ظالمانہ نظام حکومت اور مظلوم عوام
وہ اقدامات جو پاکستان کی 76سالہ تاریخ میں کبھی نہیں لیے گئے یعنی حکومتی طبقات اور اشرافیہ کا ٹیکس ادا نہ کرنا
www.facebook.com/shah Naqvi
عالمی بینک نے پاکستان کی معاشی حالت پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے زور دیا ہے کہ وہ اپنی مقدس گائیوں، زراعت اور رئیل اسٹیٹ پر ٹیکس لگانے کے لیے فوری اقدامات کرے اور معاشی استحکام کے لیے جی ڈی پی کے 7فیصد کے برابر مالیاتی ایڈجسٹمنٹ کرتے ہوئے اپنے بے جا اخراجات کم کرے۔
عالمی بینک نے یہ بھی انکشاف کیا کہ پاکستان میں گزشتہ مالی سال میں غربت بڑھ کر تشویش ناک حد تک پہنچ گئی ہے جس سے مزید سوا کروڑ افراد غربت کے جال میں پھنس گئے ہیں۔ اس وقت 12کروڑ 50لاکھ افراد غربت کی زندگی گزار رہے ہیں۔
عالمی بینک نے پاکستان کی اگلی حکومت کے لیے جو الیکشن کے بعد قائم ہوگی پاکستان کے تمام اسٹیک ہولڈرز کی مدد سے تیار کردہ پالیسی کے مسودے کا اجرا ء کیا ہے جس میں کم انسانی ترقی غیر پائیدار مالیاتی صورتحال اور خاص طور پر زراعت توانائی اور نجی شعبہ جات کو ضابطے میں لانا اور ان شعبوں میں اصلاحات آیندہ آنے والی حکومت کے لیے ترجیح قرار دیے گئے ہیں۔
جی ڈی پی کی تناسب سے ٹیکس میں فوری طور پر 5 فیصد اضافہ کرنے اور اخراجات کو 2.7فیصد تک کم کرنے کے اقدامات تجویز کیے گئے ہیں جس کا مقصد غیر پائیدار معشیت کو ایک محتاط مالیاتی راستے پر ڈالنا ہے۔ تاہم یہ اقدامات زیادہ تر ان شعبوں میں تجویز کیے گئے ہیں جن پر ماضی میں کبھی ٹیکس عائد نہیں کیے گئے۔
اس پالیسی مسودے کے اجرا ء کے موقعہ پر عالمی بینک کے ماہر اقتصادیات نے کہا ہے کہ بینک کو پاکستان کی موجودہ معاشی صورتحال پر گہری تشویش ہے۔ اس وقت پاکستان کو سنگین معاشی اور انسانی ترقی کے بحرانوں کا سامنا ہے۔ انھوں نے کہا کہ پاکستان اس وقت ایک ایسے موڑ پر ہے کہ جہاں اسے پالیسی تبدیلی کی اشد ضرورت ہے۔
یعنی وہ اقدامات جو پاکستان کی 76سالہ تاریخ میں کبھی نہیں لیے گئے یعنی حکومتی طبقات اور اشرافیہ کا ٹیکس ادا نہ کرنا۔ پاکستان معاشی سیاسی بقاء کے لیے ضروری ہے کہ یہ طبقات اپنا بھولا ہوا فرض ادا کریں۔
پاکستان کی طویل تاریخ میں یہ طبقات دونوں ہاتھوں سے مفادات اور مراعات حاصل کرتے رہے ہیں۔ جس کے لیے صحیح الفاظ عوامی خزانے کی لوٹ مار ہے۔ آپ اندازہ کریں یہ لوٹ مار سالانہ ساڑھے پانچ ہزار ارب سے زائد پر مشتمل ہے ہر پاکستانی کو ان اعداد و شمار کو ذہن نشین کر لینا چاہیے جو اس کے خون پسینے کی کمائی ہے۔
انگریزوں کی آمد سے قبل برصغیر کا جی ڈی پی دنیا کے کل جی ڈی پی کے مقابلے میں 25فیصد تھا۔ اتنی زیادہ دولت صرف ایک برصغیر میں ہی موجود تھی۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ مغل دور اور اس سے پہلے عوام خوش حال تھے۔ غیر منصفانہ اور ظالمانہ معاشی نظام کی وجہ سے یہ دولت صرف چند ہاتھوں میں ہی محدود تھی۔
جو بادشاہ اس کے خاندان رشتہ داروں اور درباریوں کے قبضے میں رہتی تھی اور عوام دو وقت کی روٹی سے بھی محروم۔ یہی چلن پوری دنیا کی بادشاہتوں میں تھا۔ رعایہ نے اسے اپنا مقدر سمجھ کر قبول کر لیا تھا۔
ورنہ دوسری صورت میں موت اور بادشاہ کے کارندے سب کچھ لوٹ لیتے تھے تاکہ کوئی اور ایسی جرات نہ کر سکے ۔ پاکستان میں طویل آمریت اور نام نہاد جمہوریت کے ذریعے اشرافیہ نے یہ ظلم کا نظام بدلنے نہیں دیا کیونکہ عوام نہیں بلکہ رعایا کے پیسوں پر عیش کرنا ان کے خون میں شامل ہو گیا ہے۔ یہ عادت ان کی صدیوں پرانی ہے۔
اس لیے لگتا نہیں کہ عالمی بینک اور آئی ایم ایف کے بھاشن ان پر اثر کر سکیں۔ عوام اگر احتجاج کریں تو ان پر مہنگائی کے کوڑے برسائے جاتے ہیں تاکہ وہ اس نظام سے بغاوت کا سوچ بھی نہ سکیں۔ عوام مرتے ہیں تو مریں ان کی بلا سے۔ رعایہ اور عوام میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ عوام کے حقوق ہوتے ہیں جیسے مغرب میں ہیں اور رعایا کے کوئی حقوق نہیں ہوتے۔ بظاہر آزاد ہوتے ہیں لیکن حقیقت میں وہ غلام ہی ہوتے ہیں۔
ہم آج بھی 21ویں صدی میں حکمران طبقات کی رعیت ہیں۔ نہ معاشی نہ سیاسی نہ انسانی حقوق ۔ایک حکمت عملی کے تحت رعایا کو مسلسل خوف اور عدم تحفظ میں مبتلا رکھا جاتا ہے۔
نہ گھر میں نہ گھر سے باہر محفوظ ۔ مرد خاص طور پر عورتیں اور بچے اس ظالمانہ نظام کا خاص نشانہ ہیں۔ موجودہ کراچی ، سندھ اور بقیہ پاکستان اس کی بڑی مثال ہے۔ مشرقی وسطی سے ایران ، افغانستان، پاکستان میں ہزاروں سال سے سوائے بادشاہت ، ملوکیت اور آمریت کے علاوہ کچھ نہیں۔