نیو ورلڈ آرڈر کی ریشہ دوانیاں
اسلامی نظام معیشت کو تباہ کرنے کے لیے صرف یہ ایک راک فیلرز خاندان ہی نہیں بلکہ اس جیسے متعدد خاندان ہیں
بظاہر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ امریکا دنیا کی سیاسی، اقتصادی، عسکری، فلاحی اور مذہبی دنیا کی ڈوریں ہلا رہا ہے۔ تجارت، بینکاری، فلاحی، ثقافتی، تعلیم و صحت اور سائنسی تحقیق سے متعلق کہا جاتا ہے کہ ان سب کاموں کی آڑ لے کر شیطانی منصوبوں کو پایہ تکمیل تک پہنچانا، دنیا سے اسلام کا خاتمہ کرکے نئے نظام ''نیو ورلڈ آرڈر'' کو دنیا میں نافذ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
یہود مخالف قوتوں کو تباہ کرنا، ہالی ووڈ، عالمی میڈیا اور آئی ایم ایف و ورلڈ بینک کے ذریعے دنیا کی دولت کو قبضے میں کرنے کے لیے جو مشنری استعمال ہو رہی ہے اسے اب ترقی پذیر ممالک، خاص کر اسلامی ممالک اچھی طرح سمجھنے لگے ہیں، لیکن ان کے شکنجے سے نکلنے کے لیے ان کے پاس ایسے ذرایع نہیں ہیں جس بنا پر وہ اپنی گرتی معیشت کو سنبھالتے ہوئے اپنی مملکت کو گروی رکھنے سے بچا سکیں۔
جدید ٹیکنالوجی کے مالک راک فیلرز سمجھے جاتے ہیں۔ جانوروں پر تحقیقات، جراثیمی اور وبائی امراض پھیلانے کے طریقے، خاندانی منصوبہ بندی، نیشنل جیوگرافک، عالمی ادارہ صحت اور خلائی تحقیقاتی ادارے ''ناسا'' وغیرہ میں راک فیلرز انتہائی موثر کردار ادا کرتے ہیں۔ ان اداروں کو بڑی بڑی رقوم فراہم کی جاتی ہے۔ خلائی، عسکری، جنیاتی میدانوں میں جدید ٹیکنالوجی انھی کی تجربہ گاہوں سے نکل کر انھی فیکٹریوں میں تیار ہو کر امریکی حکومت کو فروخت کردی جاتی ہے۔ ہم کسی ٹیکنالوجی مثلاً ڈرون طیارے یا بینک کے بارے میں سنتے ہیں کہ یہ امریکا کی ملکیت ہیں تو اس سے مراد یہ نہیں کہ یہ واقعی امریکی حکومت کی ملکیت ہونگے بلکہ دیکھا یہی گیا ہے کہ یہ ان یہودیوں کی ملکیت ہوتے ہیں جو وہاں کے چپے چپے کے مالک ہیں۔جیسے دنیا کی بڑی اسلحہ ساز فیکٹری کے مالک راک فیلر ہیں۔
جنگ اول 1914-1918 اور جنگ عظیم دوئم 1939-1945 دونوں میں اتحادیوں کو تیل اور اسلحہ اسی خاندان کی کمپنیوں نے فراہم کیا۔ وسط ایشائی ریاستوں کے غیور مسلمانوں کو تباہ کرنے کے لیے روس کے اندر کمیونسٹ انقلاب کے لیے رقم فراہم کرنیوالا ڈیوڈ راک فیلر تھا۔ افغانستان پر امریکی حملہ اور قبضہ اس تمام آپریشن کی نگرانی اسی خاندان کا ایک بائیس سالہ نوجوان کر رہا تھا۔ طالبان کی پسپائی کے بعد سب سے پہلے کابل آنیوالا یہی نوجوان تھا، جو اپنے ذاتی طیارے سے وہاں پہنچا۔ ڈیوڈ راک فیلر نے اپنی خود نوشت 2002 میں شایع کی۔
اس میں وہ لکھتا ہے کہ ''لوگ دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم (راک فیلر خاندان) امریکا کے سیاسی اور اقتصادی اداروں پر قابض ہیں، بعض لوگوں کو اس بات کا یقین ہے کہ ہم ''خفیہ کبالہ'' کا حصہ ہیں جو امریکا کے مفادات کے خلاف کام کر رہا ہے، مجھے اور میرے خاندان کو ''بین الاقوامیت کا حامی'' تصور کرتے ہیں نیز وہ یہ تصور بھی کرتے ہیں کہ ہم دنیا میں اوروں کے ساتھ مل کر ایک ایسا بین الاقوامی، سیاسی اور اقتصادی ڈھانچہ کھڑا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جو (موجودہ سے) زیادہ مکمل ہوگا، اگر یہی الزام ہے تو میں مجرم ہوں اور مجھے اس پر فخر ہے۔''جان ڈی راک فیلر کے بیٹے نے نیویارک میں اقوام متحدہ کے ہیڈکوارٹر کے لیے زمین چندے میں دی۔
