حکمرانان ِ برطانیہ سے سکھ قوم نالاں
برطانوی حکمران طبقہ بھارتی معاشی قوت کے سامنے سرنگوں ہو کر اس کا باج گذار بن گیا…سنسنی خیز رپورٹ
اس سال ماہ مارچ میں لندن ، برطانیہ میں ہزارہا سکھوں نے اپنی مجوزہ آزاد ریاست، خالصتان کے حق میں بھارتی سفارت خانے کے سامنے زبردست مظاہرے کیے تھے۔
ایک احتجاج کے دوران ایک دلیر سکھ سفارت خانے کی چھت پہ چڑھا، وہاں لہراتا بھارتی ترنگا جھنڈا اتار کر دور پھینکا اور اس کی جگہ خالصتان کا جھنڈا لہرا دیا۔ بعد ازاں انکشاف ہوا کہ یہ جی دار سکھ پینتیس سالہ جوان اوتار سنگھ کھنڈا تھا۔
اس واقعے کے بعد اوتار سنگھ بھارتی خفیہ ایجنسی، را کا خاص ٹارگٹ بن گیا۔بھارتی میڈیا کی رو سے وہ خالصتان کے قیام کی خاطر سرگرم، خالصتان لبریشن فرنٹ کا رہنما اور آزادی پسند امرت پال سنگھ کے ساتھی تھے جنھیں بھارتی حکومت نے قید کر رکھا ہے۔ماہ جون میں اچانک اوتار سنگھ کو برمنگھم شہر کے اسپتال لایا گیا۔ چوتھے دن وہ چل بسے ۔ اسپتال انتظامیہ کے مطابق وہ کینسر (acute myeloid leukaemia)میں مبتلا تھے۔
یہ بات مگر اوتار سنگھ کے اہل خانہ اور ساتھیوں نے تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ متوفی سوا چھ فٹ لمبے تندرست جوان تھے۔ کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ وہ کینسر جیسے مرض میں گرفتار ہیں جو رفتہ رفتہ انسان کو اپنا نشانہ بناتا ہے۔اوتار سنگھ پھر کیونکر چار دن میں اس موذی بیماری کے ہاتھوں چٹ پٹ جان ہار بیٹھے؟اسی باعث ان کے اہل خانہ اور ساتھی جان گئے کہ دال میں کچھ کالا ہے۔
اوتار سنگھ کی والدہ، چرن جیت کور نے سب سے پہلے یہ خیال ظاہر کیا کہ را کے ایجنٹوں نے ان کے راج دُلارے کو ایسا خطرناک زہر دیا ہے جو اپنے پیچھے کینسر سے ملتی جلتی علامات چھوڑ جاتا ہے۔یوں معلوم نہیں ہو پاتا کہ ٹارگٹ زہر کی وجہ سے ہلاک ہوا ہے۔ سب یہی سمجھتے ہیں کہ کینسر نے اس کی جان لے لی۔
خالصتان کے حامی سبھی سکھ لیڈروں نے چرن جیت کور کے دعوی کی تائید کی۔ جب کینیڈین وزیراعظم نے یہ انکشاف کیا کہ کینیڈا کے شہر سرے میں ''را''کے ایجنٹوں نے خالصتان کے حامی سکھ رہنما، ہردیپ سنگھ کو قتل کیا ہے تو اوتار سنگھ کے اہل خانہ کو یقین ہو گیا، ان کی موت کے پیچھے بھی بھارتی خفیہ ایجنسی کے کارندوں کا ہاتھ ہے۔
اوتار سنگھ کا علاج سرکاری برمنگھم اسپتال میں ہوا تھا۔ اس کی انتظامیہ کا مگر اصرار ہے کہ متوفی کی موت کینسر کے ہاتھوں ہوئی۔ اس اصرار نے خالصتان کے حامی سکھ لیڈروں کو یقین دلا دیا کہ برطانوی حکومت کے دباؤ پر اسپتال انتظامیہ سچائی چھپا رہی ہے۔
