دو پاکستان
آج وطنِ عزیز میں غریب کو چکی میں پستے ہوئے دیکھ کر کبیر داس کو داد دینا پڑ رہی ہے
بھگت کبیر نے سالہا سال پہلے کہا تھا ؎
چلتی چاکی دیکھ کے دیا کبیرا روئے
دو پاٹن کے بیچ میں ثابت بچا نہ کوئے
کبیر کے اِس دوہے کا سادہ ترجمہ یہ ہے کہ چلتی ہوئی چکی کو دیکھ کر کبیر رو پڑا کیونکہ چکی کے دونوں پاٹوں کے درمیان جو بھی آگیا وہ ثابت نہیں رہا۔
آج وطنِ عزیز میں غریب کو چکی میں پستے ہوئے دیکھ کر کبیر داس کو داد دینا پڑ رہی ہے۔ کوئی دن ایسا نہیں جاتا جب کوئی بھی اچھی خبر پڑھنے یا سننے کو ملے۔ تازہ ترین خبر یہ ہے کہ بجلی کے نِرخوں میں مزید اضافہ کیا جارہا ہے۔
آپ نے بھی شاید دیکھا ہوکہ بجلی کے کھمبوں پر ایک خبردار کرنے والی تصویر آویزاں ہوتی ہے جس میں ہڈیاں اور کھوپڑی دکھائی جاتی ہے اور اِس کے ساتھ ہی440 وولٹ لکھا ہوا ہوتا ہے جس کا مطلب عوام کو بجلی کے کرنٹ سے ہوشیار رہنے کی تاکید کی جاتی ہے کہ اگر احتیاط نہ برتی گئی تو اِس کا انجام یہی ہوگا۔اب معاملہ یہ ہے کہ بجلی کے بِل کو دیکھتے ہی 440 وولٹ کا جھٹکا لگتا ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عوام کو یہ جھٹکے کس قصور کی پاداش میں لگائے جا رہے ہیں اور یہ لامتناہی جھٹکے کب تک لگائے جاتے رہیں گے۔ حکومت چاہے جو بھی ہو اور جس کسی کی بھی ہو عوام سے کسی کو بھی کوئی دلچسپی نہیں۔
اب تک کے ریکارڈ سے یہی ثابت ہے کہ ہر حکومت نے عوام کو محض بہلانے پھسلانے اور روشن مستقبل کے خواب دکھا کر ٹرخانے کے علاوہ عملاً کچھ بھی نہیں کیا۔ کسی نے روٹی، کپڑا اور مکان کے نعرے اورکسی نے تبدیلی لانے کا وعدہ کرنے کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں کیا۔ اب جب کہ عام انتخابات کا ڈول ڈالا جارہا ہے، وہی پرانے شکاری عوام کو ایک بار پھر پھنسانے کے لیے نئے جال لے کر آنے والے ہیں۔
تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق مہنگائی 4 ماہ میں بلند ترین سطح پر جا چکی ہے جب کہ شرح 31.4 فیصد رہی۔ گزشتہ سال ستمبر کے مقابلے میں بجلی کا یونٹ 164 فیصد زیادہ مہنگا، گیس کی قیمت پچھلے برس کے مقابلے میں 63 فیصد زیادہ اور پٹرول 324 روپے لیٹر ہو گیا۔ نصابی کتب 102 فیصد مہنگی ہوئیں، اشیائے خورونوش کی قیمتیں بھی بلند رہیں، شہروں میں مہنگائی کی شرح 2907 اور دیہی علاقوں میں 34 فیصد تک ہوگئی ہیں۔
شرح سود کو بائیس فیصد پر بلند رکھنے سے خزانے اور کاروباری اداروں پر بھاری لاگت کے باوجود وسیع مارجن کے ساتھ افراطِ زر کا ہدف 21 فیصد ہے۔ کرنسی کی قدر میں کمی، ذخیرہ اندوزی اور منافع خوری پر کوئی دباؤ نہ ہونے کی وجہ سے مئی میں پاکستان کی سالانہ مہنگائی کی شرح تاریخ کی بلند ترین سطح 38 فیصد تک پہنچ گئی۔
نگران وزیرِ خزانہ ڈاکٹر شمشاد اختر نے گزشتہ ہفتے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کو بتایا کہ گزشتہ مالی سال تک 95 ملین افراد یا تقریباً 40 فیصد آبادی غربت کی زندگی گزار رہی ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ بے روز گاری کی شرح 6.3 فیصد سے بڑھ کر 10 فیصد تک پہنچ گئی ہے۔ مسلم لیگ ن کی سابقہ حکومت نے چینی برآمد کرنے کے غلط فیصلے کیے۔
مرکزی بینک نے شرح سود 22 فیصد مقرر کی تھی جو کہ پاکستان کی تاریخ میں سب سے زیادہ ہے لیکن وہ انڈیکس کو گرفت میں نہیں لے سکا، شرح سود میں مسلسل اضافے کے باوجود بنیادی مہنگائی میں کمی نہیں آئی اور نہ آنے کے آثار نظر آرہے ہیں۔پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں مسلسل اضافے کی وجہ سے ٹرانسپورٹ کنزیومر پرائس گروپ کے لیے افراطِ زر کی شرح 31 فیصد رہی۔ آٹے کی قیمتوں میں 88 فیصد تک اضافہ دیکھا گیا۔ مصالحہ جات کی قیمتوں میں 79 فیصد جب کہ چائے کے نرخوں میں 73 فیصد اضافہ ہوا ہے۔