نیلسن راک فیلر نے امریکی اور بین الاقوامی سیاست کو یہودیوں کی لونڈی بنانے کے لیے 1921 میں سی ایف آر CFR قائم کیا، اس کے علاوہ اقوام متحدہ کے قیام میں اس کا بنیادی کردار تھا۔ اسی نے اقوام متحدہ کے دفاتر کے لیے نیویارک میں جگہ دی۔ ورلڈ ٹریڈ سینٹر ڈیوڈ راک فیلر نے بنوایا تھا۔ ڈیوڈ خود آرکیٹیکٹ ہے، اس نے دنیا میں ایسے ڈیزائن متعارف کرائے جو قدیم یہودی ثقافت کی نشانیاں ہیں۔ گھروں کے اندر فرش، دیواروں پر چھ اور آٹھ کونے والا ستارہ، سانپ کی طرح بل کھاتی سیڑھیاں، شیطان کا سینگ شیلڈ اور اس طرح کے بہت سارے ڈیزائن جو فن تعمیر میں استعمال کیے جاتے ہیں۔
گوانتاناموبے، بگرام اور ابو غریب جیل میں دوران حراست مجاہدین اور عام مسلمانوں پر جو وحشیانہ تشدد کیا گیا اس کے پیچھے جے راک فیلر کا ہاتھ تھا۔ سی آئی اے نے تشدد کے نئے طریقے کے بارے میں صرف دو لوگوں کو بریف کیا جن میں ایک جے راک فیلر بھی تھا، تشدد کے ان مناظر کی ویڈیو سی آئی اے نے بنائی تھیں، جو ضایع کردی گئیں۔ اس کے لیے تحقیقاتی کمیٹی بنائی گئی تو جے راک فیلر نے اس کمیٹی کو ختم کرادیا، اس نے کہا ''یہ انٹیلی جنس کمیٹی کی ذمے داری ہے۔''نسل انسانی کو تباہ کرنے کے لیے جتنے پروگرام چل رہے ہیں ان کے منصوبہ ساز راک فیلرز ہیں۔
یہ خاندان ترجیحی بنیادوں پر دنیا کی حکومتوں کو مجبور کرتے ہیں کہ وہ اپنے ملکوں میں اس پالیسی کو بزور طاقت نافذ کریں۔ راک فیلرز خاندان کا دنیا کے غریب اور اسلامی ممالک پر بڑا اثر و رسوخ ہے۔ اسی بنا پر اسلامی ممالک اپنی کوئی پالیسی نہیں بنا پاتے کیونکہ معاشی طور پر انھیں انھی مالیاتی اداروں کے دست نگر ہونا پڑتا ہے جو راک فیلرز خاندان کی ملکیت ہیں۔ ہمارے اسلامی ممالک، صرف نام کی حد تک اسلامی ہیں جب کہ ان کی مکمل معاشی پالیسی یہودیت کے نظام ربوبیت پر قائم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قدرتی وسائل سے مالا مال ہونے کے باوجود اسلامی ممالک اپنے زر خرید کرایے کے فوجی مہیا کرنیوالوں کے آقا بننے کے باوجود اس جاہل کی طرح ہیں جس میں سمجھ بوجھ تو بہت ہے لیکن جب لکھنے کا مرحلہ آتا ہے تو وہ مجبور ہوجاتا ہے اور تحریر کے لیے پڑھے لکھے کا محتاج بن جاتا ہے۔
اسلامی نظام معیشت کو تباہ کرنے کے لیے صرف یہ ایک راک فیلرز خاندان ہی نہیں بلکہ اس جیسے متعدد خاندان ہیں جنھوں نے چالاکی سے کام لیتے ہوئے عالمی مقتدر اداروں پر اپنا باطنی قبضہ کر رکھا ہے۔راک فیلرز، یہودی ہونے کے باعث مسلمانوں سے خصوصی عدوات رکھتے ہیں، اس خاندان نے خلافت عثمانیہ سے لے کر فلسطین میں یہودی ریاست کے قیام تک میں بنیادی کردار ادا کیا ہے۔ عرب حکمرانوں کو اپنے سحر میں جکڑ کر بیت المقدس پر قبضہ، بوسنیا کے مسلمانوں کے خون سے ہولی، عراق میں درندگی، افغانستان میں دنیا کا ہر اسلحہ استعمال کیا۔ ابو غریب اور گوانتاناموبے کے پنجروں میں انھی کے حکم سے انسانیت کی تذلیل کی جاتی ہے۔
مسلم امہ جب تک امت واحدہ نہیں بنتی اور تفرقوں کا شکار رہے گی، اس کی اسی طرح تذلیل کی جاتی رہے گی اور اس کے وسائل پر راک فیلرز جیسے لوگ قبضے کرکے مسلمانوں کو آپس میں لڑا کر اپنے مقاصد پورے کرتے رہیں گے۔ راک فیلرز کے عالمی سیاست میں اثر و رسوخ کو کم کرنے کے لیے ہمیں اپنی بنیاد صرف قرآن پر رکھنی ہوگی۔ تفرقوں اور فروعی اختلافات کو بالاتر رکھ کر یہودیت کے نظام ربوبیت سے اپنی معیشت کو باہر نکالنے کے لیے اسلامی نظام تعلیم و معیشت کو لاگو و رائج کرنا ہوگا۔ یہی واحد حل ہے۔