مفاہمت یا انتقام کی سیاست
جوغلطیاں یاحکمت عملی کو ہم نے ماضی میں اختیار کیا اورجو کارگر ثابت نہیں ہوسکیں تو ان کا متبادل راستہ اختیارکرنا ہوگا
پاکستان کی سیاست کا ایک بنیادی نقطہ مفاہمت اورانتقام کی سیاست سے جڑا ہوا ہے ۔ہم جن داخلی ، علاقائی او ر خارجی مسائل کا شکار ہیں یا ہمیں جن سنگین حالات کا سامنا ہے ان میں مفاہمت ہی کی سیاست کو بنیاد بنا کر ہم قومی مسائل کا حل تلاش کرسکتے ہیں۔
لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ ہم نے ہمیشہ قومی سیاست میں قومی مفاہمت کے بجائے سیاسی انتقام یا اپنے سیاسی مخالفین کو ختم کرنے یا ان کو دیوار سے لگانے کی حکمت عملی کو اختیار کیا ہے ۔ اسی بنیاد پر احتساب اور جوابدہی کے نظام کو بھی اپنے سیاسی مفادات کے لیے بطور ہتھیار استعمال کیا ہے۔
یہ ہی وجہ ہے کہ یہاں سیاست ، جمہوریت، آئین ، قانون اور احتساب جیسے سارے معاملات میں بگاڑ کی کہانی نمایاں نظر آتی ہے ۔ہماری مفاہمت یا انتقام کی سیاست میں محض کردار بدلتے ہیں او رسوچ و فکر وہی پرانے خیالات پر ہی مبنی ہوتی ہے ۔ ہم سیاسی مسائل کا حل سیاسی انداز میں کرنے کے بجائے غیر سیاسی انداز یا انتقام کو بنیاد بنا کر کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
ہمارے یہاں مفاہمت کی سیاست کبھی حقیقی معنوں میں پروان نہیں چڑھ سکی ۔ ہم نے مفاہمت کی سیاست کے جو معنی نکالے ہیں، ان میں اسٹیبلیشمنٹ کے ساتھ معاملات کو طے کرکے آگے بڑھنا ہے ۔ ہماری مفاہمت کی بنیاد سیاسی او رجمہوری سطح کا استحکام یا آئین و قانون کی بالادستی یا عوامی مفادات سمیت اداروں کی بالادستی کے سوال پر نہیں بلکہ ذاتیات پر مبنی سیاسی و معاشی مفادات کی بنیاد پر ہوتے ہیں۔
ہم مفاہمت کے سیاسی کارڈ کو بھی اپنی سیاسی حمایت میں بطور حکمت عملی کے اختیار کرتے ہیں او راپنے مخالفین کو دیوار سے لگانے کی کوشش کرتے ہیں ۔ہمارا خیال ہوتا ہے کہ انتقام کی سیاست سے ہم اپنے سیاسی مسائل کا علاج تلاش کرسکتے ہیں یا کسی کو اہم یا غیر اہم بناسکتے ہیں۔ حالانکہ تاریخ کا سبق دیکھیں تو نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ انتقام کی سیاست کو بنیاد بنا کر ہم نے احتساب کے نظام کو عدم شفافیت سے دوچار کیا ۔ ہمارا مقصدشفاف احتساب کرنا نہیں ہوتا بلکہ احتساب کو بنیاد بنا کر انتقام لینا ہماری سیاسی حکمت عملی کا حصہ ہے۔
پاکستان میں ہر حکومت کا دور انتقام کی سیاست کے گرد ہی گھومتا ہے ۔ یہ ہی وجہ ہے کہ ایک عمومی رائے یہ ہی بنتی ہے کہ یہاں احتساب کے نظام میں شفافیت کم اورانتقام کی بو زیاد ہ محسوس ہوتی ہے ۔وجہ صاف ظاہر ہے کہ ہمارے سیاسی نظام میں سیاسی مخالفین کو قبول نہ کرنے کی جو روش ہے وہی سیاسی انتقام کے ماحول کو پیدا کرتی ہے۔
بھٹو کی سیاست سے بے نظیر اور بے نظیر کی سیاست سے زرداری کی سیاست ، نواز شریف کی سیاست ، عمران خان کی سیاست، ایم کیو ایم ، جے یو آئی کی سیاست میں سیاسی مخالفین کے خلاف شدت پسندی اور دشمنی کا پہلو نمایاں نظر آتا ہے۔
ہم مجموعی طور پر سیاسی انتقام کے کھیل میں سیاسی اندھے پن کا شکار ہوجاتے ہیں یا ہم پر سیاست کم اور دشمنی کا پہلو زیادہ نمایاں ہوتا ہے اور اس میں بہت آگے تک نکل جاتے ہیں ، یوںجمہوری نظام پر سوالیہ نشان کھڑے کردیتے ہیں ۔یہاں ایسے قوانین , پالیسیاں یا اداروں میں سیاسی بھرتیاں کرکے اپنے ایجنڈے کی تکمیل کرنا او رپورے نظام کی شفافیت کو خراب کرنا ہوتا ہے ۔ایسے میں سیاست او رجمہوریت کیسے مضبوط بنیادوں پر آگے بڑھ سکے گی ، خود ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔
یہ سوال سب فریقین کو سوچنا چاہیے کہ اس ملک میں محازآرائی , ٹکراو یا ایک دوسرے کے ساتھ عدم اعتماد یا مل بیٹھ کر کام نہ کرنے کی پالیسی سے ہم نے کیا نتائج بطور ریاست حاصل کیے ۔کیا اس پالیسی سے ہم پیچھے نہیں چلے گئے یا اس نے ہمیں داخلی او رخارجی محاذ پر سیاسی تنہائی میں مبتلا نہیں کردیا۔ اگر ایسا ہے تو اس کی ذمے داری کس پر عائد ہوتی ہے اور کیسے ہم اس مسئلہ سے باہر نکل سکیں گے۔
ہماری دانش یا سوچ وعمل کی فکر ہمیں مسائل کے حل کے بجائے بگاڑ کی طرف لے جارہی ہے اور ہمیں اس بات کو مجموعی طور پر کوئی احساس نہیں کہ ہم خود ہی اپنے اردگرد مسائل کو پیدا کرنے کے ذمے دار ہیں۔کیا یہ ضروری ہے کہ ہم سیاسی یا غیر سیاسی بنیادوں پر اپنے سیاسی مخالفین کے بارے میں بے بنیاد پراپیگنڈا کریں، کیونکہ اسے ختم کیے بغیر ہم سیاسی ماحول میں موجود کشیدگی کوختم نہیں کرسکیں۔
سیاسی جماعتوں کے غیر ضروری یا ذاتیات پر حمایت یا مخالفت کا ایجنڈا ہماری قومی سیاست کو پیچھے کی طرف دکھیل رہا ہے ۔یہ ایک اجتماعی بحران ہے اور اس کا علاج بھی اجتماعی دانش کے ساتھ تلاش کیا جانا چاہیے۔کیونکہ اس وقت جو بھی ہمارے حالات ہیں وہ ہم سے بطور ریاست سنجیدگی کے عمل کو اختیار کرنے کی طرف توجہ دلاتے ہیں۔
سیاسی انتقا م وسیاسی کشیدگی یا سیاسی الزامات سے باہر نکلنے کے چار ہی راستے ہیں ۔ اول سب کو سیاسی اختلافات یا مختلف نقطہ نظر کے باوجود ایک دوسرے کی سیاسی قبولیت کو یقینی بنانا ، دوئم سیاسی جماعتوں کی سطح پر ایک ایسے سیاسی کوڈ آف کنڈکٹ کو یقینی بنانا جو سیاسی جماعتوں کی سطح پر رواداری اور ایک دوسرے کے بارے میں احترام کے پہلو کو قائم کرے۔
سیاسی جماعتیں اور دیگر سیاسی فریقین اس کوڈ آف کنڈکٹ کی کڑی نگرانی کریں او رجو بھی اس دائرہ کار سے باہر نکلتا ہے اس کو جوابدہ بنایا جائے ۔ سوئم سیاسی جماعتوں کے داخلی نظا م کو جمہوری بنیادوں پر مضبوط بنایا جائے اور یہ سیاسی جماعتیں کسی فرد واحد کے گرد نہیں بلکہ ایک ادارہ جاتی شکل کو اختیار کرسکیں۔ چہارم قومی سیاست کو ایشوز کی بنیاد پر چلایا جائے۔
سیاسی جماعتیں او ران کی قیادت سیاسی جماعتوں کی سطح پر اپنے سیاسی کارکنوں یا ووٹرز یا حمایت یافتہ افراد کو محض الزامات یا سیاسی دشمنی پر مبنی کھیل کا حصہ بنانے سے گریز کریں ۔ کیونکہ اس کا عملا نتیجہ کمزور جمہوری نظام کی صورت میں نکلتا ہے ۔قومی سیاست کو اس وقت ایک منصفانہ اور شفاف علمی و فکری سطح کا بیانیہ درکار ہے او راس کی تیاری کے لیے قومی سطح پر ایک بڑی مشاورتی عمل او رایک دوسرے کے ساتھ مل بیٹھ کر اتفاق رائے کی سیاست کے خدوخال کو حتمی شکل دینی ہوگی۔
یہ کام محض ریاست یا حکمران طبقات نہیں کریں گے او ران کے سامنے کئی طرح کی سیاسی مجبوریاں بھی ہوںگی مگر جب تک ریاست کے دیگر فریقین جن میں سول سوسائٹی او رمیڈیا سمیت علمی وفکری ادارے یا نوجوان نسل ایک بڑے دباو کی عملی سیاست کو پیدا نہیں کریں گے ، سسٹم کا درست سمت میں آگے بڑھنا مشکل ہوگا۔
اس لیے اب وقت آگیا ہے کہ ہم ماضی اور حال کا جذباتیت کے بجائے ٹھوس او رکھلے ذہن کے ساتھ تجزیہ کریں اور جو غلطیاں یا حکمت عملی کو ہم نے ماضی میں اختیار کیا او رجو کارگر ثابت نہیں ہوسکیں تو ان کا متبادل راستہ اختیا رکرنا ہوگا۔ جو بھی لوگ ماضی اور حال کے سبق سے کچھ بھی سیکھ کر آگے بڑھنے کی کوشش کرتے ہیں وہی قوتیں یا ریاست مستقبل کے مثبت راستے بھی تلاش کرلیتے ہیں , یہ ہی قومی مفاد میں ہوتا ہے۔