حماس‘ اسرائیل‘ مسلم ممالک
او آئی سی کے کردار پر مسلم ممالک پر بہت بات ہوتی ہے لیکن عرب ممالک اس کو اب ایک حد سے زیادہ فعال نہیں کرنا چاہتے
اسرائیل اور حماس کے درمیان لڑائی بڑھتی جا رہی ہے۔ ابھی تک اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل میںبھی جنگ بندی کی قر ارداد سامنے نہیں آسکی ہے۔
دوسری طرف اسرائیل نے غزہ پر اپنے حملوں میں تیزی لائی ہے۔ اس بار اسرائیل کی طرف سے غزہ پر مکمل قبضے کا اعلان کیا ہے۔ اسی مقصد کے لیے پہلے مرحلہ میں غزہ پر شدید بمباری کی گئی ہے۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ پورا غزہ ہی تباہ کر دیا گیا ہے۔
اسرائیل کی جانب سے غزہ کی بجلی پانی کھانے کی رسد اور تیل کی سپلائی بند کر دی گئی ہے۔ ایک طرف غزہ کا محاصرہ کیا جا رہا ہے دوسری طرف وہاں ہر چیز بند کی جا رہی ہے۔ ایسے میں اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ غزہ اس صورتحال کا کتنے دن اور کیسے مقابلہ کر سکتا ہے۔
یہ درست ہے کہ حماس کے موجودہ حملوں میں اسرائیل کا بہت نقصان ہوا ہے۔ ان کی وقتی کامیابی سے انکار ممکن نہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اس وقتی کامیابی کے پیچھے کیا منصوبہ ہے۔ حملوں میں ابتدائی کامیابی کے بعد سب کو اندازہ تھا کہ اسرائیل وحشیانہ بمباری کرے گا۔
اس لیے اس سے نبٹنے کے لیے کیا حکمت عملی تھی۔ فی الحال اس کی کوئی حکمت عملی سامنے نہیں آئی ہے۔ حماس کی جانب سے اسرائیل میں ایسی کوئی پیش قدمی بھی نظر نہیں آئی کہ کہا جا سکے کہ اسرائیل مشکل میں ہے۔ فضائی بمباری سے فلسطین کا بہت نقصان ہوا ہے۔ جب کہ جوابی حکمت عملی نظر نہیں آئی ہے۔
مسلم ممالک اورحماس کو یہ اندازہ بھی تھا کہ امریکا اور مغرب اسرائیل کی مدد کو آجائیں گے۔ امریکا نے بحری بیڑہ روانہ کر دیا ہے۔
یورپ نے بھی فلسطین کی مدد بند کر دی ہے۔ بلکہ آپ کہہ سکتے ہیں کہ فلسطین پر پابندیاں لگا دی گئی ہیں۔ لیکن مسلمان ممالک کا رد عمل حیران کن ہی نہیں افسوسناک بھی ہے۔ یواین سیکیورٹی کونسل سے جنگ بندی کی قراداد سامنے نہ آنے کی وجوہات کا تو اندازہ تھا۔ امریکا اسرائیل کی حمایت میں قرار داد چاہتا ہے۔
روس اور چین دونوں طرف جنگ بندی چاہتے ہیں۔ وہ یک طرفہ اسرائیل کی حمایت میں قرار داد نہیں چاہتے۔ اس لیے جب سیکیورٹی کونسل میں ویٹو کی طاقت رکھنے والے ممالک کے درمیان اختلاف ہو جائے تو ایسا ہی ہوتا ہے۔
ماضی میںجب بھی اسرائیل نے جارحیت کی ہے تو ایسا ہی ہوا ہے۔ امریکا نے اسرائیل کے لیے ایک مرتبہ نہیں کئی بار ویٹو کا حق استعمال کیا ہے۔ لیکن سوال تومسلم ممالک سے ہے۔
قطر حماس اور اسرائیل کے درمیان خواتین قیدیوں کے تبادلے کے لیے کردار ادا کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ فلسطینی خواتین تو کافی عرصہ سے ا سرائیل کی قید میں ہیں۔ لیکن اب حماس نے اسرائیلی خواتین اور بچوں کو بھی قیدی بنا لیا ہے۔
جس کے بعد اب اسرائیل قیدیوں کے تبادلے کے لیے آمادہ نظر آرہا ہے۔ لیکن قطر کی ڈپلومیسی میں ابھی جنگ بند ی کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ غزہ کو کھانے پینے بجلی اور تیل پہنچانے کا کوئی منصوبہ نہیں۔ غزہ کا محاصرہ ختم کرنے کا بھی کوئی منصوبہ نہیں ہے۔
