غزل
جو دل میں ہے وہی قرطاس پر بھی چاہتے ہیں
مگر سلیقہ ٔ عرضِ ہنر بھی چاہتے ہیں
عجیب لوگ ہیں ہم قاتلوں کی بستی میں
انا بھی رکھتے ہیں شانوں پہ سر بھی چاہتے ہیں
مجھے یہ بات بتائی کسی پرندے نے
درخت پاؤں نہیں بال و پَر بھی چاہتے ہیں
یہ دل کہ لاتا ہے خبریں جہان ِ دیگر کی
اِسے بتاؤ ہم اپنی خبر بھی چاہتے ہیں
اور اب تو شرم سی آتی ہے دشت و صحرا سے
سروں میں سودا بھی رکھتے ہیں گھر بھی چاہتے ہیں
عجیب جنگ ہے یہ زندگی کی جنگ عقیلؔ
ڈٹے بھی رہتے ہیں لوگ اور مفر بھی چاہتے ہیں
(عقیل شاہ۔راولپنڈی)
۔۔۔
غزل
آنکھ جب محوِ تماشائے طلسمات ہوئی
گم پری خانۂ ہستی میں مری ذات ہوئی
شیشہ ٔ قلب میں عریاں ہے ترا عکسِ جمال
پردۂ رنگ میں بھی تجھ سے ملاقات ہوئی
میں جہاں بھی گیا وہ دشمنِ جاں ساتھ رہا
حشر میں پھر اسی قاتل سے ملاقات ہوئی
چاند تارے بھی تو اترے تھے اسی آنگن میں
جانے کیوں میرے مقدر میں سیہ رات ہوئی
ہو گا اب نالۂ بلبل سے گلستاں آباد
نغمہ و شعر و غزل رسمِ خرافات ہوئی
ابر آلود رہا مطلعِ اشعار مرا
مقطع کہنے بھی نہ پایہ تھا کہ برسات ہوئی
( ظہور احمد۔ اسلام آباد)
۔۔۔
غزل
جسے قرار میسر ہے مجھ سے دوری میں
کسر تو چھوڑی نہیں اس کی جی حضوری میں
اسے ستاتا ہوں اک نام لے کے دانستہ
کہ بول بیٹھا ہوں میں وضعِ لا شعوری میں
وہ دور جا کے بھی محسوس کرتا رہتا ہے
میں کروٹیں جو بدلتا ہوں نا صبوری میں
تذبذب اور تفکر ہیں حال پر حاوی
رکھا گیا ہے ہمیں حالتِ عبوری میں
جواب دوں گا ہر اک وار کا عدو کو مگر
میں صلح کار بھی ڈھونڈوں گا اس فتوری میں
جہان بھر کی غذائوں میں وہ کہاں جاذبؔ
جو ذائقہ ہے مری پیاری ماں کی چوری میں
(اکرم جاذب۔ منڈی بہائُ الدین)
۔۔۔
غزل
ہے کسی ماں کی طرح نخلِ ثمر دار کا دکھ
خوشہ چیں کیسے سمجھ سکتے ہیں اشجار کا دکھ
کون چاہت سے تجھے دے گا ترے فن پر داد
کس نے محسوس کیا ہے کسی فن کار کادکھ
میں نے پھر بصرہ و بغداد کو جلتے دیکھا
میں نہ بھولا تھا ابھی کابل و قندھار کا دکھ
کبھی سیلاب، کبھی موسمِ بے آب کا ڈر
ہم زمیں دار سمجھتے ہیں زمیں دار کادکھ
تم کو فرصت ملے دنیا کے مشاغل سے اگر
کبھی سوچو کسی مفلس، کسی نادار کا دُکھ
کتنی منہگی تھی وہ اک کانچ کی گڑیا عاصمؔ
مجھ سے دیکھا نہ گیا طفلِ خریدار کا دکھ
(امین عاصم۔کوٹلہ ارب علی خان)
۔۔۔
غزل
میں کررہا ہوں غزل کا بڑا مفید سفر
روایتوں سے جدا منفرد جدید سفر
میں منزلوں کی بہت پیچھے چھوڑ آیا ہوں
کہ میرے پاؤں کو درکار ہے مزید سفر
نہ فکر راہزنوں کی نہ منزلوں کی مجھے
مرے جنوں کی ضرورت ہے بس شدید سفر
اسے نہ لطف سفر ہے نہ لطف منزل ہے
جو کررہا ہے ابد سے ازل وحید سفر
میں منزلوں کو لئے جیب میں ہی پھرتا ہوں
ہے تجھ میں دم تو چل آجا کوئی خرید سفر
کسی غلام سے ہوتے نہیں ہیں کم شاداب
کہ ساتھ پیر کے کرتے ہیں جو مرید سفر
(محمد کلیم شاداب، آکوٹ ،ضلع آکولہ،انڈیا)
۔۔۔
غزل
حق بیاں ہوتا تھا مسلم تیری للکاروں میں
ذکر زندہ ہے ترا آج بھی اغیاروں میں
خود سے لڑتا ہوں تو پھر خود میں سمٹ جاتا ہوں
بات پہنچے نہ کہیں میرے طرف داروں میں
میں خزاؤں کا طرف دار نہیں ہو سکتا
کوئی رہتا نہ رہے دل کے پرستاروں میں
ہم چراغوں میں بھی کرتے ہیں سیاست اکثر
بانٹ دیتے ہیں ضیاء اپنے طلب گاروں میں
کون لکھتا ہے مری ذات پہ کالم ناطقؔ
رقص ہوتا ہے ترے نام کا اخباروں میں
(عمار ناطق۔ کبیروالا)
۔۔۔
