کشور ناہید سچ کے سوا کچھ نہ لکھو
ٹوپی گرنے سے توکوئی فرق نہیں پڑتا، اس لیے کہ ہمارے یہاں سب ہی ٹوپی اور پگڑی بدل بھائی ہوتے ہیں
کشور ناہید 1940 میں پیدا ہوئیں۔ جس شہر میں انھوں نے آنکھ کھولی، اس کا نام بلند شہر تھا۔ لوگ بتاتے ہیں کہ وہ اسی طرح بلند رہا لیکن کشور نے وہ قامت نکالا کہ دیکھنے والے ان کی بلندی کو دیکھنے کے لیے ٹوپی ہاتھ سے تھام لیتے ہیں۔ ایسا نہ کریں تو ٹوپی گر جانے اور گردن ٹوٹ جانے کا خطرہ ہوتا ہے۔
ٹوپی گرنے سے توکوئی فرق نہیں پڑتا، اس لیے کہ ہمارے یہاں سب ہی ٹوپی اور پگڑی بدل بھائی ہوتے ہیں دوپٹہ بدل بہنوں کا رواج گھروں میں چلتا تھا، اب دوپٹے ہیں تو وہ زمانے کی ہوا کے ساتھ اڑ گئے تو کون دوپٹوں کو روئے۔ کشور ناہید ہر دو تین سال بعد آنے بہانے ہمارے شہرکا بھی پھیرا ڈالتی ہیں۔
اس مرتبہ آئیں تو ہماری انجمن ترقی اردو کے صدر جناب واجد جواد نے انھیں بسر و چشم کہتے ہوئے انجمن کے '' اردو باغ'' میں قدم رنجہ فرمانے کی دعوت دی۔ وہ آئیں اور اپنی تازہ ترین نثری کتاب ''سوچ سے خوف کیوں'' مجھے عنایت کی۔ گزشتہ برس وہ اپنا شعری مجموعہ '' شیریں سخن سے پرے'' لے کر آئی تھیں۔
ان کا کمال یہ ہے کہ نام کچھ رکھتی ہیں اور اسے کھول کر پڑھیں تو بات کچھ اور نکلتی ہے۔ ان کا پہلا مجموعہ '' لب گویا'' تھا، جس میں انھوں نے سہج سہج حال دل بیان کیا تھا۔ اس کے بعد اپنی خود نوشت '' بری عورت کی کتھا'' لکھی تو ادبی اور غیر ادبی حلقوں میں سنسنی پھیل گئی۔ بعد میں اسے پڑھنے والے اداس ہوئے اس کے صفحات میں بری عورت سے تو کہیں ملاقات نہ ہوئی۔ ایک جفاکش اور جان پر کھیل کر سچ بولنے والی عورت ضرور نظر آتی ہے۔
کشور کا تخلیقی سفر غزلوں سے شروع ہوا تھا:
مانوس ہو چلی ہے اداسی سے زندگی
پاؤں کے آبلوں کا نظارہ تو ہے ابھی
اور پھر وہ نظموں کی طرف آئیں اور اس میدان میں انھوں نے کشتوں کے پشتے لگا دیے۔ ان کی بعض نظمیں اسکولوں اور کالجوں کی لڑکیوں میں ترانوں کی طرح مقبول ہوئیں۔
یہ ہم گناہگار عورتیں ہیں
جو اہل جبہ کی تمکنت سے نہ رعب کھائیں
نہ جان بیچیں
نہ سر جھکائیں
کشور ناہید ہم تمام لوگوں کے لیے ان جانی نہیں۔ انھیں ان کے دوستوں کے علاوہ ان کے دشمن بھی اچھی طرح پہچانتے ہیں۔
