پنڈارے اور شہر مفتوح
ہم بھی موصوف کو مشورہ دیں گے کہ اب بھی وقت ہے، اپنی جان اورعزت بچاسکتے ہوتو دیر نہ کریں
وہ بیانات تو آپ نے بھی پڑھ لیے ہوں گے جو نومولود، نوعروس اورنوتعمیرپارٹی... پی ٹی آئی پارلیمنٹیرین کے جلسے میں جناب پرویزخٹک اور جناب محمود خان نے دیے ہیں ، خلاصہ ان باتوں کایہ ہے کہ صوبہ خیر پہ خیر میں خیر پخیر بالکل نہیں ہے، دونوں سابق وزرائے اعلیٰ ہیں۔
اس لیے وہ ان اندرونی مقامات سے بھی واقف ہوں گے جو ہم عامی لوگوں کی نگاہوں سے ہمیشہ چھپے رہے ہیں یا رکھے جاتے ہیں،چنانچہ دونوں سابق وزرائے اعلیٰ سے ہمیں پورا پورا اتفاق ہے کہ صوبہ واقعی ''پنڈاروں'' کی زد میں ہے ۔
پنڈارے یا پنڈاری پرانے زمانے میں چوروں ڈاکوؤں پر مشتمل لوگ ہوا کرتے تھے ۔یہ پنڈارے لوگ جو ہرحملہ آورکی فوج کے پیچھے پیچھے چلتے رہتے تھے، کوئی شہر فتح ہوتا تو یہ پنڈارے شہریوں کے پاس کچھ بھی نہیں رہنے دیتے تھے، گھروں کے دروازے کھڑکیاں برتن پانڈے بھی لوٹ لیتے تھے۔
اب اگر ہم اپنے صوبے پر نظر ڈالیں تو یہ کئی برسوں سے پنڈاروں یا پنڈاریوںکی زد پر ہے اورپنڈاریوں کی خوش قسمتی اورعوام کی بدقسمتی ایک انھیں اپنا کام کرنے کے لیے نہ ختم ہونے والا دور ملاہے جو پچھتر سال سے جاری ہے اور نجانے کب تک جاری رہے گا۔ اب تو ویسے ہی صوبے کی باگ ڈور نگرانوں کے ہاتھ میں ہے۔
اب ایسی حالت میں صوبے کو پنڈاروں سے بچانا کچھ ناممکن سالگتاہے اگر موصوف خود پرہیزپربھی ہوں تو دوسروں کو تو نہیں روک سکتے ، یہ انتہائی مشکل کام ضیاء الحق جیسے دبنگ سے بھی نہیں ہوسکا جب وہ کسی ہائی فائی قسم کی تقریب میںشامل ہوتے تو خورونوش کے وقت خود کہیں خلوت نشین ہوجاتے تاکہ دوسرے اپنامعمول جاری رکھ سکیں۔
ہمیں نگران اعلیٰ سے ہمدردی ہے کہ ان سے ہمارا بھی ایک دورکارشتہ رہاہے جب موصوف ریٹائرہوگئے تو انھوں نے پشتو ادبی بورڈ کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا ، ایک مجلہ بھی چلایا مطلب یہ کہ ان کے ارادے نیک تھے لیکن وہ مقاصد حاصل نہ کیے جاسکے جو ضروری تھے۔ جب ہم نے ان کے اردگرد ان لوگوں کو دیکھا تو ایک دومرتبہ چاہا کہ ان سے جاکر ملیں الیکن کوتاہی ہوئی ہم اپنے ارادے کوعملی جامہ نہ پہنا سکے ۔
دل حسرت زدہ تھا مائدہ لذت درد
کام یاروں کابقدرلب ودندان نکلا
پشتومیں ایک کہاوت ہے کہ کھیت کو چڑیوں نے تباہ کیا اوربدنام کوے ہوئے ۔ اوراب ایک مرتبہ پھر وہ ایسی صورت حال میں گھر چکے ہیں حالانکہ ایک مرتبہ تصیح بھی کرچکے ہیں لیکن بقول نیوزریڈر مرحوم شکیل احمد کہ ۔۔معاف کیجیے میں اس خبر کو پھر سے غلط پڑھتاہوں۔
ایک لطیفہ بلکہ حقیقہ یاد آیا ،ایک دوست کی شادی تھی ، عین ولیمہ کے وقت ایک اوردوست نے پکڑ کو سمجھایا ،دیکھو اب بھی وقت ہے بھاگ سکو تو بھاگ لو ورنہ عمر بھر ہاتھ سر پر رکھ کر روؤگے۔کہ دوستوں نے مجھے سمجھایا نہیں۔ اور ایسا ہی ہوااسی نے ہمت نہیںدکھائی بھاگنے کی ، بھاگ جاتا تو شاید بہتر رہتا مگر آج کل بچارا مسجد کا ایک کونہ پکڑ کربیٹھا ہواہے ، بیوی بیٹوں اوربہوؤں نے اسے گھر سے نکالا ہوا ہے۔
ہم بھی موصوف کو مشورہ دیں گے کہ اب بھی وقت ہے، اپنی جان اورعزت بچاسکتے ہوتو دیر نہ کریں ورنہ پھر نہ کہنا ہمیں خبر نہیں ہوئی وہی ادبی بورڈ کی سی صورت حال اب بھی ہے بلکہ اس سے زیادہ خراب صورت حال ہے وہ شاعر وغیرہ تھے جو تھوڑے میں صبر کرگئے لیکن یہ تازہ ترین حملہ آور پنڈارے صبر کرنے والوں میں نہیں ہیں ، یہ آپ کی چادر اورپگڑی بھی لوٹ کر لے جائیں گے ۔