پی بی ایس کے مطابق چاول کی قیمت میں تقریباً دو تہائی اضافہ ہوا ہے۔ نان فوڈ کیٹیگری میں بجلی کے چارجز میں 164 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ ادارہ شماریات کی رپورٹ کے مطابق رواں مالی سال کے جولائی تا ستمبر کے دوران افراطِ زر کی اوسط شرح 29 فیصد رہی، جو کہ رواں مالی سال کے 21 فیصد کے سرکاری ہدف سے کہیں زیادہ ہے۔
عوام کی غالب اکثریت کی حالت یہ ہے کہ گنجی نہائے کیا اور نچوڑے کیا۔ کبھی حکومتوں کا سلوگن یہ ہوا کرتا تھا کہ '' غربت مٹاؤ'' لیکن اب یہ سلوگن تبدیل ہوکر '' غریب مٹاؤ '' ہوگیا ہے جس کا سیدھا سا مطلب یہ ہے کہ نہ رہے گا بانس، نہ بجے گی بانسری۔پاکستان ایک نہیں بلکہ دو ہیں، ایک غریب کا پاکستان اور ایک امیر کا پاکستان۔ ایک حاکموں کا پاکستان اور دوسرا محکوموں کا۔
شیخ ابراہیم ذوق نے جو کہا تھا وہ وطنِ عزیز کے عوام پر لفظ بہ لفظ صادق آرہا ہے۔
اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ مر جائیں گے
مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے
جینا تو جینا انسان کے لیے مرنا بھی مشکل ہورہا ہے۔ عام آدمی کے لیے کفن دفن کے اخراجات برداشت کرنے کی بھی سکت باقی نہیں رہی ہے۔ کفن کے دام بھی مہنگے ہوچکے ہیں اور تدفین کرنا بھی ایک سنگین مسئلہ بن گیا ہے۔ قبرستان مُردوں سے لبالب بھر چکے ہیں اور قبر کا بندوبست بھی محال ہوگیا ہے۔قبر کی تلاش کے لیے جس قبرستان میں بھی جائیں وہاں مایوسی کے سوائے اور کچھ نہیں ملتا۔ قبریں بھی مہنگی سے مہنگی ملتی ہیں اور وہ بھی خوشامدوں کے بعد۔ گورکن قبر کی فراہمی کے لیے منہ مانگے دام طلب کرتے ہیں۔ وہ جو اکبر الہٰ آبادی نے کہا تھا۔
بتاؤں آپ کو مرنے کے بعد کیا ہوگا
پلاؤ کھائیں گے احباب فاتحہ ہوگا
اب وہ بھی ممکن نہیں رہا ہے کیونکہ تندرستی اور فاقہ مستی کی وجہ سے پلاؤ کا اہتمام تو کُجا تصور کرنا بھی محال ہے۔اِس پر ہمیں ایک واقعہ یاد آرہا ہے۔ ہمارے ایک دوست نے اپنے والد ماجد کے انتقال پر اپنے ایک ملازم کو قبر کا بندوبست کرنے کے لیے قبرستان بھیجا جب گھنٹوں انتظار کرنے کے بعد وہ واپس نہیں آیا تو ہمارے دوست کو تشویش لاحق ہوگئی اور ملازم پر بے حد غصہ آیا کہ نالائق کہیں خود بھی مر تو نہیں گیا۔
ہمارے دوست نے ملازم کو موبائل فون پر خوب جھاڑا اور لتاڑا اور کہا کہ '' او مردود! خیر چاہتا ہے تو لوٹ کر فوراً واپس آجا۔'' ملازم نے واپس آ کر منہ بسورتے ہوئے جواب دیا کہ '' حضور! جان کی اماں پاؤں تو کچھ عرض کروں'' ہمارے دوست نے غصہ سے بے قابو ہوتے ہوئے اُسے مغلظات سے نوازا اور بولے '' بول کیا بکنا چاہتا ہے؟''
ملازم نے ڈر سے کپکپاتے ہوئے کہا کہ '' میں نے کئی قبرستان چھان مارے پرکہیں کوئی قبر نہیں مل سکی کیونکہ سارے قبرستان بھرے ہوئے ہیں اور کہیں کوئی قبر دستیاب نہیں ہے۔'' ہمارے دوست نے کچھ وقفہ کے بعد اپنا بریف کیس اُٹھایا اور ملازم کو ہمراہ لے کر اپنی شاندار گاڑی کے ساتھ ایک مشہور قبرستان جا پہنچے۔
ملازم سے گورکن کو بلوایا اور گورکن سے کہا کہ'' مجھے قبر درکار ہے۔'' گورکن نے ٹکا سا جواب دیا جس پر ہمارے دوست نے کہا کہ'' مجھے قبر نہیں بلکہ مزار کے لیے جگہ درکار ہے۔'' اتنا کہنے کے بعد ہمارے دوست نے اپنا بریف کیس کھولا اور ایک جھلک گورکن کو دکھائی۔ بریف کیس نوٹوں سے بھرا ہوا تھا۔ گورکن پر سکتہ طاری ہوگیا اور کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد اُس نے ہمارے دوست کے پیر چھوئے اور بولا '' مائی باپ! ہم آپ کے تابعدار ہیں۔ آپ میرے ساتھ آجائیں اور جگہ کا انتخاب کرلیں۔''