برکس ملٹی پولر دنیا
برکس تنظیم کا مقصد مغربی ممالک کے اقتصادی اثر و رسوخ کا مقابلہ کرنا اور عالمی اقتصادی نظام میں توازن قائم کرنا ہے
برکس (BRICS)کا 15واں سربراہی اجلاس' اگست 2023 میں جنوبی افریقہ کے شہر جوہنسبرگ میں منعقد ہوا'اس کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ اس کے ممبر ممالک کی تعداد بڑی تیزی سے بڑھ رہی ہے 'جن کا تعلق 'براعظم ایشیاء 'افریقہ اور لاطینی امریکا 'تینوں بر اعظموں سے ہے۔
اپنے قیام کے وقت اس کی ممبرز کی تعداد چار تھی جو اب بڑھ کر'40سے زیادہ ممالک نے اس میں شمولیت کی درخواست دی ہے 'اس اجلاس نے صرف چھ ممالک کی ممبر شپ کی منظوری دی ہے یعنی اب اس تنظیم کی تعداد پانچ کے بجائے گیارہ ہوگئی ہے 'کانفرنس کا ایجنڈا' امریکا اور سامراجی اثر سے آزاد 'ایک نئی دنیا کا قیام تھا۔
اس کانفرنس میں روس نے عالمی اقتصادی نظام کے اس اصول پر بھی اعتراض کیا۔ برکس (BRICS)تنظیم کا' ساتواں سالانہ اجلاس' 16اکتوبر2016کو ہندوستان کے شہر گوا میں ہوا'اجلاس میں چین کے صدر شی جن پنگ'روسی صدر ولادی میر پیوٹن' برازیل کے صدر مائیکل ٹیمر'جنوبی افریقہ کے صدر جیکب زوما اور بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے شرکت کی' حالیہ اجلاس میں برازیل کے انقلابی صدر لولا ڈی سلوا نے بھی شرکت کی۔
برکس تنظیم کا مقصد مغربی ممالک کے اقتصادی اثر و رسوخ کا مقابلہ کرنا اور عالمی اقتصادی نظام میں توازن قائم کرنا ہے۔
اس تنظیم کے پس منظر پر ایک نظر' سوویٹ یونین کے انہدام کے بعد سامراجی دنیا میں خوشیوں کے شادیانے بجائے گئے 'فوکو یاما جیسے لوگوں کے ہاتھوں'تاریخ کا خاتمہ'' جیسے لایعنی نظریات پر مبنی' کتابیں لکھوائی گئیں'یہ بھی کہہ دیا گیا کہ اب دنیا یک قطبی (Uni Polar) ہوگئی' اور یہ کہ اب دنیا میں امریکا کا دیا ہوا ''نیو ورلڈ آرڈر'' ہی چلے گا۔
1990سے لے کر اب تک دنیا کا نظام اس بندوبست کے تحت چل رہا تھا' لیکن سرمایہ دارانہ دنیا کے اندر بھی ایک لاوا پک رہا تھا اور امریکی سامراجی بالادستی کے خلاف ابھرتی ہوئی سرمایہ دارانہ اقتصادی طاقتیں متحد ہو رہی تھیں 'اب یہ بغاوت کھل کر سامنے آگئی' اگر سیاسی طور پر شام ' یوکرین اور دوسری عالمی پالیسیوں کی بناء پر امریکی سامراجی کیمپ کو روس اور چین کی مخالفت کا سامنا ہے تو' اقتصادی محاذ پر BRICSنامی تنظیم اب سامراجی بالادستی کو چیلنج کر رہی ہے۔
جنگ عظیم دوم کے خاتمے کے قریب اتحاد ی ممالک کے معاشی ماہرین نے امریکی ریاست نیو ہمپشائر (New Hampshire) کے سیاحتی شہر etton Woods" "Br میں یکم سے 22جولائی 1944تک ایک کانفرنس منعقد کی جس میں 44ممالک کے مندوبین شریک ہوئے' اس میں امریکا کی سربراہی میں سامراجی ممالک نے دنیا کے لیے ''نئے نوآبادیاتی نظام'' پر مبنی ایک نیا استحصالی معاشی نظام بنایا۔
''بریٹن ووڈز کانفرنس '' میں عالمی معیشت کو کنٹرول کرنے کے لیے تین اہم معاشی ادارے قائم کیے گئے 'یہ تینوںادارے عالمی بینک' IMF اور WTO آج عالمی معیشت کو کنٹرول کر رہے ہیں'غریب ممالک کی معاشی لوٹ مار کے لیے یہ ادارے سامراجی ممالک کے دست و بازو بنے ہوئے ہیں' تیسری دنیا کے ممالک' ان سامراجی سود خوراداروں کے پنجوں میں سسک رہے ہیں'عالمی سطح پرمنعقد کانفرنسوں میں غریب ممالک کی طرف سے ان اداروں کے خاتمے کا مطالبہ تسلسل کے ساتھ کیا جاتا رہا ہے۔
اب غریب ممالک کی آواز میں ان ممالک کی آواز بھی شامل ہو گئی ہے' جن کے ہاں نظام تو سرمایہ دارانہ نافذ ہے لیکن سامراجی ایجنڈے کے بجائے اپنی قومی پالیسیوں پر چل رہے ہیں'اس لیے سرمایہ دار اور سامراجی ممالک ان کے ساتھ '' سوتیلے بھائیوں'' کی طرح کا سلوک کرتے ہیں' عالمی اقتصادی ادارے 1944 میں اپنے قیام کے بعد سے مستقل طور پر امریکی اور سامراجی طاقتوں کے اختیار میں ہیں۔ باقی آیندہ کی نشست میں بات ہو گی۔