شہباز شریف کا بیانیہ ہی نواز شریف کا بیانیہ
نواز شریف کی اپنی زبان سے مگر ابھی تک وطن واپسی کے الفاظ جاری نہیں ہو سکے ہیں
میاں محمد نواز شریف کی اپنی خوشی اور مرضی سے برطانیہ میں چار سالہ ''جلاوطنی'' کے بعد وطن واپسی کے لیے ہر سُو غلغلہ مچا ہے۔نون لیگی صدر، شہباز شریف، کے اعلان کے مطابق 21اکتوبر 2023بروز ہفتہ نواز شریف لاہور میں اُتریں گے۔
نواز شریف کی اپنی زبان سے مگر ابھی تک وطن واپسی کے الفاظ جاری نہیں ہو سکے ہیں۔ البتہ لندن میں پاکستانی اخبار نویسوں سے بات چیت کرتے ہُوئے اُنہوں نے اُن چار سابقہ اہم ترین شخصیات کے کڑے احتساب کا ذکر ضرور کیا تھا جنہوں نے ''سازش'' کرکے اُن کو وزارت عظمیٰ کے منصب سے (تیسری بار) ہٹایا اور نا اہل کرایا تھا۔
اِس احتسابی اعلان سے خاصی ہلچل پیدا ہُوئی۔ایسے میں مبینہ طور پر شہباز شریف ایک بار پھر متحرک ہُوئے ۔ اُنہوں نے مبینہ طور پر کوششیں کیں کہ اپنے بڑے بھائی صاحب کو قائل کر سکیں کہ وہ اپنے ''کڑے احتسابی'' موقف سے دستکش ہو جائیں کہ اِس موقف میں کئی اوکھی منازل بھی آتی ہیں۔
شہباز شریف کی مبینہ کوششیں رنگ لے آئی ہیں۔ نواز شریف اپنے مذکورہ موقف یا ارادے سے باز آ گئے ہیں۔اور اِس معاملے کو ''اللہ پر چھوڑ دیا ہے۔'' اِس یوٹرن اختیار کیے جانے کا عکس ہمیں اسحاق ڈار اور میاں لطیف کے تازہ ترین بیانات میں بھی نظر آ رہا ہے کہ یہ دونوں شخصیات نون لیگ کے اندر میاں نواز شریف کے کیمپ کے ''بندے'' قرار دیے جاتے ہیں۔
اب ''اللہ پر چھوڑے جانے'' کا بیانیہ ساری نون لیگ کا مرکزی اور متفقہ بیانیہ بن چکا ہے ۔یہ بیانیہ در حقیقت شہباز شریف کے بیانیے اور موقف کی تائید اور فتح کہی جا سکتی ہے۔ سر جھکا کر ، مستقل طاقتوروں سے صلح کا اسلوب اختیار کرکے اور مزاحمت کا رویہ نہ اپنا کر اپنے سیاسی و نجی مفادات کا حصول اور تحفظ شہباز شریف کی سیاست کا مرکزی نکتہ ہے۔
اِسی نکتے اور سیاست کا یہی دامن پکڑ کر وہ وزارتِ عظمیٰ کے دیرینہ خواب کو پورا کرنے میں کامیاب رہے ۔ تو کیا یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ نواز شریف بھی، مجبوراً، بالآخر شہباز شریف کے رنگ میں رنگے گئے ہیں؟
ویسے تو میاں نواز شریف بھی غیر سیاسی قوتوں کے طفیل اور تعاون سے ہی اقتدار کی متعدد سیڑھیاں چڑھنے میں کامیاب ہُوئے تھے، مگر شہباز شریف کے بارے میں ہمیشہ سے یہ بات کہی جاتی رہی ہے کہ وہ غیر سیاسی طاقتوروں سے تعلقات بنانے اور نبھانے میں اپنے بڑے بھائی صاحب سے بھی دو قدم آگے ہیں ۔
اِس کا ایک بڑا مظاہرہ اُس وقت بھی دیکھنے میں آیا جب شہباز شریف کو وزیر اعظم بنے ابھی دو ماہ ہی ہُوئے تھے کہ اُنہوں نے باضابطہ طور پر غیر سیاسی قوتوں کے ایک اہم ادارے کو بڑے سرکاری عہدیداروں کی بھرتی، تقرر اور تعیناتیوں سمیت ترقیوں سے قبل اُن کی اسکریننگ کی جملہ ذمے داریاں سونپ دیں ۔
