خطرے کی گھنٹی
بلوچستان کے اکثر علاقوں میں کم سن بچیوں کی شادی کی شرح میں اس سال چودہ فیصد اضافہ ہوا ہے
بلوچستان کا ساحلی شہرگوادر چین کی اقتصادی راہداری کا مرکز ہے مگر گوادر مسلسل بد امنی کا شکار ہے۔ گوادر میں گزشتہ کئی برسوں سے چلنے والی '' حق دو تحریک'' کے روحِ رواں مولانا ہدایت الرحمن نے کہا ہے کہ گوادر کے ماہی گیروں کے روزگار کا مسئلہ حتمی طور پر حل نہ کیا گیا تو اب وہ متشدد جدوجہد کرنے پر مجبور ہو جائیں گے۔
مولانا ہدایت الرحمن جماعت اسلامی کی بلوچستان شاخ کے سیکریٹری جنرل ہیں مگر مولانا ہدایت الرحمن نے عوامی سیاست کا راستہ اختیار کیا اور سی پیک کی تعمیر کے بعد ماہی گیروں کے روزگار کے حق کے تحفظ کے لیے آواز اٹھائی۔ گوادر کی آبادی 67127 ہے۔
گوادر کے 90 فیصد افراد کا ذریعہ معاش ماہی گیری ہے۔ ان میں سنی فرقہ کے علاوہ ذکری فرقہ سے تعلق رکھنے والے افراد بھی شامل ہیں۔ گوادر کے ماہی گیر قدیم زمانہ سے بحیرہ عرب سے روزگار حاصل کر رہے ہیں مگر سی پیک کی تعمیر کے ساتھ سمندر میں غیر ملکی ٹرالرز کی آمدورفت شروع ہوگئی۔ یہ غیر ملکی ٹرالر جدید مشینری سے لیس ہوتے ہیں اور آٹومیٹک جال سے مچھلیاں پکڑی جاتی ہیں۔
یہ جال اتنی تیزی سے کام کرتے ہیں کہ چند گھنٹوں میں ہی بڑی مچھلیوں کے ساتھ ساتھ چھوٹی مچھلیاں بلکہ مچھلیوں کے بچے بھی شکار ہوجاتے ہیں۔ ان دیوہیکل ٹرالرز میں مچھلیوں کو پروسیس کرنے اور طویل عرصہ تک محفوظ کرنے کے لیے جدید کولڈ اسٹوریج کا نظام بھی موجود ہے، یوں یہ غیر ملکی ٹرالرز کئی کئی دن تک مچھلی کا شکار کرتے ہیں۔ گوادر کی انتظامیہ نے گوادر کے ماہی گیروں کے شکار پر مختلف نوعیت کی پابندیاں عائد کی ہوئی ہیں۔
یوں ایک طرف ماہی گیر اپنے روزگار سے محروم ہوئے تو دوسری طرف گوادر شہر کو سیکیورٹی حصار میں بند کردیا گیا۔ گوادر کے قریب ترین شہر تربت سے آنے جانے کے لیے بہت سی سیکیورٹی پوسٹ قائم کی گئی ہیں ۔ مولانا ہدایت الرحمن اور ان کی جماعت نے ہمیشہ مسلم قوم کے تصور پر زور دیا ہے مگر ہدایت الرحمن معروضی صورتحال سے اتنے مایوس ہوئے کہ وہ یہ کہنے پر مجبور ہوئے کہ وہ اور ان کا خاندان صدیوں سے گوادر میں آباد ہے مگر ان سے اور دیگر شہریوں سے شناخت پوچھی جاتی ہے۔
مولانا ہدایت الرحمن نے پہلے ماہی گیروں کے حقوق کے لیے جلسے کیے اور پھر گوادر کو سی پیک کے نظام سے منسلک کرنے والی شاہراہ پر دھرنے دیے مگر حکومت بلوچستان نے کوئی توجہ نہ دی نہ اسلام آباد کی حکومت کو گوادر کے ماہی گیروں کی زبوں حالی کا خیال آیا۔ پھر دو سال قبل گوادر میں احتجاجی دھرنا شروع ہوا۔ اس دھرنے میں گوادر اور اطراف کے علاقوں سے ہزاروں افراد نے جن میں خواتین بھی شامل تھیں نے شرکت کی۔
پہلے بلوچستان کی سابقہ حکومت کے اہلکاروں نے دھرنے کے شرکاء سے مذاکرات کیے اور مسائل کے حل کی یقین دہانی کرائی جس پر احتجاج کا سلسلہ ختم ہوا، مگر صورتحال میں کوئی تبدیلی نہ آئی، پھر ایک طویل مدت کا احتجاج ہوا۔ مظاہرین نے گوادر کی بندرگاہ کو جانے والے تمام راستے بند کردیے۔
صورتحال اتنی خراب ہوئی کہ بیجنگ والوں کو بھی تشویش پیدا ہوگئی۔ بلوچستان کے سابق وزیر اعلیٰ عبدالقدوس بزنجو نے مظاہرین سے مذاکرات کیے اور ماہی گیروں کے کئی مطالبات کو تسلیم کرنے کا اعلان کیا تو گوادر میں صورتحال معمول پر آگئی مگر پھر مولانا ہدایت الرحمن اور ان کے ساتھیوں کو گرفتار کیا گیا، وہ کئی ماہ تک قید رہے۔
سپریم کورٹ نے مولانا ہدایت الرحمن کی بازیابی کا حکم دیا مگر گوادر کے ماہی گیروں کے مسائل جوں کے توں رہے۔ اس دوران حملوں میں شدت آئی اور خودکش دھماکے ہوئے۔ بلوچستان کے نوجوانوں میں مایوسی کی بہت سی وجوہات ہیں جن میں بے روزگاری، تعلیم اور صحت کی سہولتوں میں کمی اور امن و امان کے ذمے داروں کا رویہ شامل ہے۔
