مزاحیہ اداکار نذر سے دلجیت مرزا تک
فلم سسی سے فلم باغی تک فلموں میں لگاتار نذرکی اداکاری کو فلم بینوں نے بڑا سراہا تھا
فلمیں بالی ووڈ کی ہوں یا لالی ووڈ کی، ان فلموں میں ابتدائی طور سے لے کر آج تک تسلسل سے دو شعبوں کو بڑی فوقیت حاصل رہی ہے۔ ایک موسیقی اور دوسرا شعبہ مزاحیہ آرٹسٹوں کا ہے۔ موسیقی کے بغیر تو اردو فلموں کا کبھی تصور کیا ہی نہیں جا سکتا۔
موسیقی ابتدا ہی سے فلموں کے لیے کامیابی کی کنجی رہی ہے، جس فلم میں چار چھ گیت نہ ہوں وہ فلم فلم بینوں کے معیار پرکبھی پوری اترتی ہی نہیں تھی اور بعض فلمیں تو اپنے مدھرگیتوں اور دلنواز موسیقی کی وجہ سے ہی فلم بینوں کی کشش کا باعث ہوتی تھیں۔ اسی طرح ہر دور میں مزاحیہ آرٹسٹوں کو بھی فلموں کی ضرورت سمجھا جاتا تھا۔
ہر فلم میں ایک نہ ایک مزاحیہ آرٹسٹ ضرور ہوا کرتا تھا جس کی حرکتوں اور فقرے بازی پر سینما ہالوں میں قہقہے برسنے لگتے تھے اور ہر دور میں نامور ہیروزکے کچھ پسندیدہ مزاحیہ آرٹسٹ بھی ہوتے تھے جیسے دلیپ کمارکی فلموں میں مزاحیہ آرٹسٹ مقری اور یعقوب کو پسند کیا جاتا تھا۔
اور پھر گرودت کا دور آیا تو جانی واکر کو بڑی پذیرائی ملتی رہی تھی بلکہ مزاحیہ آرٹسٹ جانی واکر نے تو کئی فلموں کے لیے ہیرو کے کردار بھی ادا کیے اور فلم سازوں کی خواہش ہوتی تھی کہ جانی واکر پرکوئی نہ کوئی گیت بھی فلم میں ضرور رکھا جائے۔
اب ہم آتے ہیں اپنی نوعمری کے زمانے کی طرف جب ہم نے فلمیں دیکھنی شروع کیں تو وہ دور سنتوش کمار اور اداکار سدھیر کا دور تھا اور ان دونوں کے دور میں مزاحیہ آرٹسٹ نذر کی بڑی اہمیت تھی، نذر اپنی حرکات و سکنات ہی سے فلم بینوں کو ہنسانے میں کامیاب ہوتا تھا اور اس زمانے میں نذر کی بھی بڑی ڈیمانڈ ہوتی تھی جیسے ہی نذر کا چہرہ اسکرین پر آتا تھا تو فلم بینوں کے چہروں پر مسکراہٹیں آ جاتی تھیں۔
مزاحیہ آرٹسٹ نذر بچوں، جوانوں اور بوڑھوں سب کا پسندیدہ آرٹسٹ ہوا کرتا تھا بعد کے آنے والے مزاحیہ آرٹسٹوں ظریف، منور ظریف، ننھا اور رنگیلا نے بھی ابتدا میں اداکار نذر کو ہی اپنا آئیڈیل بنا کر فلموں میں اپنے کیریئرکا آغازکیا تھا۔ ایک وہ وقت بھی تھا کہ فلم کی ریلیز سے پہلے ہر فلم کے اشتہار میں ہیرو، ہیروئن کے ساتھ نذرکے نام کو دیکھ کر لوگوں کی تسلی ہوتی تھی اور فلم بین نذر کے بھی دیوانے ہوا کرتے تھے۔
اداکار نذر نے غیر منقسم ہندوستان میں اپنے فلمی کیریئر کا آغاز کیا تھا۔ 1944 میں ایک پنجابی زبان کی فلم گل بلوچ کے نام سے بنی تھی، وہ نذرکی بطور مزاحیہ آرٹسٹ پہلی فلم تھی، اسی فلم سے لیجنڈ گلوکار محمد رفیع نے بھی اپنی گائیکی کے سفرکا آغاز کیا تھا اور پہلی بار بطور گلوکار منظر عام پر آیا تھا۔
