Level Playing Field
پی ٹی آئی سمیت سب سیاسی جماعتوں کو انتخابات میں آزادانہ بنیادوں پرانتخابات میں حصہ لینے کی مکمل آزادی حاصل ہونی چاہیے
جمہوری نظام میں انتخابات کا بروقت ہونا اس نظام کی کامیابی کی بڑی کنجی ہے۔ کیونکہ انتخابات کا تسلسل ہی جمہوری نظام کی مضبوطی کا سبب بنتا ہے ۔ لیکن انتخابات کا بروقت ہونا اول شرط ہے ۔ دوئم شرط انتخابات کا منصفانہ ، شفاف ہونا اور انتخابی عمل کو متنازعہ بنانے سے روک کر ہی ہم شفاف جمہوری نظام کی طرف پیش رفت کرسکتے ہیں۔
جمہوری معاشروں میں لوگوں کا جمہوریت پر اعتماد ووٹ کی طاقت ہوتا ہے اور لوگوں کو یقین ہوتا ہے کہ وہ اپنے ووٹ کی طاقت سے اپنی مرضی اور منشا کے مطابق سیاسی قیادت کا انتخاب کرسکتے ہیں۔ یہ ہی سوچ جمہوری نظام کی ساکھ کو قائم کرنے میں مدد فراہم کرتی اور لوگوں کا جمہوری نظام پر اعتماد بڑھاتی ہے ۔
پاکستان کا جمہوری نظام بالخصوص انتخابی نظام کی ساکھ پر پہلے ہی سے بہت سے سوالیہ نشان ہیں ۔لوگوں کو لگتا ہے کہ یہاں انتخابات سے قبل ہی سیاسی مصلحتوں کے تحت انتخابی فریم ور ک اور اس کے نتائج کی بنیاد پر حکومتوں کے کھیل کا تعین کرلیا جاتا ہے ۔
اسی کھیل کو بنیاد بنا کر انتخابی نظام کا سیاسی دربار سجایا جاتا ہے ۔ یہ کھیل ایک ہی نتیجہ دیتا ہے کہ یہاں حکومتوں کو بنانے کے عمل میں ووٹرز کی اہمیت کم اور طاقت ور طبقات کے مفادات کی زیادہ اہمیت ہوتی ہے۔یہ ہی وجہ ہے کہ ہمارا مجموعی انتخابی نظام شفافیت کے عمل سے بہت دور کھڑا ہے ۔
اس وقت قومی سیاسی مباحثہ میں انتخابات کے تناظر میںسیاسی فریقین کی جانب سے Level Playing Field کی بات شدت سے کی جارہی ہے ۔یہ مطالبہ محض ایک جماعت تک محدود نہیں بلکہ اب تو پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم سمیت دیگر چھوٹی جماعتوں کی جانب سے بھی یہ مطالبہ سامنے آرہا ہے کہ سب کے لیے انتخابات کاماحول ایک جیسا ہونا چاہیے ۔
یہ مطالبہ تب ہی سامنے آتا ہے جب کسی ایک یا ایک سے زیادہ فریقوں کو محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے لیے حالات سازگار نہیں اور ہمارے مقابلے میں ہمارے مخالفین کو زیادہ فوقیت دی جا رہی ہے ۔ یہ ہی وجہ ہے کہ اس وقت انتخابات کی شفافیت کے حوالے سے لوگ سوالات اٹھارہے ہیں کہ ان انتخابات کو ووٹنگ سے قبل ہی متنازعہ نہ بنایا جائے ۔پیپلزپارٹی کو لگتا ہے کہ پس پردہ قوتوں کی جانب سے ان کے مقابلے میں مسلم لیگ ن کو زیادہ اہمیت دی جارہی ہے اور ہمیں پیچھے کی طرف دھکیلا جارہا ہے ۔ جب کہ پی ٹی آئی کا مسئلہ سب سے زیادہ سنگین ہے ۔
9مئی کے بعد پارٹی کو مکمل اپنی سیاسی بقا کا سامنا ہے اور ان کے پاس یہ حق ہی نہیں کہ وہ فی الحال اپنی سیاسی سرگرمیاں کرسکیں ۔ پی ٹی آئی کے لوگ چار حصوں میں تقسیم ہوئے، قیادت کے بیشتر لوگ جیلوں میں ہیں اور ان کو دہشت گردی یا دیگر سنگین مقدمات کا سامنا ہے ۔
کیا بطور ریاست ہم سیاسی انجینئرنگ کے کھیل سے باہر نکل سکیں گے ؟یہ جو ہمارے سیاسی مزاج یا حکمت عملی میں سیاسی مہم جوئی کی سوچ ہے اس کا خاتمہ ممکن ہوسکے گا؟ کیونکہ اس وقت بھی سیاسی محاذ پر دو سیاسی جماعتوں یعنی استحکام پاکستان پارٹی اور پی ٹی آئی پارلیمنٹرین کی تشکیل اور شاہد خاقان عباسی ، مصطفے نواز کھوکھر اور مفتاع اسماعیل کی مدد سے ایک نئی مسلم لیگ کی تشکیل کے امکانات کو کس تناظر میں دیکھا جائے۔
اگر یہ سیاسی جماعتیں کسی سیاسی عمل کے نتیجے میں بنتی ہیں تو کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہوگا ۔ مگر بہت سے سیاسی پنڈتوں کے بقول یہ کھیل ایک خاص حکمت عملی کے تحت کسی کو طاقت ور بنانے اور کسی کو کمزور کرنے کے کھیل سے جڑا ہوا نظر آتا ہے ۔