سوال تو یہ ہے کہ مسلم ممالک کی تنظیم او آئی سی سے بھی کوئی سخت ردعمل سامنے نہیں آیا۔ ابھی تک تو او آئی سی کا اجلاس بھی نہیں ہو سکا ہے۔ حالانکہ اب تو زوم پر سب میٹنگ کر سکتے ہیں۔ دنیا کے بڑے بڑے اجلاس زوم پر ہو جاتے ہیں۔
ہم اقوام متحدہ سے کیا گلہ کریں ابھی تک تو جنگ بندی کے لیے او آئی سی سے بھی قرار داد سامنے نہیں آئی ہے۔ او آئی سی کی خاموشی اقوام متحدہ کی خاموشی سے زیادہ افسوسناک ہے۔ اگر مسلم ممالک بھی آج فلسطین اور غزہ کے ستاھ کھڑے ہونے کے لیے تیار نہیں تو مغرب سے کس بات کا گلہ۔
اب تو اکثریتی مسلم ممالک کے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات ہیں۔ لیکن کسی بھی مسلم ملک نے اسرائیل کے سفیر کو واپس نہیں بھیجا۔کسی نے سفارتی سطح پر کوئی خاص احتجاج نہیں کیا ہے۔ کسی نے اسرائیلی سفیر کو بلا کر احتجاج نہیں کیا ہے۔
مسلم ممالک نے رسمی گفتگو تو کی ہے لیکن کسی نے بھی غز ہ کی حمایت میں ایسا کوئی ردعمل نہیں دیا جیسا مغرب اور امریکا نے اسرائیل کی حمایت میں دیا ہے۔ مسلم ممالک تو کہیں نہ کہیں ایسا لگ رہا ہے کہ خود کو اس تنازعہ سے الگ رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ایک کوشش نظر آرہی ہے کہ کہیں اسرائیل ناراض نہ ہوجائے۔
پاکستان کے وزیر خارجہ نے بھی ایک بیان دیا ہے۔ لیکن اس سے آگے کچھ نہیں۔ ہم نے مذمت کرد ی کافی ہے۔پاکستان کے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات نہیں ہیں۔ اس لیے ہم سفارتی سطح پر تو اسرائیل کے ساتھ احتجاج کر ہی نہیں سکتے تھے۔
پاکستان کی اب تو او آئی سی میں بھی وہ پوزیشن نہیں ہے کہ ہم وہاں بھی کوئی کردار ادا کرسکیں۔ ہم تو کشمیر پر او آئی سی کا اجلاس نہیں بلا سکے تھے۔ ہم فلسطین غزہ پر کیسے بلا سکتے ہیں۔ او آئی سی کا اب تنازعات میں وہ کردار نہیں رہا جو پہلے ہوتا تھا۔
او آئی سی کے کردار پر مسلم ممالک پر بہت بات ہوتی ہے۔ لیکن عرب ممالک اس کو اب ایک حد سے زیادہ فعال نہیں کرنا چاہتے۔ اسی طرح عرب ممالک کی تنظیم سے بھی وہ رد عمل نہیں آیا جو پہلے آجاتا تھا۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ اب سب عرب ممالک اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کر چکے ہیں۔ اس لیے عرب ممالک کی خاموشی نظر آئی ہے۔
روس اور ایران کی طرف سے حماس کی حمایت نظر آئی ہے۔ لیکن کب تک اور کس حد تک، یہ اہم سوال ہے۔ ایران کی حمایت محدود ہوتی جائے گی۔ ایران پر دباؤ بھی نظر آئے گا۔روس کتنی مدد کر سکتا ہے۔اس کی مغرب سے لڑ ائی چل رہی ہے۔ وہ اسرائیل سے بھی خوش نہیں ہے۔ لیکن وہ حماس کی کتنی مدد کر سکتا ہے۔
مجھے لگتا ہے روس بھی زیادہ مدد نہیں کر سکتا۔ اس لیے غزہ کی مشکلات میں دن بدن اضافہ ہوتا جائے گا۔ اسرائیل کی جانب سے غزہ پر قبضہ کا اعلان بھی حقیقت بن جائے گا۔ فلسطینیوں کے لیے مشکلات بڑھ جائیں گی۔ اسرائیلی مظالم بڑھتے جائیں گے۔ اور اگلا منظر نامہ کوئی اچھا نہیں ہے۔ حماس کی وقتی کامیابی ایک درست حکمت عملی تھی یا غلط یہ فیصلہ تاریخ اور وقت ہی کرے گا۔