ڈوبتی معیشت سنبھلنے لگی ہے

ڈالر کی بلیک مارکیٹنگ میں کمی سے روپیہ مستحکم ہونے لگا ہے


Editorial October 12, 2023
فوٹو: فائل

نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ کی زیر صدارت کوئٹہ میں صوبائی اپیکس کمیٹی کا اجلاس ہوا، اجلاس کے شرکاء کو نظرثانی شدہ نیشنل ایکشن پلان، اسمگلنگ اور منشیات کے خلاف آپریشن، غیرقانونی مقیم غیر ملکیوں کی ان کی اپنے وطن واپسی سمیت دیگر اقدامات کے حوالے سے آگاہ کیا گیا۔

اس موقع پر آرمی چیف جنرل عاصم منیر کا کہنا تھا کہ معاشی نقصانات روکنے کے لیے فوج پوری قوت سے تعاون کرے گی۔

پاکستانی معیشت کی بحالی کے لیے پاک فوج کے اقدامات کو دنیا سراہنے لگی ہے۔ غیرملکی سرمایہ کار، آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر کی کوششوں پر اعتماد کا اظہارکر رہے ہیں۔ ڈالر کی بلیک مارکیٹنگ میں کمی سے روپیہ مستحکم ہونے لگا ہے۔ کراچی، پشاور اور دوسرے شہروں میں ڈالر کی بلیک مارکیٹ کے خلاف کریک ڈاؤن رنگ لے آیا ہے۔

انٹر بینک اور اوپن مارکیٹ میں کروڑوں ڈالرز کی واپسی ہوئی، جس کے بعد تاریخ کی بلند ترین سطح کو چھونے والا ڈالر1 روپے 5 پیسے سستا ہونے کے بعد 280 روپے 60 پیسے کا ہوگیا۔ پاکستان اسٹاک ایکسچینج کا 100 انڈیکس 405 پوائنٹس کے اضافے سے 48 ہزار 127 کی بلند سطح پر آگیا، جب کہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں نے ستمبر میں 2 ارب 20 کروڑ ڈالر ترسیلات وطن عزیز بھیجی ہیں۔

غیر قانونی کرنسی کے لین دین کے خلاف کریک ڈاؤن اور زر مبادلہ کی کمپنیوں اور برآمد کنندگان سے متعلق ڈھانچہ جاتی اصلاحات نے روپے کی بلندی کی رفتار کو تقویت دینے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ ڈالر کی بلیک مارکیٹنگ کرنے والوں کے خلاف گھیرا تنگ ہونے کے بعد کرنسی مارکیٹ میں روپیہ روز بروز مستحکم ہو رہا ہے۔

واقعات کے ایک حیران کن موڑ میں، پاکستانی روپیہ اس مالی سال کے دوران امریکی ڈالر کے مقابلے میں ایشیا میں بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والی کرنسی بن کر ابھرا ہے، جس نے اپنے علاقائی ساتھیوں کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ اس قابل ذکر کارنامے کو کرنسی کو مستحکم کرنے اور غیر قانونی زرمبادلہ کی سرگرمیوں کو روکنے کے لیے مشترکہ کوششوں کی ایک سیریز سے منسوب کیا جا سکتا ہے۔

MSCI ایشیا ایمرجنگ اینڈ فرنٹیئر مارکیٹس انڈیکس کے اعداد و شمار کے مطابق جو ٹاپ لائن سیکیورٹیز کے ذریعے فراہم کیا گیا ہے۔

اسی مدت کے دوران، کئی دیگر ایشیائی کرنسیوں نے ڈالر کے مقابلے میں اپنی قدر میں کمی دیکھی، ملائیشین رنگٹ، کورین وون، تھائی بھات، اور بنگلہ دیشی ٹکا میں قابل ذکر گراوٹ کا سامنا کرنا پڑا۔ افغان سرحد کی بندش سے اس مثبت رجحان کو مزید تقویت ملی، جس سے اسمگلنگ کی سرگرمیاں خاص طور پر سونے کی شکل میں دولت کی غیر قانونی منتقلی میں کمی آئی۔ سونے کا بھاؤ 12 ستمبر کے بعد جاری کردیا گیا ہے، جس میں فی تولہ قیمت 15500 روپے کم ہوئی ہے۔ اس کمی کے بعد سونے کی فی تولہ قیمت 1 لاکھ 99 ہزار 500 روپے ہوگئی۔

