نگراں وزیرِ اعظم کا تاریخی خطاب
ان کا یہ پہلا خطاب تھا لیکن اُن کا لب و لہجہ بہت دبنگ تھا جس کے لیے وہ دادوتحسین کے مستحق ہیں
نگراں وزیرِ اعظم انوارالحق کاکڑ نے اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی سے متاثرکن خطاب کیا، اگرچہ ان کا یہ پہلا خطاب تھا لیکن اُن کا لب و لہجہ بہت دبنگ تھا جس کے لیے وہ دادوتحسین کے مستحق ہیں۔
انھوں نے نہایت جرات مندی کے ساتھ بھارت کی طرف سے مقبوضہ کشمیر میں ڈھائے جانے والے ظلم و ستم کی جانب عالمی فورم کی توجہ مبذول کرائی۔
انھوں نے کہا کہ بھارت نے اپنے جبر واستبداد کی انتہا کر دی ہے اور مظلوم کشمیریوں کی آواز کو دبانے کے لیے درندگی اختیارکی ہوئی ہے۔
انھوں نے کہا کہ گزشتہ چار سال کے عرصہ میں بھارت سرکار نے جس کی وزارتِ اعظمیٰ کی باگ ڈورگجرات کے مسلمانوں کے لہو سے رنگے ہوئے نریندر مودی کے ہاتھوں میں ہے۔ مقبوضہ وادی کے صحافیوں، انسانی حقوق کے علم برداروں کا گلا گھونٹنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی ہے اور تحریکِ آزادی کو کچلنے کے لیے نو لاکھ فوجی تعینات کیے ہوئے ہیں۔
نگراں وزیرِ اعظم نے اقوامِ متحدہ کو اُن تفصیلات سے بھی آگاہ کیا کہ کس طرح معصوم کشمیریوں کو ماورائے عدالت اور جعلی مقابلوں کے بہانے انتہائی سفاکی کے ساتھ قتل کیا جا رہا ہے۔
انھوں نے یہ بھی بتایا کہ کشمیریوں کو ایک سوچے سمجھے منصوبہ کے تحت مقبوضہ وادی سے بے دخل کر کے اُن کی رہائش گاہوں کو نہایت بے دردی کے ساتھ مسمار کر کے اُن کی جگہ پر باہری ہندوؤں کو لا لا کر بسایا جا رہا ہے تاکہ مسلمانوں اور ہندوؤں کے تناسب کو تبدیل کیا جاسکے۔
نگراں وزیرِ اعظم نے یہ بھی بتایا کہ مقبوضہ کشمیرکے علاوہ بھارت میں آباد مسلمانوں کے ساتھ کتنا شدید تشدد برتا جارہا ہے اور ان کی نسل کُشی کے لیے کیا کیا حربے استعمال کیے جا رہے ہیں اور اُن کا سیاسی اور معاشی قتل ِ عام کیا جارہا ہے۔
نگراں وزیرِ اعظم نے جنرل اسمبلی کو اس حقیقت سے بھی آگاہ کیا کہ بھارت میں بسنے والے مسلمانوں کی عبادت گاہوں کی کس طرح بے حرمتی کی جا رہی ہے۔انھوں نے اقوامِ عالم سے یہ استدعا بھی کی کہ پاکستان اور بھارت کے مابین قیامِ امن کے لیے وہ اپنا کردار ادا کریں تاکہ مسئلہ کشمیر کو اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی منظور شدہ قراردادوں کے مطابق حل کیا جاسکے۔
پاکستان کی اِس پیشکش کے حوالے سے جس کا مقصد دونوں ممالک کی جانب سے اسٹرٹیجک اور روایتی ہتھیاروں کے استعمال کے معاملہ میں ضبط و تحمل کا مظاہرہ کیا جائے، نگراں وزیرِ اعظم نے کہا امنِ عالم کا تقاضہ بھی یہی ہے۔