وہ عمر کے 80 برس سے زیادہ کی ہو چکیں۔ اس دوران انھوں نے کیا شہرت اور کیا عزت کمائی ہے۔ اس مرتبہ جب وہ ہمارے '' اردو باغ'' آئیں تو ساتھ اپنے کالموں اور نثری تحریروں کا مجموعہ ساتھ لائیں اور اس پر یہ فرمائش بھی لکھ دی کہ '' پیاری زاہدہ ٹھیک ہوجاؤ''یہ دراصل فرمائش نہیں '' ڈانٹ پھٹکار ہے۔'' انھوں نے مہنگائی پر ایک کالم لکھا جس کا عنوان تھا۔
'' بلبل بھی پوچھتی ہے میں کہاں رہوں'' اس کالم میں بلبل سے تو ملاقات نہیں ہوئی۔ لیکن مہنگائی تو اس قدر گلے ملی کہ ہم بے ہوش ہوگئے۔
'' پٹرول مہنگا ہوا، اور پھر ہونے والا ہے۔ تو ہم سب دوستوں نے فیصلہ کیا کہ اب ہم سائیکلیں استعمال کریں گے۔ ساتھ ہی خبر آگئی کہ سائیکلوں کی قیمت بھی ہزاروں میں بڑھ گئی ہے۔
اب کیا کریں۔ بازار میں آئل خریدنے گئے تو وہ بھی ہاتھ نہ لگانے دے۔ پھر مل کے بیٹھے کہ اب سرسوں کا تیل کھانے میں استعمال کریں گے پوچھا، اس کی قیمت بھی بڑھ گئی ہے مگر قابو میں ہے۔ چینی اول مل نہیں رہی اور مہنگی تو فیصلہ کیا کہ شکر استعمال کریں گے۔ چلو یہ مسئلہ تو حل ہوا۔ سردیاں آگئی تھیں۔
پرانے نسخوں میں پیٹ کے لیے انجیر کھانے کا مشورہ ملا۔ بازار گئے۔ پتہ چلا 400 روپے کی ایک پاؤ۔ چلغوزے کا پوچھا دو ہزار روپے کے ایک پاؤ۔ آخر کو مونگ پھلی کو بادام سمجھ کر اسی قیمت میں خرید لیا۔ آخر شام کو کھانے کے لیے گڑ کی ریوڑیاں بھی بڑی مشکل سے ملیں۔ اب سوچا چلو دالیں کھانا شروع کریں۔ ارہر کی دال 400 روپے کی آدھا کلو۔ لہسن صرف تڑکا لگانے کے لیے مانگا، اس نے کہا 400 روپے کلو ہے۔ جتنا چاہیں لے لیں۔
بددلی میں پلٹتے ہوئے، آنکھیں ابل پڑیں۔ دسمبر میں میرے بیٹے کی سالگرہ ہے۔ ڈالر اتنا مہنگا ہوگیا ہے کہ 500 بھی نہیں خرید سکتی۔ میرا خیال ہے کہ روحانی طبیب مولانا گردی سے مشورہ کیا جائے کہ وہ منہ میں انگلی ڈال کر عجیب و غریب علاج کرتے ہیں۔
ان سے بھوک مارنے کا تعویذ لیا جائے کہ اس طرح گھر کے اخراجات کم ہوسکیں۔ یہ بھی سنا ہے کہ وہ بہت سے ملکوں سے خوار ہو کر آئے ہیں۔ ویسے پاکستانی تو ہیں ہی پیر پرست، ممکن ہے یہاں ان کی دال گل جائے مگر ہمارے ملک میں دال بھی مہنگی ہے۔ ویسے بھی ان کا دعویٰ ہے کہ وہ روحانی علاج کرتے ہیں۔ دال کی ضرورت نہیں پڑے گی۔''
آخر میں ان سے یہ عرض کردوں کہ ان کے بیٹے کی سالگرہ جس مہینے میں ہے، اس وقت اللہ نے چاہا تو مناسب کمی ہوجائے گی۔ ڈالرکا ایک نوٹ ہاتھ میں تھام کر اس پر اللہ شافی، ھوالکافی پڑھ کر خود ہی دم کردیں۔ ڈالر کی قیمت میں خاطر خواہ کمی ہوگی۔