15روز میں فی ٹن سریہ 3 لاکھ روپے سے کم ہوکر 2 لاکھ 70ہزار روپے کا ہوگیا ہے۔ ایران اور افغانستان سے اسٹیل اسمگلنگ کو کریک ڈاؤن کے ذریعے روک دیا گیا ہے، ڈالر مسلسل روپے کے مقابلے میں گرتا جا رہا ہے لیکن اس کے ثمرات عام آدمی تک نہیں پہنچ رہے ہیں آرمی نے مل کر اس معاملے کو کنٹرول کیا ہے لیکن دیگر سول اداروں کو بھی سنجیدگی دکھانا ہوگی۔

ادارہ برائے شماریات پاکستان (پی بی ایس) کے مطابق ستمبر 2023 میں شہری علاقوں میں مہنگائی کی شرح سالانہ بنیادوں پر بڑھ کر 29.7 فیصد ہوئی جب کہ اس سے پہلے کے مہینے میں 25.0 فیصد رہی، اسی طرح گزشتہ سال ستمبر 2022میں مہنگائی کی شرح میں 21.2 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا تھا۔

دراصل افغان ٹرانزٹ کے غلط استعمال کے خلاف کوششیں رنگ لارہی ہیں، افغان ٹرانزٹ ٹریڈ سے پاکستان میں کپڑے، کاسمیٹک ، ٹائر، کالی چائے، میوہ جات اور گھریلو سامان اسمگل ہو رہا تھا، افغان ٹرانزٹ کا غلط استعمال ملکی معیشت اور صنعتی افرادی قوت کو بے روزگار کررہا تھا، ملک کو ڈیوٹی اور ٹیکسوں کی مد میں بھی نقصان ہو رہا تھا۔ حد تو یہ ہے کہ افغانستان میں جو صنعتیں نہیں ان کا خام مال بھی ٹرانزٹ ٹریڈ میں آرہا ہے۔

بلیک مارکیٹ کی سرگرمیوں سے نمٹنے کے لیے پاکستان کے مرکزی بینک اور سیکیورٹی فورسز کی جانب سے فوری کارروائی نے ایک قابل ذکر بحالی کو جنم دیا۔

پاکستان میں اشیا کی غیر قانونی آمدورفت کو روکنے کے لیے حکومت نے افغان ٹرانزٹ ٹریڈ معاہدے کے تحت درآمد کی جانے والی اشیا پر 10فیصد پراسیسنگ فیس عائد کرنے کا فیصلہ کیا تھا جب کہ افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے ذریعے 200 سے زائد اشیا افغانستان لے جانے پر پابندی عائد کی تھی۔ پاکستان نے ان خبروں اور افغان حکام کے دعوؤں کی تردید کی ہے کہ دوطرفہ تجارت اور ٹرانزٹ ٹریڈ کی راہ میں کسی طرح کی رکاوٹیں حائل کی جا رہی ہیں۔

دوسری جانب پاکستان نے غیر قانونی طور پر مقیم تارکین وطن، جن میں افغان باشندے بھی شامل ہیں، کو یکم نومبر تک ملک چھوڑنے کا حکم دے رکھا ہے، پاکستان کے وفاقی نگران وزیر داخلہ نے رواں ہفتے کہا تھا کہ ملک میں اس سال ہونے والے 24 میں سے 14 خودکش حملوں میں افغان شہری ملوث تھے، جب کہ صوبہ خیبر پختونخوا میں پولیس سربراہ انسپکٹر جنرل نے بتایا کہ رواں سال خودکش حملوں کی فرانزک رپورٹس سے معلوم ہوا ہے کہ صوبے میں 15 خودکش حملوں میں سے 10 میں افغان شہری ملوث تھے۔

پاکستان کے دیگر حصوں میں ہونے والے نو خودکش حملوں میں سے بھی اکثریت افغان شہریوں کی ہے۔ پاکستانی حکومت کے مطابق ملک میں اس وقت 17 لاکھ سے زائد افغان بغیر قانونی دستاویزات کے مقیم ہیں جب کہ لگ بھگ 14 لاکھ ایسے ہیں جنھیں قیام کے لیے پروف آف رجسٹریشن '' پی او آر'' کارڈز جاری کیے گئے ہیں۔

اس وقت ملک میں تقریباً 40 لاکھ افغان شہری پناہ گزین ہیں، ان غیر رجسٹرڈ کو رجسٹرڈ بنانا، ان کی آبادکاری کرنا، انھیں ٹیکس نیٹ میں لانا، ان کے کاروبار کو رجسٹر کرنا اور جرائم پیشہ افغان باشندوں کو پکڑ کر ملک بدر کرنا یہ سب ریاست پاکستان کی ذمے داری ہے۔ پاکستان جو خود معاشی گرداب میں گھرا ہوا ہے، اسے اقوام متحدہ کے ادارہ برائے پناہ گزین (یو این ایچ سی آر) کو یاد دلانا ہوگا کہ پاکستان کو اتنی بڑی تعداد میں پناہ گزینوں کو سنبھالنے کے لیے مزید تکنیکی اور مالی امداد کی ضرورت ہے۔

