اردو یونیورسٹی کے سابق وی سی نے برطرفی کیخلاف صدرمملکت کو خط لکھ دیا
صدر مملکت سینیٹ کا ہنگامی اجلاس بلاکر ان کی سبک دوشی کے خط کو کالعدم قرار دلوائیں، ڈاکٹر ضیا الدین کا خط
اردو یونیورسٹی کے برطرف وائس چانسلر ڈاکٹر عبدالقیوم نے اپنی برطرفی اور نئی وی سی کی تقرری کو غیرقانونی قرار دیتے ہوئے صدر مملکت اور چانسلر سے مداخلت کا مطالبہ کردیا۔
ایکسپریس کے مطابق وفاقی وزارت تعلیم کی جانب سے اردو یونیورسٹی کے ہٹائے گئے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر ضیاء الدین نے اپنی سبک دوشی اور نئی قائم مقام وائس چانسلر ڈاکٹر روبینہ مشتاق کی تقرری کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے صدر مملکت اور اردو یونیورسٹی کے چانسلر سے معاملے میں فوری مداخلت کی سفارش کی ہے اور کہا ہے کہ سینیٹ کا ہنگامی اجلاس بلاکر ان کی سبک دوشی کے خط کو کالعدم قرار دیا جائے۔
صدر مملکت عارف علوی کو لکھے گئے اپنے خط میں انھوں نے کہا ہے کہ وفاقی وزارت تعلیم کی جانب سے اس اقدام سے یونیورسٹی میں انتظامی بحران پیدا ہورہا ہے چونکہ یہ اقدام وزارت تعلیم کی آئینی حدود سے تجاوز یے کہ وہ اردو یونیورسٹی کے قائم مقام وائس چانسلر کو اس کے عہدے سے ہٹائے یا کسی شخص کو وائس چانسلر مقرر کرے، یہ اقدام یونیورسٹی کے آرڈیننس کی صریحاً خلاف ورزی کے ساتھ ساتھ صدر مملکت اور یونیورسٹی سینیٹ کے اختیارات کا از خود استعمال کرنے کے مترادف ہے جس کا وزارت نے ارتکاب کیا ہے۔
واضح رہے کہ وفاقی وزارت تعلیم 5 اکتوبر کو جاری ایک خط کے ذریعے اپنے 14 جون کے گزشتہ نوٹی فکیشن سے دست بردار ہوگیا تھا جس میں ڈاکٹر ضیاء الدین کو وائس چانسلر مقرر کیا گیا تھا اور ایک علیحدہ نوٹی فکیشن کے ذریعے ڈاکٹر روبینہ مشتاق کو وائس چانسلر مقرر کیا گیا ہے۔
ادھر سبک دوش کیے گئے وائس چانسلر نے خط میں یونیورسٹی کے آرڈی ننس کی شق 12 کے ساتویں سیکشن کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ قائم مقام وائس چانسلر کی تقرری اور سبک دوشی کا واحد اختیار سینیٹ کے ادارے کے پاس ہے جس کی منظوری صدر مملکت سے لے جاسکتی ہے لہذا یونیورسٹی کے آرڈی نینس کی اس شق کے تحت وزارت تعلیم مذکورہ اقدام نہیں کرسکتی، وزارت تعلیم کے برطرفی کے خط اور نئے قائم مقام وائس چانسلر کی تقرری کے خط کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے۔
ڈاکٹر ضیا الدین نے صدر مملکت کو لکھے گئے خط میں وزارت تعلیم کے اقدام کو مزید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے موقف اختیار کیا ہے کہ ایک جانب خط میں مستقل وائس چانسلر کے تقرر کے لیے صدر مملکت سے جلد سینیٹ کا اجلاس بلانے اور وائس چانسلر کا تقرر کرنے کی درخواست کی جارہی ہے جبکہ دوسری جانب وزارت بحیثیت پروچانسلر ڈاکٹر روبینہ مشتاق کا تقرر کرکے یہ اختیارات خود ہی استعمال کررہی ہے۔
اپنے خط میں انھوں نے وزارت تعلیم پر یہ الزام بھی عائد کیا کہ وائس چانسلر کے عہدے سے ان کی غیر قانونی سبک دوش کے لیے بے ان کے اختیارات اور کارکردگی کے حوالے سے بنیاد الزامات کا سہارا لیا گیا ہے کیونکہ جو فریم ورک سینیٹ کی جانب سے متعین ہے بحیثیت قائم مقام وائس چانسلر میں نے اس حدود میں رہتے ہوئے ہی کام کیا ہے مجھ پر جو الزامات عائد کیے گئے ہیں اس کے ذیل میں کوئی ثبوت فراہم کیے گئے اور نہ ہی مجھے سنا گیا جو پاکستان کے آرٹیکل 10 اے کی خلاف ورزی ہے۔
خط کے آخر میں صدر مملکت سے گزارش کی گئی ہے کہ اس صورتحال کے تناظر میں سینیٹ کا ہنگامی اجلاس بلاکر ان کی سبک دوشی کے خط کو کالعدم قرار دلوایا جائے کیونکہ وزارت تعلیم کی جانب سے مذکورہ یونیورسٹی کے آئینی اداروں کے اختیارات کو سلب کرنے کے مترادف ہے۔