جبکہ برطانوی اسٹیبلشمنٹ پہ بھارت کا زبردست دباؤ ہے کہ وہ برطانیہ میں خالصتان کے حامی سکھوں کو اپنی سرگرمیاں جاری کرنے سے روک دے۔یہ یاد رہے کہ برطانیہ میں بھارت اور کینیڈا کے بعد سکھوں کی تیسری بڑی تعداد بستی ہے جو سوا پانچ لاکھ سے زیادہ ہے۔
تاریخ سے عیاں ہے کہ روایتی طور پہ برطانوی حکمران طبقے کا جھکاؤ بھارتی حکمران طبقے کی طرف رہا ہے۔ مثال کے طور پہ جب 27 اکتوبر 1947ء کو بھارت نے ریاست جموں وکشمیر پہ قبضے کے لیے سری نگر ہوائی اڈے پہ فوج اتار دی تو گورنر جنرل پاکستان، قائداعظم محمد علی جناحؒ نے پاک فوج کے عارضی چیف، جنرل ڈگلس گریسی کو حکم دیا کہ وہ بھی فوجی دستے سری نگر بھجوا دیں۔ اس برطانوی جنرل نے مگر انکار کر دیا ۔ یوں برطانوی اسٹیبلشمنٹ کی کھلی حمایت سے بھارت جموں وکشمیر پہ قبضہ کرنے میں کامیاب رہا جہاں مسلمانوں کی اکثریت تھی۔
دور جدید کے برطانوی حکمران بھی بھارت کی ہر ممکن مدد وحمایت کرتے ہیں۔اب تو وہاں اسٹیبلشمنٹ کے دو اہم ترین عہدوں ، وزیراعظم اور وزیر داخلہ پر بھارتی نژاد اہلکار فائز ہیں۔ اسی لیے برطانیہ میں آباد سکھ برطانوی حکومت کی بھارت نوازی اور قانون و انصاف سے بے نیازی کے باعث نالاں ہو چکے۔وہ کینیڈا کے جوان مرد وزیراعظم، جسٹین ٹروڈو کو سراہتے ہیں جو بھارتی حکمران طبقے کی آمریت و غرور کے سامنے کھڑا ہوا اور اپنی مملکت میں بستے سکھوں کے لیے مضبوط ڈھال بن گیا۔ کینیڈین حکومت سکھوں کو بھارتی حکمران طبقے کی دہشت گردی اور ظلم وستم سے محفوظ رکھنے کے لیے ہر ممکن اقدام کر رہی ہے۔
برطانیہ میں مگر خصوصاً خالصتان کے حامی سکھ اپنے آپ کو غیر محفوظ سمجھتے ہیں۔ انھیں یقین ہے کہ بھارتی خفیہ ایجنسی، را کے ایجنٹ کسی بھی وقت ان کو نشانہ بنا سکتے ہیں جبکہ برطانوی سیکورٹی انھیں کوئی تحفظ فراہم نہیں کرے گی۔
اسی لیے برطانیہ میں ہزارہا سکھ خالصتان تحریک کے لیے نرم گوشہ رکھنے کے باوجود اس کی کھلی حمایت نہیں کرپاتے۔ انھیں خوف ہے کہ تب وہ ''را''کی نظروں میں آ جائیں گے۔ را ایجنٹ پھر ان کی اور ان کے اہل خانہ کی جانوں کے درپے ہو سکتے ہیں۔
برطانیہ کے سکھ رہنما، گرپیت سنگھ جوہل کا معاملہ ہی دیکھیے۔ وہ ایک وکیل ہیں۔ چھ سال قبل ان کا بھائی، جگتر سنگھ بھارتی پنجاب گیا ۔ وہ وہاں کی کسی اچھی لڑکی سے بیاہ کرنا چاہتا تھا۔ وہ تحریک خالصتان کا سرگرم کارکن تھا۔ بس یہی اس کا جرم بن گیا۔ بھارتی حکومت نے اسے ''دہشت گرد ''قرار دے کر پکڑا اور جیل میں ڈال دیا۔