یہ عمل انتخابات کی شفافیت پر بھی سوال اٹھاتا ہے اور ظاہر کرتا ہے کہ سیاسی جماعتوں کی تشکیل یاپہلے سے موجود جماعتوں کی سطح پر کی جانے والی توڑ پھوڑ سے جمہوری یا انتخابی نظام مضبوط نہیں بلکہ کمزور ہوتا ہے ۔
اگر ہم نے واقعی ایک مضبوط سیاسی نظام کی بنیاد پر آگے بڑھنا ہے یا مضبوط سیاسی نظام ہماری بنیادی ترجیحات کا حصہ ہے تو ہمیں اپنے چال چلن کو درست سمت دینی ہوگی ۔ کیونکہ سیاسی نظام کی مضبوطی کا براہ راست تعلق معاشی استحکام سے جڑا ہوا ہے ۔
یہ ہی وجہ ہے کہ آج جب ہم معیشت کو بنیاد بنا کر آگے بڑھنے چاہتے ہیں تو سیاست کو نظرانداز کرنے کی حکمت عملی ہمیں موثر نتیجہ نہیں دے سکے گی۔ الیکشن کمیشن کے اعلان کے مطابق اگلے برس 2024 جنوری کے آخری ہفتے میں عام انتخابات ہونگے ، اگرچہ انھوں نے انتخابات کی تاریخ نہیں دی ہفتہ دیا ہے ۔ اگر وہ انتخابات کی تاریخ کا بھی اعلان کردیتے تو سیاسی ابہام کا خاتمہ ہوتا ۔
پی ٹی آئی سمیت سب سیاسی جماعتوں کو انتخابات میں آزادانہ بنیادوں پر انتخابات میں حصہ لینے کی مکمل آزادی حاصل ہونی چاہیے اور اگر کسی جماعت کے افراد پر مقدمات ہیں تو اس کا قانونی راستہ اختیار کیا جائے نہ کہ سیاسی جماعت کو ہی انتخابی یا سیاسی عمل سے بے دخل کردیا جائے۔ سیاسی قیادتوں کو سیاسی عمل کی بنیاد پر ہی ختم کیا جاسکتا ہے ۔
جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ پی ٹی آئی کو باہر نکال کر یا ان کو دیوار سے لگا کر انتخابات کا سیاسی میدان سجایا جاسکتا ہے تو یقینا ممکن ہے مگر اس نظام کی کوئی ساکھ نہیں ہوگی ۔داخلی اور خارجی دونوں محاذوں پر ہمارا انتخابی نظام تماشہ بنے گا اور معاملات بہتر ی سے بگاڑ کی طرف جائیں گے۔
اب انتخابات شفاف ہونا چاہیے تاکہ کوئی اس کی ساکھ پر سوالات اٹھا کر ریاستی امور کی راہ میں رکاوٹ نہ بن سکے۔ہار جیت انتخابات کا حصہ ہوتی ہے اس لیے اگر انتخابات شفاف ہوں گے تو کسی کو یہ کہنے کا موقع نہیں ملے گا کہ اسے دھاندلی کرکے شکست دی گئی ہے۔
نگران حکومت کا کام انتخابات کے ساتھ ساتھ اس کی شفافیت کو یقینی بنانا ہے ۔ ہمارے جیسے ملکوں میں نگران حکومتوں کی مدد سے انتخابات کی شفافیت کا سوال غیر اہم ہوگیا ہے اور نہ ہی نگران حکومتیں اپنی سیاسی ساکھ قائم کرسکی ہیں ۔
الیکشن کمیشن کی خود مختاری پر بھی بے شمار سوالات ہیں اور ا ن کے طرز عمل سے بھی کسی کی حمایت اور مخالفت کی جھلک کے نمایاں پہلوؤں کو دیکھا اور محسوس کیا جاسکتا ہے ۔اس لیے اب بھی وقت ہے کہ ہم سیاسی معاملات کو بہتری کی بجائے بگاڑ کی طرف نہ لے کر جائیں اور یہ کسی بھی صورت میں ریاستی مضبوطی کوممکن نہیں بناسکے گا۔
نئی سیاسی جماعتوں کی تشکیل ، پرانی سیاسی جماعتوں میں توڑ پھوڑ ، کسی کی حمایت میں یا مخالفت میں انتخابی اتحادوں کی تشکیل ، نگران حکومتوں کی مدد سے سیاسی ایجنڈے کی تکمیل، انتخابات سے پہلے ہی ڈیل کی بنیاد پر انتخابات کے کھیل کو سجانا ، انتخابی نتائج پر اثر انداز ہونا ، کسی جماعت کو باہر نکالنا یا اسے اقتدار میں لانے کا کھیل اب ہر صورت ختم ہونا چاہیے ۔
کیونکہ یہ عمل ہمیں ریاستی بنیاد کے ساتھ ساتھ سیاسی اور جمہوری یا آئینی و قانونی بنیادوں پر کمزور ریاست کی طرف دھکیل رہا ہے ۔انتخابات سے قبل Level Playing Field کی حکمت عملی حقیقی معنوں میں آگے بڑھنی چاہیے ۔ سیاسی جماعتوں کی جانب سے اس کا مقصد محض خود اپنے لیے سازگار حالات اور سیاسی مخالفین کے لیے انتخابی دروازے بند کرنے کی حکمت عملی نہیں ہونی چاہیے ۔