کر دیا ہے بلکہ بادشاہت کو برقرار رکھا مگر اس کے دانت نکال دیے، اسے تبرک کی چیز بنا دیا۔
برطانوی شاہ/ملکہ بڑی محترم اور مقدس شخصیت ہوتی ہے وہ محلات میں قیام فرماتی ہے، اسے ہر آسائش فراہم کی جاتی ہے۔ مگر حکمرانی اس کے نام سے کی جاتی ہے مگر اس سے اس کا کوئی لینا دینا نہیں ہوتا۔ اصل حکمران وزیر اعظم ہوتا ہے اور بادشاہ اس کی مرضی اور منشا کے مطابق عمل کرتا ہے یوں کہا جا سکتا ہے کہ بادشاہ سانس بھی وزیر اعظم کے مشورے سے لیتا ہے۔
برطانیہ کا کوئی تحریری دستور نہیں ہے وہ روایت پرست لوگ ہیں اور اپنی روایات پر سختی سے قائم رہتے تھے اور ان کی زندگی کے تمام ادوار ان کی روایات کے مطابق ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر بیوہ عورت سے شادی ہر عیسائی اور برطانوی کر سکتا ہے مگر روایتاً بادشاہ وقت کسی بیوہ سے شادی نہیں کر سکتا۔
اب یہ ہماری زندگی کی مثال ہے کہ برطانیہ کے شہنشاہ ایڈورڈ ہشتم حکمران تھے کہ ان کا تعلق ایک بیوہ مسز سمپسن سے ہوا اور انھوں نے ان سے شادی کرنا چاہی اس وقت وزیر اعظم سرونسٹن چرچل تھے بادشاہ کے ارادے کا علم انھیں ہوا تو انھوں نے بادشاہ کو بے مروتی سے کہا مسز سمپسن یا تخت برطانیہ میں سے ایک کا انتخاب کر لیجیے۔
ایڈورڈ ہشتم نے مسز سمپسن کا انتخاب کیا وہ تخت سے دست بردار ہوگئے۔ اس وقت برصغیر میں برطانوی قوانین رائج تھے۔ ایک پیسے کے سکے پر شاہ کی تصویر تھی، تخت سے دست برداری پر سکے سے شاہ کی تصویر کاٹ دی گئی، چنانچہ برصغیر کی تقسیم کے وقت تک وہ چھلے دار پیسہ برصغیر میں رائج تھا اور جارج ششم حکمران ہو چکے تھے۔
اسی طرح بادشاہ پارلیمان کے افتتاحی اجلاس سے قبل دارالعوام میں تشریف لا کر رسمی تقریر فرمایا کرتے تھے۔ ایک بار بادشاہ کی سواری محل سے چل پڑی، راستے میں تھی کہ اطلاع ملی دارالعوام کی عمارت میں بم رکھا گیا ہے۔
بادشاہ کی سواری کو راہ میں روک دیا گیا، پارلیمان کی عمارت کا جائزہ لیا گیا جب اطمینان ہو گیا کہ افواہ غلط تھی تو شاہی جلوس کو اطلاع دی گئی تو شاہ نے پارلیمان سے خطاب فرمایا مگر اس دن سے یہ روایت پڑ گئی کہ جب بادشاہ خطاب آئیں تو اسی روایتی جگہ پر ان کی سواری روک دی جاتی ہے اور پھر پہلے جائزہ لینے والے کارکنان اطلاع دیتے ہیں سب ٹھیک ہے اور چند لمحوں کے بعد شاہی سواری روانہ ہو جاتی ہے۔
حکمران کے احترام کا یہ عالم ہوتا ہے کہ جب کسی شخص کو (سیاست دان) برطانوی پارلیمان کے ممبران کی اکثریت کی حمایت حاصل ہو جاتی ہے تو وہ بکنگھم پیلس کا رخ کرتا ہے جہاں ایک کمرے میں صرف ایک کرسی ہوتی ہے، ملکہ اس پر تشریف فرما ہوتی ہیں اور اکثریت کا حامل شخص آ کر ملکہ سے عرض کرتا ہے اسے پارلیمان کے ممبران کی اکثریت کی حمایت حاصل ہے ملکہ اسے وزیر اعظم نامزد کر دیتی ہیں اور حکومت سازی کی اجازت دیتی ہیں ،وہ اس سے انکار نہیں کر سکتیں البتہ وزیر اعظم نہایت فرماں برداری سے اپنے وزیر اعظم مقرر ہونے پر فرحاں و شاداں واپس ہو جاتے ہیں۔