بھارت میں لاقانونیت کی انتہا دیکھیے کہ دو سال تک جگتر سنگھ کو یہ نہیں بتایا گیا کہ اس کا جرم کیا ہے۔ گرپیت سنگھ کی زبردست بھاگ دوڑ کے بعد ان کے بھائی پہ چارج شیٹ ڈالی گئی مگر آج بھی مقدمہ چلنے کے دور دور تک آثار نہیں۔ بھارتی اسٹیبلشمنٹ گویا جگتر سنگھ کو ہمیشہ جیل میں رکھنا چاہتی ہے۔
گرپیت سنگھ اپنے بھائی کو بھارتی حکمرانوں کی قید سے رہا کرانے کے لیے سیاست میں آ گئے۔مقصد یہ تھا کہ اپنا اثرورسوخ بڑھا کر وہ برطانوی حکومت کو مجبور کریں ، وہ بھارت پر دباؤ ڈال کر جگتر سنگھ کو رہا کرا لے۔ گرپیت سنگھ فی الوقت سکاٹ لینڈ کے شہر، ڈمبرٹن میں کونسلر ہیں۔ سیاست میں پہنچ کر بھی ان کی کوششیں رائگاں گئیں اور ان کا بھائی اب تک بھارتی جیل میں مظالم سہہ رہا ہے۔ وہ کہتے ہیں:
''میں کینڈین وزیراعظم کو سلیوٹ کرتا ہوں جو اپنے شہریوں کو تحفظ دینے کے لیے بھارتی آمرانہ حکومت سے جا ٹکرائے۔جبکہ برطانوی حکومت اپنے شہریوں کی حفاظت کے لیے کھڑی نہیں ہو سکی بلکہ بھارتی حکمرانوں کے کہے پہ عمل کرتی ہے۔''
برطانیہ میں ایک غیر سرکاری تنظیم''ریپرائیو''(Reprieve) سرگرم عمل ہے۔ ممتاز وکلا اور انویسٹی گیٹو صحافی اس تنظیم سے وابستہ ہیں۔ تنظیم کا کہنا ہے :''ہمارے پاس اس امر کے ثبوت موجود ہیں کہ برطانوی خفیہ ایجنسیوں کی اطلاع پر بھارت میں جگتر سنگھ کو گرفتار کیا گیا۔ گویا سکھ رہنما کی گرفتاری میں براہ راست برطانوی حکومت ملوث ہے۔''یہ حقیقت خصوصاً ان سکھوں کے لیے برطانوی سرزمین خطرناک بنا ڈالتی ہے جو تحریک خالصتان کے حامی ہیں۔
سکھوں کی تنظیموں کے علاوہ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ادارے بھی جگتر سنگھ کی گرفتاری کے معاملے میں برطانیہ اور بھارت ، دونوں کو تنقید کا نشانہ بنا چکے۔ ان اداروں کے محققین کا کہنا ہے کہ جگتر سنگھ کو محض شک کی بنیاد پہ گرفتار کیا گیا اور ابھی تک اس کی رہائی عمل میں نہیں آئی جو قانون اور عدل وانصاف کے قتل کے مترادف ہے۔گرپیت سنگھ کا کہنا ہے:
''یہ ظاہر ہے کہ برطانوی حکومت کی توجہ اس امر پہ ہے کہ بھارت کے ساتھ تجارتی معاہدہ طے پا جائے۔ اسے اس بات کی کوئی پروا نہیں کہ بھارتی حکمران طبقہ برطانوی شہروں پہ ظلم وستم ڈھا رہا ہے۔''
یہ واضح رہے کہ ہندومت اور سکھ مت دو مختلف مذاہب ہیں۔ مگر سکھوں کا مغل حکومت سے تصادم ہو گیا جس نے انھیں ہندوؤں کے قریب کر دیا۔ بعد ازاں جون 1984ء سے دونوں مذاہب کے درمیان ٹکراؤشروع ہوا جب بھارتی حکومت نے سکھوں کے متبرک مقام ، ہرمندر صاحب پہ حملہ کر دیا۔ تب سے بھارتی اسٹیبلشمنٹ اور سکھوں کی لڑائی میں تقریباً دس ہزار سکھ ہلاک ہو چکے۔ خالصتان کے حامی ان مقتول سکھوں کو ''شہید ''کہتے ہیں۔
