برکس کے اغراض ومقائد
اپنے قیام کے وقت اس کی ممبرز کی تعداد چار تھی جو اب بڑھ کر‘40سے زیادہ ممالک نے اس میں شمولیت کی درخواست دی ہے
برکس (BRICS)کا 15واں سربراہی اجلاس 'اگست 2023 میں جنوبی افریقہ کے شہر جوہنسبرگ میں منعقد ہوا۔ اپنے قیام کے وقت اس کی ممبرز کی تعداد چار تھی جو اب بڑھ کر'40سے زیادہ ممالک نے اس میں شمولیت کی درخواست دی ہے 'اس اجلاس نے صرف چھ ممالک کی ممبر شپ کی منظوری دی ہے یعنی اب اس تنظیم کی تعداد پانچ کے بجائے گیارہ ہوگئی ہے'کانفرنس کا ایجنڈا' امریکا اور سامراجی اثر سے آزاد 'ایک نئی دنیا کا قیام تھا۔
اس سلسلے کی اہم پیش رفت 16جون 2009کو روس میں کوہ یورال کے پہاڑی شہر ''ایکا ترین برگ'' میں(SCO) کانفرنس کی سائیڈ لائن پر دنیا کی ابھرتی ہوئی اقتصادی طاقتوں 'روس' چین'ہندوستان اور برازیل کی ایک الگ کانفرنس کا انعقاد تھا 'اس شہر کو روسی صدر نے(دنیا کی سیاست کا مرکز )کا خطاب دیا 'چار ممالک کی اس کانفرنس میں دنیا میں امریکی سامراج کی معاشی 'فوجی اور سیاسی بالا دستی سے دنیا کو نجات دلانے کے طریقوں پر غور کیا گیا' کانفرنس میں دنیا کی ان ابھرتی ہوئی اقتصادی طاقتوں نے فیصلہ کیا کہ' وہ معاشی طور پر امریکا پر اپنا انحصار کم سے کم کریں گے 'آپس میں تجارت اور سیکیورٹی کے مسائل میں تعاون کریں گے 'یہ پہلی بڑی عالمی کانفرنس تھی' جس میں کوئی سامراجی طاقت شامل نہیں تھی۔
کانفرنس میں ایک نئے عالمی اقتصادی اور سامراج دشمن فورم ''BRICS'' کا قیام عمل میں لایا گیا جو برازیل' روس'انڈیا 'چین اور جنوبی افریقہ کا مخفف ہے' کانفرنس کا ایجنڈا' امریکا اور سامراجی اثر سے آزاد' ایک نئی دنیا کا قیام تھا ۔SCO کی کانفرنس میں روس اور چین نے بنیادی کردار ادا کیا' اس کانفرنس میں روس نے عالمی اقتصادی نظام کے اس اصول پر بھی اعتراض کیا'جس کے مطابق ہر ملک اپنے زر مبادلہ کے ''محفوظ ذ خائر''صرف ڈالروںمیں رکھنے کا پابند ہوتا ہے' روس اور چین دونوں اس خطے میں امریکی مداخلت کے سخت مخالف ہیں۔
"BRICS"کے ممالک نے اس اجلاس میں ایک مشترکہ اعلامیہ جاری کیاجس میں دوسرے مسائل کے علاوہ ان ممالک نے عالمی معاشی اداروں (عالمی بینک'IMF وغیرہ)اور اقوام متحدہ میں اصلاحات کی ضرورت پر زور دیا' کانفرنس کا مطالبہ تھا کہ اقوام متحدہ میں چند سامراجی ممالک کی اجارہ داریاں ختم کرکے دنیا میں ابھرتی ہوئی نئی طاقتوں انڈیا اور برازیل کو بھی اہم رول دیا جائے 'کانفرنس نے یہ مطالبہ بھی کیا کہ دنیا میں ایک نیا اور قابل بھروسہ کرنسی کا نظام نافذ کیا جائے'دنیا کے اکثر ممالک کے فارن کرنسی کے محفوظ ذخائر چونکہ ڈالروں میں ہوتے ہیں اور ڈالر کی بگڑتی ساکھ ان ممالک کی اقتصادیات پر بھی اثر اندازہو تی ہے 'اس طرح امریکی سامراجی نظام نے پوری دنیاکی اقتصادیات کواپنے ساتھ خطرے میں ڈال دیا ہے۔
روسی صدر دمتری میدویدوف (Dimitry Medvedev) نے اپنی تجویز پر زور دیتے ہو ئے کہا کہ اگر دنیا نے ایک کرنسی (ڈالر)کی اجارہ داری کا سسٹم تبدیل نہیں کیا 'تو کوئی بھی سسٹم چل نہیں سکے گا'دنیا کی معاشی نظام میں اصلاح اور استحکام اسی وقت آسکتی ہے 'جب صرف ڈالر کو اہمیت دینے کے بجائے ریزرو کرنسیوں کے طور پر دیگر کرنسیوں کو بھی تسلیم کیا جائے' ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ نئے عالمی معاشی نظام میں ہر ملک کی رائے کو اہمیت دی جانی چاہیے' یہ دنیا سب کی مشترکہ ہے' نہ کہ چند سامراجی ممالک کی ملکیت۔
روسی صدر نے ڈالر کی بالادستی ختم کرنے کی تجویز دیتے ہوئے کہا کہ 'اگر یہ فرسودہ عالمی معاشی نظام جلد تبدیل نہ کیا گیا تو' کسی حادثے کا امکان بھی ہو سکتا ہے کیونکہ ڈالروں میں سود ادا کرتے کرتے غریب ممالک کے عوام اب ننگے ہونے کے قریب ہیں۔
روسی صدر کے اقتصادی مشیرارکادی درکوویچ نے کہا کہ روسی صدر کی تجویز کے مطابق اگر BRICS کے دیگر ممبر ممالک اتفاق کریں تو روس اپنے خارجہ کرنسی کے ذخائر کو ڈالروں میں رکھنے کے بجائے برازیل'چین اور انڈیا کی طرف سے جاری کردہ بانڈز کی شکل میں رکھنے کو تیار ہے' ان کا کہنا تھا کہ عالمی معیشت میں ڈالر کے ساتھ 'روسی کرنسی روبل(ruble)'چینی کرنسی یوآن (yuan)اور سونے کو بھی اس پیمانے میں شامل کیا جائے۔