انھوں نے یہ بھی کہا کہ غیر منقسم ہندوستان کے ہندوؤں کی خواہش اورکوشش یہی تھی کہ بٹوارا نہ ہو تاکہ مسلمان ہندو اکثریت کے تابع رہے۔ ہندوؤں کی سوچ یہی تھی کہ فرنگی حکمرانوں کے خاتمہ کے بعد مسلمان اقلیت کو غلام بنا کر رکھا جائے اور اُن کو اپنے عقائد کے مطابق زندگی گزارنے سے روکا ٹوکا جائے۔مسلمانوں کا یہ اندیشہ درست نکلا کہ انھیں کس طرح کی غنڈہ گردی کا سامنا کرنا پڑے گا جو بھارت کے مسلمانوں کے موجودہ حالات سے صاف ظاہر ہے۔
نہ تڑپنے کی اجازت ہے نہ فریاد کی ہے
گھُٹ کے مر جاؤں یہ مرضی مرے صیاد کی ہے
1947 کے فرقہ وارانہ فسادات سے جس کے دوران تقریباً دس لاکھ انسان آگ و خون میں نہا گئے تھے کوئی سبق سیکھنے کے بجائے بھارت نے اپنے آپ کو اقلیتوں کے بالخصوص مسلمانوں کے لیے ایک غیر محفوظ ریاست بنادیا ہے۔ نگراں وزیرِ اعظم انوار الحق کاکڑ کے یہ الفاظ کوئی الزام تراشی نہیں ہیں بلکہ انسانی حقوق کے نگراں ادارے کی 2023 کی رپورٹ کی مصدقہ حقیقت ہیں۔
مقبوضہ جموں اور کشمیر کے مسلمانوں کی بے رحمانہ نسل کُشی کے مسلسل واقعات اِس حقیقت پر مہرِ تصدیق ثبت کرتے ہیں۔
انسانی حقوق کمیشن 2023کی رپورٹ کے مطابق جموں وکشمیر میں آئین کی سراسر خلاف ورزیاں کرتے ہوئے بھارتی فوجیوں اور قاتل پولیس والوں نے 147اور 1882 زیرِ حراست آزادی کے متوالوں کو سال کے ابتدائی 9مہینوں میں شہید کردیا۔
نگراں وزیرِ اعظم نے اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی سے اپنے اہم خطاب میں یہ بھی بتایا کہ مقبوضہ جموں کشمیر میں مسلح افواج کا بدنامِ زمانہ قانون ابھی تک نافذ العمل ہے۔
دوسری جانب بھارت کے صوبوں مدھیہ پردیش،گجرات اور دارالخلافہ دلی میں مسلمانوں کی املاک کو مسمار کر دیا گیا جس کی کوئی شنوائی نہیں ہوئی۔ بہانہ یہ بنایا گیا کہ یہ املاک غیر قانونی طور پر قائم کی گئی تھیں۔ بھارت سرکار کی یہ کارروائی مسلمانوں کے خلاف اجتماعی سزا کے مترادف تھی۔بھارت میں اسلاموفوبیا کا زہر حکمرانوں کی طرف سے بلا روک ٹوک کرایا جارہا ہے۔
جون 2022 میں توہینِ رسالت کا واقعہ پیش آیا، جس کے سلسلہ میں بھارتی حکومت کی جانب سے کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ بھارتی مسلمانوں کے خلاف فرقہ وارانہ فسادات میں ملوث ہونے کے الزامات لگا کر انھیں زیرِ عتاب لایا جا رہا ہے۔
کشمیریوں پر تھوپے گئے سیاسی اقدامات میں آزادی کے متوالے کشمیریوں اور نئی دہلی کی حکومت کے خلاف موجود خلیج کو اور بھی چوڑا اورگہرا کردیا ہے۔
کشمیری ہونا انڈین ہونے سے مختلف ہے۔ بھارت کئی عشروں سے اِس سادہ سے فارمولے سے جان چھڑا رہا ہے جو کہ درحقیقت کشمیر اور خطہ میں قیامِ امن کا اصل حل ہے۔