وہ پاکستان اور ہندوستان کے درمیان امن اور بھائی چارے کی بات کرنے والی کملابھسین کو یاد کرتی ہیں۔ کملا بھسین نے پاکستان اور ہندوستان کے لیے امن اور آشتی کے لے کیا کچھ نہ کیا، پھر وہ کسی فاختہ کی طرح اڑ گئیں۔ کشور نے لکھا۔
آج کل ہندو تو اپنے ملک کے دانشوروں جن میں جاوید اختر اور گلزار بھی شامل ہیں، ان کو بھی دشمن گردان رہے ہیں۔ حنا جیلانی، عاصمہ اور رحمٰن صاحب نے تجویز پیش کی کہ جیسے یورپین یونین، مغربی ممالک نے بنائی ہوئی ہے۔
ویسے جنوبی ایشیائی ممالک کو بھی یونین کی طرح ایک ہو کر غربت، جہالت اور مذہبی جنونیت کو ختم کرنا چاہیے۔ یہاں بھی انڈیا نے، سارک ممالک کی انجمن کی طرح، اس پر بھی، اپنی الگ جھنڈی کھڑی کر دی۔ خیر سے مودی صاحب کسی اجتماعیت میں یقین نہیں رکھتے۔ وہ تو افغانستان میں کروڑوں، اربوں روپے، پاکستان دشمنی کی آڑ میں لگا رہے تھے کہ وسط ایشیائی ملکوں تک، صاف رستہ مل جائے گا۔ چین کے خلاف امریکا کی محبت میں الغور مسلمانوں سے عصیبت کو سامنے لارہے تھے۔
کملا بھسین بات کتنی ہی سنجیدہ کیوں نہ ہو، اس کی ہلکے پھلکے انداز میں ، کبھی لطیفہ بنا کر، کبھی گا کر اور کبھی نعرہ لگا کر موجود لوگوں کوا یسا گرماتی کہ ہنستے ہنستے، آنسو نکل آتے۔ وہ ان آنسوؤں کو دھمال میں بدل دیتی۔ جب جانے والی دوستوں کا سوچتی ہوں تو شہلا نظر آتی ہے، ہر وقت خواتین کے حقوق کے لیے، چشمہ لگائے بیٹھی کام کرتی نظر آتی۔
یہی حال روبینہ سہگل، عاصمہ جہانگیر کا تھا۔ کام کرتے کرتے دنیا سے چلی گئیں۔ جیسے کملا چلی گئی مگر دونوں ملکوں میں نفرتوں کی خلیج چوڑی ہوتی چلی گئی۔ کملا کے بعد، انسان دوستی کا درس دینے والے، پڑھے لکھے خاندان کے سپوت واجد شمس الحسن، چپ چاپ چلے گئے۔ اِدھر زیتون بانو گئیں۔
مجھے یاد ہے روزن کی کانفرنس تھی۔ یہ کوئی دو سال پہلے کا قصہ ہے ایک دروازے سے میں اور آخری دروازے سے کملا گاتی بڑھ رہی تھیں۔ ملن رت آئی۔ آئی رے ملن رت آئی۔'' ہم لوگوں کی جپھیاں بھی ہندوستان، پاکستان، دونوں میں مشہور تھیں۔
کملا کو انڈیا پاکستان میں یاد کرنے والوں میں نتین بوس، ریٹا اور سیدہ سیدین کے علاوہ جاوید نقوی بھی ہوتے، وہ توگھڑی میں خاموش ہوگئے۔ اب تو کامنا پرشاد رہ گئی ہے۔ کبھی فراز کو یاد کرتی تو کبھی جوش صاحب اور فیض صاحب کو یاد کرتی۔ مشاعرے اس کی جان تھے۔ وہ بھی لٹ پٹ گئے۔ زوم کی ایک لہر ہے جو ہم سب کو آواز کے سہارے ملا دیتا ہے۔''
خوش رہو کشور، تم سے یہی کہنا ہے کہ ہمیشہ سچ لکھو اور سچ کے سوا کچھ نہ لکھو۔