فلسطین کی مظلوم جنگجو تنظیم حماس نے اسرائیل پر تاریخ کا سب سے بڑا حملہ کرتے ہوئے (تادم تحریر) 900 سے زائد اسرائیلیوں کو جہنم واصل کردیا جبکہ 22 سو سے زائد کو زخمی کردیا ہے۔
یہ حماس کی بڑی کامیابی ہے کہ اس نے اسرائیل کے بہترین دفاعی اور انٹیلی جنس نظام کے ہوتے ہوئے اسے دھول چٹا دی ہے۔ اسرائیل کی خفیہ تنظیم موساد نہ صرف اسرائیل اور فلسطین بلکہ پوری دنیا میں جاسوسی کا نیٹ ورک رکھتی ہے، جسے دنیا کی بہترین انٹیلی جنس ایجنسی سمجھا جاتا ہے۔ لیکن خدا کی لاٹھی بے آواز ہے۔ اتنے بڑے پیمانے پر حماس نے ان کے گھر میں ہی بیٹھ کر تیاری کی مگر انہیں کانوں کان خبر نہ ہوسکی اور اسرائیل کو بری طرح ذلت سے دوچار ہونا پڑا۔
حماس کی اس کامیابی پر جہاں امت مسلمہ خوشی کا اظہار کر رہی ہے وہیں یورپ اور امریکا میں صف ماتم بچھی ہوئی ہے۔ امریکا اور برطانیہ کو اپنا پروردہ بچہ اسرائیل تڑپتا ہوا نظر آیا تو ان کی چیخیں نکل گئیں۔ وہ حماس کی جوابی کارروائی کو دہشت گردی قرار دیتے ہوئے اس کی مذمت کررہے ہیں بلکہ ایسے ایسے ممالک بھی بول پڑے ہیں جن کا دنیا کے کسی معاملے میں کوئی دخل ہی نہیں، یعنی دنیا میں ان کی کوئی حیثیت ہی نہیں ہے۔ جمہوریہ چیک کو کون جانتا ہے یا عالمی سیاست میں اس کا کیا کردار ہے؟ ایسے ہی برازیل وغیرہ جو کبھی فلسطینیوں پر ڈھائے جانے والے اسرائیلی مظالم پر نہیں بولے۔ اس وقت یہ سب اندھے تھے۔ اب جب فلسطینیوں نے اپنا بدلہ لیا تو ان سب کی بینائی لوٹ آئی ہے اور اسرائیل کو مظلوم اور حماس کو دہشتگرد قرار دیتے ہوئے اس حملے کی مذمت کر رہے ہیں۔ جبکہ سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ یہ صرف اور صرف ردعمل ہے ان مظالم کا جو اسرائیل 75 برس سے فلسطینی مسلمانوں پر ڈھا رہا ہے اور پوری دنیا سب کچھ جانتے اور بوجھتے ہوئے بھی آنکھیں بند کیے ہوئے نہ صرف تماشا دیکھ رہی ہے بلکہ انسانی حقوق کے نام نہاد ٹھیکیدار اسرائیل کی باقاعدہ پشت پناہی بھی کر رہے ہیں۔ نہتے فلسطینیوں پر مظالم ڈھانے کےلیے وہ اسرائیل کو اسلحہ اور جنگی ساز و سامان بھی دے رہے ہیں۔
امریکا نے تو نہ صرف حماس کی طرف سے ہونے والے حملوں کی مذمت کی ہے بلکہ اس نے اسرائیل کو مکمل تعاون کی یقین دہانی بھی کرائی ہے۔ اب اس نے اسرائیل کی مدد کےلیے بحری بیڑہ بھیجنے کا بھی اعلان کیا ہے۔ امریکا عالمی امن کا سب سے بڑا دشمن ہے، جس نے ہمیشہ دنیا میں آگ لگانے کا کام کیا ہے۔ دنیا میں کہیں بھی جنگ، خانہ جنگی یا دہشتگردی کے واقعات ہوں، ان کے تانے بانے کہیں نہ کہیں امریکا کے ساتھ ضرور جاملتے ہیں۔ اسرائیل کی ناجائز ریاست کے قیام میں تو امریکا کا براہ راست ہاتھ تھا، اس کے بعد بھی تمام انسانی حقوق کی پامالیوں کے باوجود اسے بے تحاشا امداد دی اور اس قابل بنادیا کہ وہ خطرناک ہتھیار نہ صرف تیار کررہا ہے بلکہ دیگر ممالک کو فروخت بھی کررہا ہے۔
اب امریکا ایک بار پھر اسرائیل کی ناجائز پشت پناہی کرتے ہوئے اس کی جنگ میں کود رہا ہے اور نہتے فلسطینیوں کو شہید کرنے میں اس کا کھل کر ساتھ دے رہا ہے۔ جو ظلم کی ایک بدترین مثال ہے۔ اسرائیلی حماس کے ہاتھوں پٹنے کے بعد بھیڑیوں کی طرح خونخوار ہوکر نہتے عوام سے بدلہ لینے لگے ہیں اور اب تک 4 سو سے زائد فلسطینی شہریوں کو شہید کرچکے ہیں جبکہ ہزاروں شہری زخمی ہیں۔ امریکا، برطانیہ اور فرانس اب بھی اسرائیل کی مدد کرنے کا برملا اعلان کررہے ہیں، جس سے ان کا مسلمانوں کے خلاف بغض اور تعصب صاف ظاہر ہوتا ہے۔
اب امت مسلمہ کی بہت بڑی ذمے داری ہے کہ وہ فلسطینیوں کی کھل کر حمایت کرے اور ہر طرح کی امداد پہنچائے۔ اگر امریکا اسرائیل کو جنگی سازو سامان فراہم کرنے کا اعلان کرسکتا ہے تو اسلامی ممالک کو بھی یہ حق حاصل ہے کہ وہ فلسطینیوں اور حماس کو اسلحہ اور فوجی امداد پہنچائیں۔ مسلم ممالک اور او آئی سی نے فلسطینیوں کی حمایت تو کی ہے لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ اب زبانی کلامی حمایت کے بجائے اسلامی ممالک کا اجلاس بلایا جائے اور اس میں فلسطینیوں کی مدد کےلیے کوئی مشترکہ لائحہ عمل تیار کیا جائے۔ جس میں امریکا و یورپ کو باور کرایا جائے کہ اگر وہ اسرائیل کےلیے جنگی سامان بھیجیں گے تو مسلم ممالک کو بھی یہ حق حاصل ہوگا کہ وہ اس جنگ میں براہ راست حصہ لیں اور فلسطینیوں اور حماس کو ہر ممکن امداد فراہم کریں۔ یوں کم ازکم نہتے فلسطینیوں کے حوصلے بلند ہوں گے اور اگر امریکا واقعی کوئی شرارت کرتا ہے تو اسلامی ممالک کے سربراہان کو بھی ہرگز پیچھے نہیں ہٹنا چاہیے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