اِس فیصلے پر میڈیا میں سوال و جواب شروع ہوئے تو حکومت کی جانب سے اپنے بعض ترجمانوں کے توسط سے یہ وضاحت کر دی گئی تھی کہ '' یہ روایت تو پہلے بھی موجود تھی۔'' یہ بات مگر واضح ہے کہ وزیر اعظم شہباز شریف کی طاقتوروں سے قربتیں مزید بڑھ چکی ہیں۔
بطورِ وزیر اعظم شہباز شریف کی جانب سے نگران وزیر اعظم انوارالحق کاکڑ کے نام کی قبولیت اور منظوری کا ایک معنی یہ بھی اخذ کیا گیا کہ شہباز شریف اور اسٹیبلشمنٹ ایک دوسرے کو سپیس دے رہے ہیں۔ سابق وفاقی وزیر داخلہ اور نون لیگی رہنما، رانا ثناء اللہ، ایک نجی ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہُوئے بین السطور یہ اعتراف و اقرار کر چکے ہیں کہ '' اگر کہیں غیر سیاسی قوتوں کے مزید پھیلاؤ اور مداخلت کا احساس پایا جاتا ہے تو اِس میں ہمارا کوئی قصور نہیں ہے۔
اگر پی ٹی آئی کے چیئرمین اپنی عاقبت نااندیشی کا ثبوت دیتے ہُوئے 9مئی کے سانحات کو جنم نہ دیتے تو شاید آج حالات مختلف ہوتے۔'' گویا ہم کہہ سکتے ہیں کہ غیر سیاسیوں کی بالا دستی قبول کرتے ہُوئے ہمارے اہلِ سیاست نے سیاست و اقتدار میں اسے کامیابی کی شاہ کلید سمجھ لیا ہے ۔
شہباز شریف کو بطورِ وزیر اعظم، بہرحال، یہ امتیاز حاصل رہا کہ اُنہوں نے غیر سیاسی قوتوں سے اپنے تعلقات کو چھپانے اور اُن کی آشیرواد حاصل کرنے کے معاملات کو پسِ پردہ رکھنے کی کوشش نہیں کی۔شہباز شریف کی قیادت میں اتحادی حکومت نے مفاہمت کے بیانیے کے ساتھ اپنی آئینی مدت پوری کر لی۔ اُنہوں نے تو اُس ''صاحب''کی بھی تعریف کر ڈالی تھی جس ''صاحب'' سے اُن کے بڑے بھائی سخت شکوہ کناں ہیں ۔
پی ڈی ایم کے مذکورہ اقدامات کی بازگشت بیرونِ ملک میڈیا میں بھی سنائی دی گئی ۔ مثال کے طور پر:10اگست 2023 کو جرمنی کے مشہور خبر رساں ادارے ڈاؤچے ویلے(DW) نے اِسی معاملے پر تبصرہ کرتے ہُوئے یوں لکھا: ''وزیر اعظم شہباز شریف کی حکومت نے یکم جولائی 2023 سے لے کر حکومت کے خاتمے تک 96سے زائد بلز پارلیمنٹ میں متعارف کروائے ۔
ان میں سے کئی قانون کی شکل اختیار کر چکے ہیں ۔ ناقدین کا خیال ہے کہ اِن میں سے کئی بلوں کا مقصد پاکستان کی سیاست، معیشت اور معاشرت پر غیر سیاسی قوتوں کی گرفت مضبوط کرنا ہے ۔'' اِسی طرز کے خیالات کا اظہار جناب حسین حقانی نے ممتاز ترین امریکی جریدے (Foreign Policy) کے 9اگست2023 کے شمارے میں اپنے مفصل اور چشم کشا آرٹیکل میں کیا ہے ۔
پاکستانی عوام اور سیاستدانوں میں یہ تاثر خاصا مستحکم ہے کہ سابق وزیر اعظم جناب شہباز شریف نے اپنے 16ماہ کے اقتدار کے دوران قدم قدم پر مفاہمتی رویہ اپنایا۔ شہباز شریف نے بوقتِ رخصت وزیر اعظم ہاؤس میں اخبار نویسوں اور اینکروں سے ملاقات کے دوران گفتگو کرتے ہُوئے کہا تھا: '' میں گزشتہ 30برسوں سے اسٹیبلشمنٹ کی آنکھ کا تارا رہا ہُوں۔'' اِن الفاظ نے دراصل اُن کی وابستگیوں کی اصل کہانی پوری طرح بیان کر دی تھی ۔
نون لیگی ترجمان نے اپنے تئیں ان الفاظ کی وضاحت کرنے کی کوشش تو کی لیکن تیر زبان سے نکل چکا تھا۔ اب یہی بیانیہ (شاید) جناب نواز شریف کا بھی بن گیا ہے۔