ْْغزل
پہلے نہ کم تھے مسئلے قحط الرّجال کے
تم چل دیے ہو عشق بھی جھولی میں ڈال کے
جس کی نظر غیاب سے واقف رہی ہو، وہ
دیکھے کرشمہ ہائے فسوں خدّ و خال کے
تھوڑا سا دھیان بھٹکا نہیں سر کے بل گرے
اے رہروانِ شوق ذرا دیکھ بھال کے
وہ اپنی پردہ داریوں میں، میں نمود میں
خالی ہیں ہاتھ آج بھی پہلے سوال کے
میں قبلہ رخ پہ باندھ کے نیّت کھڑا رہا
کھلتے رہے اشارے جنوب و شمال کے
بود و نبود کی مجھے سرحد پہ چھوڑ کر
وہ چل دیا وجود کو الجھن میں ڈال کے
بس اپنے دل کی بات چھپانے کی آڑ میں
بیٹھا رہا وہ شہر کے قصّے نکال کے
جب سے ترا وجود مری دسترس میں ہے
میں دیکھتا ہوں ہجر کو آنکھیں نکال کے
(گل جہان۔ جوہر آباد)
۔۔۔
غزل
گردشِ ایام کے ہاتھوں کئی لختِ جگر
کچی عمروں میں وطن سے بے وطن ہونے لگے
پہلے پہلے تو فقط جینا ہی مشکل تھا میاں
اب تو خیر اِس شہر میں مہنگے کفن ہونے لگے
آپ اب دینے لگے ہو پارسائی کا سبق؟
جب ہماری دسترس میں کچھ بدن ہونے لگے؟
کیا سُناؤں میں تمہیں اپنے مسیحا کی خبر
چومتا ہے زخم کو تاکہ جلن ہونے لگے
سچ کہوں تو شعر کی برکت سے ہی ممکن ہوا
کل تلک دشمن تھے جو وہ اب سجن ہونے لگے
رقص کرنے کا مزہ تو اس گھڑی آتا ہے جب
یار کی اک دید پر پاؤں میں چھن ہونے لگے
میرے سر پر بوجھ تھا اس شہر کا پر شکر ہے
اب مرے احباب بھی اہلِ سخن ہونے لگے
(عرفان منظور بھٹہ۔ کبیروالا)
۔۔۔
غزل
چاند چہرہ اس کو لکھنا اب ستائش ہے، تو ہے
پھول اس نازک بدن کی گر آرائش ہے، تو ہے
حسرتِ ناکام ہی اب حسرتِ پیہم بنی
اس کو پانے کی مرے دل کی گذارش ہے، تو ہے
یہ زمین و آسماں سنگ سنگ چلیں بچھڑے رہیں
دوریوں میں بھی ملن کی ان میں خواہش ہے، تو ہے
لکھ رہا ہوں زندگی کے سارے نشتر ایک ساتھ
یہ اگر زخموں کی اپنے اک نمائش ہے، تو ہے
مان یا نہ مان اب یہ گھر تمھارا ہو گیا
اے حسیں اس دل میں تیری اب رہائش ہے، تو ہے
ہر گھڑی وہ سامنے بیٹھا رہے، دیدار ہو
میری آنکھوں کی اگر چھوٹی سی خواہش ہے، تو ہے
ہے رقیب رو سیاہ جو سنگ میرے یار کے
یہ دلِ معصوم کی گر آزمائش ہے، تو ہے
(عامرمعانؔ۔ کوئٹہ)
۔۔۔
غزل
ہم نے لوگوں سے کنارہ کر لیا
اپنے دل کو ہی سہارا کر لیا
وہ نہ آیا ہم سے ملنے کو کبھی
ہم نے یادوں سے گزارا کر لیا
روکنا اس کو مرے بس میں نہ تھا
اس نے کچھ ایسا بہانا کر لیا
گر محبت ہے خسارہ، دوستو
ہم نے جی بھر کے خسارہ کر لیا
جھک گئیں محفل میں نظریں بے شمار
اس نے کچھ ایسا اشارہ کر لیا
عشق سے دل بھر گیا تھا جب عقیلؔ
کیا وجہ تھی پھر دوبارہ کر لیا
(عقیل نواز۔اسکردو)
۔۔۔
غزل
بدلو گے موسموں کو رتوں کو ہواؤں کو
یہ سب بدل سکے گا، بدلو گے صرف تم
انساں نئے، زمانہ بھی ہو گا نیا کہ جب
ہمت سے کام لینا چاہو گے صرف تم
تہذیب نئی نوک کی خنجر پہ ڈال کر
اس کا نتیجہ اچھا ہی پاؤ گے صرف تم
اک مے کدہ بنا کے رہنا ہے مست حال
جس میں وفا کے گیت بھی گاؤ گے صرف تم
ہر بار منزلیں نئی گر چاہئیں تمھیں
ثابت قدم رہے تو، پاؤ گے صرف تم
سب کو بدر ہنسانا ہے مشکل مگر یہاں
اپنی خوشی بھلا کے کر لو گے صرف تم
(بدر النسائ۔ کراچی)
سنڈے میگزین کے شاعری کے صفحے پر اشاعت کے لیے آپ اپنا کلام، اپنے شہر کے نام اورتصویر کے ساتھ ہمیں درج ذیل پتے پر ارسال کرسکتے ہیں۔ موزوں اور معیاری تخلیقات اس صفحے کی زینت بنیں گی۔
انچارج صفحہ ''کوچہ سخن ''
روزنامہ ایکسپریس، 5 ایکسپریس وے، کورنگی روڈ ، کراچی