ساتھ ہی وہ مغربی ممالک جنھوں نے افغانوں سے وعدہ کیا تھا کہ وہ انھیں اپنے ملک میں پناہ دیں گے، وہ بھی آگے آئیں، پاکستان انھیں جوابدہ کرے۔ پاکستان، جسے افغان پناہ گزینوں کے معاملے پہ دنیا سے جواب طلب کرنا چاہیے تھا۔

بدقسمتی سے ہمارے ملک میں بزنس فرینڈلی اور طویل المدتی معاشی پالیسیاں تشکیل نہیں دی جاتیں، جس سے کاروباری طبقے اور سرمایہ کاروں کی مشکلات میں اضافہ ہوتا ہے۔ وہی ملک بہتر ترقی کرتے ہیں جن میں پالیسیوں کا تسلسل جاری رہتا ہے۔ بنگلہ دیش اور دیگر ممالک بزنس فرینڈلی پالیسیاں تشکیل دے کر پاکستان سے آگے نکل گئے ہیں۔

بنگلہ دیش کوشش کر رہا ہے کہ آنے والے دنوں میں فارما سیوٹیکل برآمدات کو بڑھا سکے۔ مہنگی بجلی کی وجہ سے کاروبار کی لاگت میں کئی گنا اضافہ ہوگیا ہے، لہٰذا آئی پی پیز کے ساتھ معاہدوں کا دوبارہ جائزہ لینا ہو گا کیونکہ آئی پی پیز کے ساتھ معاہدوں پر نظرثانی نہ کی گئی تو بجلی کے بل عوام کی پہنچ سے باہر ہو جائیں گے۔

پاکستانی عوام گردشی قرضوں کا کھربوں روپے کا بوجھ نہیں اٹھا سکتے۔ سول ملٹری بزنس کونسل کا قیام معیشت کی بحالی کے لیے گم چینجر ثابت ہوگا اور مقامی مارکیٹ میں اعتماد پیدا ہوگا۔ 2035 تک برادر ممالک کی جانب سے 112 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کے اس منصوبہ سے پاکستان معاشی بدحالی کی دلدل سے نکل جائے گا۔

تین برادر ممالک سعودی عرب، یو اے ای اور قطر کے ساتھ 20 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کے معاملات فائنل ہوچکے ہیں۔ کسی بھی کمپنی کو این او سی لینے میں 18 ماہ لگتے ہیں۔ رجسٹریشن کے لیے 90 این او سی درکار ہوتے ہیں۔ فائلوں کو ''پہیے'' لگائے جاتے ہیں۔ تنگ آکر سرمایہ کار بھارت یا بنگلہ دیش بھاگ جاتا ہے۔ کونسل سرمایہ کاروں کو ہر ممکن سہولت فراہم کرے گی۔

زراعت، معدنیات اور آئی ٹی کے شعبوں میں ایک ٹریلین ڈالر کی سرمایہ کاری کی جائے گی۔ اس سے 4 سے 5 سال میں 15 سے 20 لاکھ ڈائریکٹ اور 85 لاکھ سے ایک کروڑ ان ڈائریکٹ ملازمتیں ملیں گی۔ چین گزشتہ برسوں کے دوران سی پیک کے حشر سے پریشان تھا لیکن پاکستانی حکام نے یقین دہانی کرادی کہ ملک میں حکومت کسی بھی پارٹی کی ہو، بزنس کونسل قائم رہے گی اور ترقی کا سفر رکنے نہیں دیا جائے گا۔

ماہرین معاشیات کے مطابق 112 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا پلان عوام کے لیے امید کی کرن اور ترقی کی نوید ہے۔ پاکستان کی معاشی امید پرستی میں کئی عوامل اہم کردار ادا کرتے ہیں، بشمول ممکنہIMF کی منظوری اور اضافی قسطیں، کرنٹ اکاؤنٹ کی بہتر کارکردگی اور ترسیلات زر میں اضافہ۔ مزید برآں، افغان ٹرانزٹ ٹریڈ (ATT) میں غلط استعمال کو ختم کرنے کے لیے حکومت کی کوششوں اور تیل کی قیمتوں میں مسلسل کمی سے پاکستان کے ادائیگیوں کے توازن کو مضبوط بنانے کی توقع ہے، جس سے روپے کی قدر میں مزید اضافہ ہوگا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں