نواز شریف کی واپسی اور سیاسی منظرنامہ
الیکشن وہ اینٹی اسٹیبلیشمنٹ کی بنیاد پر لڑنا چاہتے ہیں
نواز شریف ایک ہی وقت میں مزاحمت اور مفاہمت کے درمیان الجھ کر رہ گئے ہیں۔ الیکشن وہ اینٹی اسٹیبلیشمنٹ کی بنیاد پر لڑنا چاہتے ہیں لیکن اپنی جماعت اور اپنے بھائی کے دباؤ یا دلیل پر وہ مزاحمت سے مفاہمت پر مجبور ہوجاتے ہیں۔
نوازشریف کے حامیوں میں سے بہت سے لوگ انھیں انقلابی ، جمہوری پسند، اینٹی اسٹیبلیشمنٹ اور مزاحمتی سیاست کے سمبل کے طور پر پیش کرتے ہیں مگر عملی سیاست میں نواز شریف مزاحمتی سیاست کو محض ایک بڑے سیاسی نعرے کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔یہ ہی وجہ ہے کہ ان کی مزاحمتی سیاست میں مفاہمتی سیاست کا کارڈ شہباز شریف ہے۔
اس لیے جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ دونوں بھائیوں کا ایجنڈا مختلف ہے، ان کے لیے اس کھیل کو سیاسی حکمت عملی کے طور پر دیکھنا چاہیے۔مزاحمتی اور مفاہمتی سیاست شریف فیملی کی سیاسی بقا کے کارڈز ہیں اور دونوں کارڈ اپنی اپنی سیاسی ضرورت کے طور پر استعمال کیے جاتے ہیں۔مسئلہ نواز شریف کا ہی نہیں بلکہ دیگر سیاست دان بھی ایسا ہی کرتے ہیں، چاہے کو ئی کتنا بھی مقبول کیوں نہ ہو، اس کی سیاست کا ہدف اسٹیبلیشمنٹ کے ساتھ معاملات کو طے کرکے اپنے حق اقتدار کو یقینی بنانا ہوتا ہے ۔
میاںنواز شریف کی پاکستان آمد ایک بڑا سیاسی کارڈ ہے ۔ مسلم لیگ ن نواز شریف کی آمد کو اپنی سیاسی بقا اور انتخابی سیاست میں اپنی بڑی ضرورت کے طور پر پیش کررہی ہے ۔
ان کے بقول اگر نواز شریف کی واپسی ممکن نہیں ہوتی تو مسلم لیگ ن کے مردہ گھوڑے میں نئی جان کسی بھی صورت میں نئی ڈالی جاسکتی ۔ یہ ہی وجہ ہے کہ نواز شریف کی واپسی پر مسلم لیگ ن میں موجودہ سیاسی گرم جوشی کی سمجھ آتی ہے ۔
لیکن نواز شریف کی واپسی کسی سیاسی تنہائی میں تو ممکن نہیں تھی اور یقینی طور پر ان کو ایک دفعہ پھر پاکستان کی طاقتور قوتوں سے ہی معاملات کو طے کرنا تھا اور ان کو ہی بنیاد بنا کر ان کی پاکستان واپسی ممکن ہوگی ۔یہ ہی وجہ ہے کہ نواز شریف نے کچھ دن قبل جو مزاحمتی بیانات دیے اور اس میں اہم لوگوں کے احتساب کا جو بیانیہ پیش کیا،اس سے عوام کو ایسا لگا کہ ان کی اسٹیبلیشمنٹ سے مفاہمت کی راہ میں مسائل موجود ہیں ۔
پاکستان میں موجود مسلم لیگ ن کے لیے نواز شریف کے حالیہ بیانات کافی پریشان کن تھے ۔ اسی بنیاد پر شہباز شریف کی لندن روانگی اور لندن میں مسلم لیگ ن کے بڑوں کی کئی گھنٹوں پر محیط بیٹھک کے بعد نواز شریف کا نیا سیاسی بیانیہ سامنے آگیا ہے جس میں ان کے بقول ''ہمیں تخریب نہیں تعمیر کی طرف جانا ہے ۔
ہم ٹکراؤ کی پالیسی کے حامی نہیں اور ملک کی تعمیر نو میں کردار ادا کرنا چاہتے ہیں ۔ہمارا بیانیہ انتقام نہیں امن ، ترقی اور خوشحالی ہوگا۔'' اسحاق ڈار کے بقول سابق جنرل قمر جاوید باجوہ یا جنرل فیض سمیت دیگر کے کڑے احتساب کا معاملہ اب ہمارا مسئلہ نہیں بلکہ یہ معاملہ ہم نے اﷲ کی عدالت میں پیش کردیا ہے۔بقول سیاسی پنڈتوں کے نواز شریف کو منانے میں کلیدی کردار شہباز شریف اور اسحاق ڈار کا ہے۔
اس موقف کو تسلیم کرلیا جائے تو مطلب یہ ہوا کہ نواز شریف کی مزاحمتی سیاست کا خول اتاردیا گیا ہے۔ شہباز شریف کی فوری لندن روانگی اور ان کی سرگرمیوں کو بھی اسی بڑے کھیل کے تناظر میں دیکھا جائے تو بہت سی باتوں کو مختلف زاویوں سے سمجھا اور پرکھا جاسکتا ہے ۔
اب نواز شریف کی واپسی ایک تعمیر پاکستان کے بیانیہ کے ساتھ جڑی ہوگی اور یہ تعمیر پاکستان وہ پچھلی تین دہائیوں سے کررہے ہیں اور اسی کو بنیاد بنا کر وہ عملی سیاست پاکستان میں اور پاکستان سے باہر بیٹھ کر کرتے ہیں ۔ مسلم لیگ ن کے تھنک ٹینک نواز شریف کو اب مفاہمت اور ترقی کے بیانئے کے طور پر پیش کریں جو اسٹیبلیشمنٹ کے لیے مسائل پیدا نہیں کرے گا ۔
اس نئی حکمت عملی کے تحت نواز شریف کو وہ سب کچھ مل سکے گا جس کی وہ خواہش رکھتے ہیں یا ان کے مقابلے میں نواز شریف کے چہرے کو سامنے رکھ کر شہباز شریف اس کھیل میں عملی طور پر مرکزی کردار میں سامنے آتے ہیں۔
نواز شریف انتخاب لڑسکیں گے ، انتخابی مہم میں حصہ لے سکیں گے ، وزارت عظمیٰ تک پہنچ سکیں گے یا وہ اپنی بیٹی مریم نواز کو پنجاب کی وزارت اعلیٰ پر بٹھا سکیں گے ، سب پر فی الحال مختلف نوعیت کے سوالیہ نشان ہیں ۔ مسلم لیگ ن کا ایک مجموعی تاثر اس وقت شہباز شریف کی مفاہمتی سیاست پر ہے۔ اینٹی اسٹیبلیشمنٹ بیانیہ مسلم لیگ ن کے حق میںنہیں ۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا نئے بیانیہ کو بنیاد بنا کر نواز شریف پاکستان واپس آکر مسلم لیگ ن کی سیاست میں نئی جان ڈال سکیں گے ؟ کیا وہ اپنے بڑے سیاسی مخالف چیئرمین پی ٹی آئی کی مقبولیت کے سامنے عام انتخابات میں اپنی جماعت کو ایک بڑی کامیابی سے ہمکنار کرسکیں گے ؟نواز شریف کی فوری مہم سیاسی میدان میں پنجاب تک محدود ہے ۔ دیگر صوبوں میں ان کی کوئی خاص اکثریت نہیں اور وہ کوشش کریں گے کہ پنجاب میں اپنے اقتدار کو یقینی بناسکیں ۔
مجھ سمیت بہت سے لوگ سمجھتے ہیں کہ فی الحال پنجاب میں چیئرمین پی ٹی آئی کی مقبولیت نواز شریف سے کافی اوپر نظر آتی ہے۔سوال یہ بھی ہے کہ پس پردہ قوتوں میں پنجاب کی نئی سیاسی تقسیم کا کیا فارمولہ ہے کیونکہ اگر کوئی یہ سمجھ رہا ہے کہ ہم کسی منصفانہ اور شفاف انتخابات کی طرف بڑھیں تو اس میں حقایق سے زیادہ خوش فہمی کا پہلو زیادہ ہے ۔
نواز شریف کو دونوں صورتوں میں بھی مشکلات کا سامنا کرنا ہوگا جن میں چیئرمین پی ٹی آئی کی جیل سے رہائی اور انتخابی مہم میں بھرپور شمولیت یا چیئرمین پی ٹی آئی کی جیل میں موجودگی کی صورت شامل ہے ۔نواز شریف اگرچہ مستقل کے پاکستان کی بات کریں گے اور ممکن ہے کہ اپنی سابقہ سیاسی کارکردگی کو بھی پیش کریں گے یا چیئرمین پی ٹی آئی کی سیاست کو بھرپور طریقے سے الزامات کی بنیاد بنائیں گے۔
لیکن ان کو سب سے بڑی مشکل شہباز شریف کی 16ماہ کی حکومت کا دفاع کرنے میں آئے گی ۔وہ کب تک پرانا چورن بیچیں گے اور کب تک لوگوں کا سیاسی نعروں سے دل بہلائیں گے اور کیونکر لوگ ان سے سوال نہیں کریں گے اور کیوں ان کے اقتدار کے ادوار عوام کے سامنے موجود ہیں۔
یہ2023کا پاکستان ہے جہاں اس وقت کی عملی سیاست ان کی حمایت سے زیادہ مخالفت میں کھڑی نظر آتی ہے ۔ میرے جیسے کئی تجزیہ نگار نواز شریف کی واپسی کو اسٹیبلیشمنٹ کی حمایت ہی کے ساتھ جوڑ کر دیکھتے ہیں جب کہ ان کے مقابلے میں پی ٹی آئی کو اینٹی اسٹیبلیشمنٹ کے طور پر سمجھا جائے گا ۔
اگر چیئرمین پی ٹی آئی جیل میں رہتے ہیں تو لامحالہ وہ پی ٹی آئی کی الیکشن مہم میں حصہ نہیں لے سکیں گے اور ممکن ہے کہ اپنی نااہلی کے کیس کی بنیاد پر خود بھی الیکشن میں حصہ نہ لے سکیں لیکن اس کے باوجود نواز شریف اور ان کی پارٹی کے لیے کے لیے الیکشن آسان ثابت نہیں ہوںگے ۔میرا خیال ہے کہ نواز شریف کی واپسی چیئرمین پی ٹی آئی کی واپسی کے راستے کو بھی ہموار کرے گی۔
اسٹیبلیشمنٹ کا مسئلہ یہ ہے کہ اگر وہ نواز شریف یا شہباز شریف پر ہاتھ رکھتی ہے تو دوسری سیاسی جماعتوں بشمول پی ٹی آئی کا ردعمل بھی سامنے آئے گا۔یہ دور کی کوڑی ڈھونڈی گئی ہے کہ اگر کوئی مفاہمت کا عمل چیئرمین پی ٹی آئی کے ساتھ ہوجاتا ہے تو ایسی صورت میں نواز شریف کو کیسے روکا جاسکے گا، خود بڑا سوالیہ نشان ہے ۔
ایک بات نواز شریف کو یا ان کے حامیوں کو تسلیم کرنا ہوگی کہ ان کے لیے جو سیاسی خلا پیدا ہوا ہے وہ خود ان ہی کا پیدا کردہ ہے ۔ نواز شریف کی ملک سے عدم موجودگی اور چیئرمین پی ٹی آئی کی ملک میں موجودگی بھی پاپولریٹی کا ایک فیکٹرہے ۔
اس لیے اہم بات یہ ہے کہ ان حالات میں نواز شریف کی واپسی کے بعد سیاست کا کھیل کچھ اور ہوگا ، اگر ان کی جماعت کو جو سب سے زیادہ انحصار پنجاب کی سیاست پر کررہی ہے، عام انتخابات میں مطلوبہ انتخابی نتائج نہیں مل سکے تو ان کی مقبولیت کا بھرم بھی ٹوٹ جائے گا ۔یہ ہی وجہ ہے کہ ان کی واپسی، ان کی کامیابی اور ناکامی دونوں پہلوؤں کے درمیان کھڑی نظر آتی ہے ۔