اس لمبی چوڑی تمہید کی ضرورت یوں پیش آئی کہ اب تقریباً ایک صدی سے بیش تر ممالک میں بادشاہت ختم ہو چکی ہے اور بیسویں صدی جمہور کی حکمرانی کی صدی بن چکی ہے۔ برطانوی ملوکیت سے آزاد ہونے والے ممالک نیز دوسرے نو آزاد ملکوں میں اب پارلیمانی جمہوری نظام رائج ہے۔
امریکا میں جمہوری نظام بااختیار صدر کی سربراہی میں کام کرتا ہے مگر دوسرے پارلیمانی جمہوری ممالک میں صدارتی نظام اس طرح رائج نہیں۔ برطانوی وراثت کے باعث پارلیمانی جمہوریت میں بھی صدر ہوتا ہے مگر صرف تبرک کے طور پر اور محاورتاً کہا جاسکتا ہے کہ وہ اپنی مرضی سے سانس بھی نہیں لے سکتا۔ اسے اپنی حکمرانی کے لیے وزیر اعظم کے مشورے کی ضرورت ہوتی ہے اور وہ اپنے حدود سے آشنا ہوتا ہے۔
وہ برطانوی شاہ کی طرح عزت و احترام کا حامل ہوتا ہے مگر اسی کی طرح ہر قسم کے اختیار و اقتدار سے محروم ہوتا ہے وہ ہر کام وزیر اعظم کی منشا و مرضی کے مطابق انجام دینے کا پابند ہوتا ہے اور اس لیے وہ اپنے ملک میں اقتدار کی علامت ہوتا ہے مگر خود اقتدار سے ناآشنا رہتا ہے۔
اب دنیا بھر کے ملکوں میں دساتیر رائج ہیں اور جہاں جمہوریت ہے وہاں صدر کی اس حیثیت کو تفصیل سے دستور میں درج کر دیا گیا ہے اور صدور اپنی اس حیثیت پر قناعت کرتے ہیں اور اس لیے ان کا احترام بھی برطانوی شاہ سے ملتا جلتا ہی ہوتا ہے۔
ہمارے یہاں جمہوری روایات مستحکم نہیں ہیں بار بار مارشل لا نافذ ہونے کے سبب عموماً فوجی حکمران بااختیار بن بیٹھتے ہیں اس کے لیے وہ دستور میں اپنی مرضی کی ترامیم کر لیتے یا دستور کو معطل کر دیتے ہیں اور اس طرح گویا بااختیار صدارتی نظام رائج کر لیتے ہیں مگر جب کبھی جمہوری نظام بحال ہوتا ہے تو بے اختیار صدر بحال ہو جاتا ہے۔
گزشتہ چند سالوں میں ہمارے یہاں تارڑ صاحب، ممنون صاحب اور چند دیگر صدور رہے جو اپنی حدود سے آشنا تھے اس لیے ان اور ان کے وزرا اعظم کے درمیان خوش گوار دستوری مراسم رہے۔ یہ صدور ہوتے تو کسی سیاسی جماعت سے وابستہ ہوتے ہیں یا تو جماعت سے استعفیٰ دے دیتے ہیں یا پھر سیاسی جماعت سے ایک قسم کی لاتعلقی رکھ کر اپنے عہدے کے تقدس کو برقرار رکھتے ہیں۔
مگر پی ٹی آئی عجیب و غریب سیاسی جماعت ہے وہ سیاسی اخلاقیات سے قطعاً نابلد ہے چنانچہ اس جماعت کے رہنما جب صدر بنائے گئے تو انھوں نے صدر کے بجائے اپنی جماعت کے کارکن کا رویہ اپنا کر عہدہ صدارت کو ہی بے توقیر کر دیا۔ غیر ضروری طور پر وزیر اعظم کے بھیجے ہوئے بلوں پر رائے زنی اور صدر کے محض تبرک کی حیثیت سے تجاوز نے صدر کے منصب کا تو کچھ نہیں بگاڑا البتہ خود صدر صاحب کے بارے میں کئی سوالات پیدا کر دیے۔
صدر کو جاننا چاہیے کہ وہ اپنے ہر اقدام کے لیے وزیر اعظم کی ایڈوائس کا پابند ہے اور اسے اس دائرے سے باہر نکلنے کی ضرورت نہیں مگر کیا کیا جائے پی ٹی آئی کے وزیر اعظم کا کہ ان کی ہوس اقتدار بے چارے صدر کو بھی لے ڈوبی۔ بڑے بڑے منصبوں پر فائز لوگوں کو تاریخ کے سامنے جواب دہ ہونا پڑتا ہے۔