بتایا جاتا ہے کہ بلوچستان میں ترقی کی شرح مایوس کن ہے۔ تعلیم، صحت اور دیگر شعبوں کا برا حال ہے۔ یہ تاثر عام ہے کہ کوئٹہ کی حکومت بے اختیار ہے اور بلوچستان کے فیصلے کہیں اور ہوتے ہیں۔ اگرچہ یہ تاثر صد فی صد درست نہیں ہے مگر ریاستی اداروں کی ناقص کارکردگی سے صورتحال مزید خراب ہوتی جا رہی ہے۔ صوبائی حکومت میں شامل سردار طبقہ بھی صوبے میں ترقی اور تعلیم کے فروغ میں رکاوٹ بنتا ہے اور الزام وفاق پر لگا دیا جاتا ہے۔
انسانی حقوق کمیشن HRCP کی اس سال جاری ہونے والی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بلوچستان میں انسانی حقوق کی صورتحال ناگفتہ بہ ہے۔ گزشتہ ایک ماہ سے خضدار اور وٹھ کے علاقوں میں ڈیتھ اسکواڈ اور مینگل قبیلہ کے درمیان مسلح تصادم سے صورتحال خراب ہے۔
بلوچستان میں خاص طور پر لاپتہ افراد کا معاملہ خاصا گھمبیر ہے، اگرچہ سپریم کورٹ نے اس صدی کے پہلے عشرہ میں لاپتہ افراد کے مسئلہ پر توجہ دی تھی، یوں سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری نے لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال کی قیادت میں ایک کمیشن بھی تشکیل دیا تھا مگر یہ کمیشن کوئی خاطر خواہ تبدیلی نہ لاسکا۔ انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ جسٹس جاوید اقبال کمیشن تقریباً بے اثر ہے۔
پیپلز پارٹی کی یوسف رضا گیلانی حکومت، میاں نواز شریف کی مسلم لیگ ن کی حکومت، تحریک انصاف کی حکومت اور میاں شہباز شریف کی مخلوط حکومت نے اس مسئلہ کے مستقل حل کے لیے کچھ کوششیں کیں۔
تحریک انصاف کی حکومت نے شہریوں کو لاپتہ کرنے کو فوجداری جرم قرار دے کر ایک مسودہ قانون سینیٹ سے منظور کرایا مگر بقول اس وقت کی انسانی حقوق کی وزیر ڈاکٹر شیریں مزاری یہ بل سینیٹ سیکریٹریٹ سے لاپتہ ہوگیا۔ شہباز شریف حکومت نے ایک نیا مسودہ تیار کیا جو قانون بننے کے مراحل سے گزر گیا مگر اس قانون پر عملدرآمد نہ ہوا۔
بلوچستان ماحولیاتی تبدیلیوں سے براہِ راست متاثر ہوا ہے۔ گزشتہ سال مسلسل بارشوں اور سیلابوں سے ایک طرف انفرا اسٹرکچر تباہ ہوا ہے تو دوسری طرف غربت بڑھتی جارہی ہے۔ بی بی سی کی ایک رپورٹر نے ایک گاؤں چوکی جمالی سے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ سود پر قرضہ لینے اور رقم ادا نہ کرنے پر والدین کم سن بچیوں کو فروخت کررہے ہیں۔ اس رپورٹر نے اپنی وڈیو رپورٹ میں ایک شخص کا انٹرویو ریکارڈ کیا ہے ۔
اس شخص نے بتایا ہے کہ سیلاب کے دوران بیوی کے آپریشن کے لیے سود پر قرضہ لیا اور قرضہ ادا نہ کرنے پر اپنی دس سالہ بچی کو فروخت کر دیا۔ ضلع حکام نے بھی کم سن بچیوں کی فروخت کے کاروبارکی تصدیق کی ہے۔
ایک سماجی کارکن نے بتایا ہے کہ بلوچستان کے اکثر علاقوں میں کم سن بچیوں کی شادی کی شرح میں اس سال چودہ فیصد اضافہ ہوا ہے۔ اس صورتحال کا فائدہ سرمچاروں نے اٹھایا ہے، وہ نوجوانوں کو ورغلانے کی کوشش کرتے ہیں۔کچھ نوجوان ان عناصرکی جذباتی باتوں میں آکر گمراہ ہوئے اور اپنی جانیں گنوا بیٹھے مگر مسئلہ کا کوئی حل نظر نہیں آرہا ہے۔
بلوچستان کے بارے میں متعدد کتابوں کے مصنف عزیز سنگھور اس صورتحال کا تجزیہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ مولانا ہدایت الرحمن ایک وفاق پرست سوچ رکھنے والے رہنما ہیں۔ یہ بات غور طلب ہے کہ ایسے کون سے عوامل ہیں کہ وہ تحریک چلانے پر مجبور ہیں۔ مستونگ میں ہونے والی مسلسل دہشت گردی کی وارداتوں کے بعد تو اور زیادہ ضروری ہوگیا ہے کہ بلوچستان کے معاملات کو سنجیدہ لیا جائے۔
مولانا ہدایت الرحمن کا اپنے مطالبات کے حق میں بندوق اٹھانے کا نعرہ محض اگلے انتخابات کے لیے بلند کیا ہوگا یا وہ واقعی سنجیدہ ہیں؟ ہر دو صورتوں میں یہ خطرہ کی گھنٹی ہے۔ وفاقی حکومت کو اس گھنٹی کی آواز کو محسوس کرنا چاہیے۔