کینیڈا، برطانیہ، امریکا،اٹلی اور دیگر ممالک میں آباد لاکھوں سکھ اب ایک نئی آفت اور مصبیت کا شکار ہو چکے۔وہ یہ کہ بھارت اب دنیا کی ایک بڑی معاشی طاقت بن گیا ہے۔ہر ملک اس سے تجارتی تعلقات بڑھانا چاہتا ہے۔ امریکا کی تو کوشش ہے کہ وہ چین اور بھارت کو آمنے سامنے لائے تاکہ ان کے تصادم سے مغرب کو فائدہ پہنچ سکے۔ اسی لیے بھارتی حکمران طبقے کے اثرورسوخ میں بہت اضافہ ہو چکا۔
اسی قوت کو بروئے کار لاتے ہوئے بھارتی حکومت سکھوں کی زیادہ آبادی والے ملکوں کی حکومتوں پہ دباؤ ڈال رہی ہے کہ وہ خالصتان کی حامی سکھ تنظیموں کو کام نہ کرنے دے اور ان پہ پابندی لگا دے۔ چونکہ کینیڈامیں بھارت سے باہر سب سے زیادہ سکھ آباد ہیں لہذا وہاں تو ''را''نے اپنا نیٹ ورک بھی قائم کر لیا جو سکھ آزادی پسند رہنماؤں کو قتل کر رہا ہے۔
کینیڈین اسٹیبلشمنٹ نے کچھ عرصے تو ''را''کی غیرقانونی اور ناجائز سرگرمیاں برداشت کیں مگر جب اس کی خودمختاری اور سیکورٹی داؤ پہ لگ گئی تو اسے کھل کر بھارت کے خلاف بولنا پڑا۔ اس واقعے نے بھارتی حکمران طبقے کو احساس دلایا ہو گا کہ ابھی وہ امریکا کی طرح سپرپاور نہیں بنا جو عموماً بلاروک ٹوک کسی بھی مملکت میں من چاہی سرگرمیاں انجام دے سکتا ہے۔ مغربی ممالک ویسے بھی اپنی خودمختاری و اقتدار اعلی کو بہت اہمیت دیتے ہیں۔
ایک اور مسئلہ یہ ہے کہ بھارتی خفیہ ایجنسی را بیرون ممالک ان سکھوں کو بھی نشانہ بنا رہی ہے جو تحریک خالصتان سے براہ راست تعلق نہیں رکھتے ، بس کبھی کبھی اظہار ہمدردی کر دیتے ہیں۔ گویا بھارتی اسٹیبلشمنٹ نے اب بیرون ممالک مقیم سبھی سکھوں کو اپنا دشمن قرار دے ڈالا ہے۔اسی لیے پچھلے چند سال سے وہ سکھوں کے خلاف بہت سرگرم عمل ہے یہاں تک کہ اس وجہ سے بھارت اور کینیڈا کے مابین کشیدگی پیدا ہو گئی۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ سکھ قوم کو نشانہ بنا کر انتہا پسند نریندر مودی کی زیرقیادت بھارتی حکومت نے ایک زبردست غلطی کر دی ۔ پہلے لاکھوں نوجوان سکھ تحریک خالصتان سے لاتعلق تھے۔ اب وہ اس تحریک کے لٹریچرکا مطالعہ کریں گے۔ وہ جانیں گے کہ بھارتی اسٹیبلشمنٹ نے سکھ قوم پہ کیسے کسیے ظلم ڈھائے ۔ تب وہ بھی اس تحریک میں شامل ہو سکتے ہیں۔یوںتحریک آزادی خالصتان میں نئی جان پڑ جائے گی۔