اداکار نذرکی پیدائش میرٹھ میں ہوئی تھی اور اس کا گھریلو نام سید محمد نذر شاہ تھا۔ نذرکی ابتدائی قابل ذکر فلم '' تیری یاد تھی '' جس کا ہیرو دلیپ کمار کا بھائی ناصر خان تھا اور ہیروئن آشاپوسلے تھی اس فلم میں ناصر خان اور نذر کو بہت پسند کیا گیا تھا۔ اسی فلم میں اداکارہ زینت نے بھی پہلی بارکام کیا تھا اور شہرت ملی تھی۔اس فلم سے نذر اور زینت کی مزاحیہ جوڑی بنی تھی اور پھر اس مزاحیہ جوڑی نے بے شمار فلموں میں کام کیا تھا۔
نذر اپنے دورکا کامیاب ترین مزاحیہ آرٹسٹ تھا۔ فلم سسی سے فلم باغی تک فلموں میں لگاتار نذرکی اداکاری کو فلم بینوں نے بڑا سراہا تھا، اس دور کی کئی گولڈن جوبلی فلمیں نذرکے کھاتے میں آئی تھیں۔ فلم '' باغی '' میں سلطان راہی پہلی بار ایک چھوٹے سے کردار میں نظر آیا تھا، اداکار نذر پر بھی فلموں میں گیت فلمائے جاتے تھے، اداکار نذر نے اردو فلموں اور پنجابی فلموں میں اپنی اداکاری کے خوب جوہر دکھائے تھے۔
اب میں مزاحیہ اداکار دلجیت مرزا کی طرف آتا ہوں۔ دل جیت مرزا کی اداکاری، اداکار نذر سے بالکل مختلف تھی۔ دلجیت مرزا حرکات و سکنات سے کم بلکہ وہ بھی اپنے فقروں اور جملوں سے لوگوں کو ہنساتا تھا۔
اس کی مزاحیہ اداکاری کا انداز بھی دوسرے مزاحیہ آرٹسٹوں سے ذرا ہٹ کر تھا۔ دلجیت مرزا کا گھریلو نام غلام حسین تھا، 1930 اس کی پیدائش ہندوستان کے شہر انبالہ میں ہوئی تھی یہ بھی ہندوستان کے مزاحیہ آرٹسٹ اداکار یعقوب کے اسکول آف تھاٹ سے تعلق رکھتا تھا۔
دلجیت مرزا نے بین الاقوامی مشہور مزاحیہ آرٹسٹ چارلی چپلن کو بھی فالو کیا تھا پھر اس نے اپنا ایک منفرد انداز اپنا لیا تھا۔ دلجیت مرزا نے اپنی مزاحیہ اداکاری سے فلم بینوں کے واقعی دل جیت لیے تھے۔
دلجیت مرزا کے آنے کے بعد اداکار نذر پس منظر میں چلا گیا تھا، کیونکہ سنتوش کمار کا انتقال ہو گیا تھا اور اداکار سدھیر بھی ایکشن فلموں میں آنے کے بعد جب لاہورکی فلم انڈسٹری میں سوشل اور رومانٹک فلموں نے اپنے قدم جما لیے تو اداکار سدھیر بھی پس منظر میں چلا گیا تھا۔
اردو فلموں میں اسے پذیرائی حاصل نہ ہو سکی تھی، جب سدھیرکو فلم غالب میں کاسٹ کیا گیا تو وہ میڈم نور جہاں کی موجودگی کے باوجود فلاپ ہوگیا تھا اور فلم بھی بری طرح فلاپ ہوگئی تھی، پھر میڈم نور جہاں نے بھی اداکاری سے کنارہ کشی اختیار کر لی تھی اور وہ صرف گلوکارہ کی حیثیت سے اپنے سفرکو جاری رکھ سکی تھیں۔
دلجیت مرزا ایک انتہائی ذہین آرٹسٹ تھا، اس نے مزاحیہ کرداروں پر تکیہ نہیں کیا بلکہ وہ ایک پروڈیوسر اور ایک اچھا ہدایت کار بن کر بھی منظر عام پر آیا تھا ار اس نے کئی فلمیں پروڈیوس کی تھیں۔ دلجیت مرزا کی بطور اداکار پہلی فلم قاتل تھی جو 1955 میں ریلیز ہوئی تھی، پھر اس نے بے شمار فلموں میں کام کیا۔
بطور فلمساز اس نے کئی فلمیں بنائیں رواج، جناب عالی، برسات اور گرہستی کے نام سے جو فلم بنائی اس میں پہلی بار کراچی سے لاہور آئی ہوئی نوخیز اداکارہ کو اپنی فلم میں ہیروئن کاسٹ کیا تھا اور اداکارہ سنگیتا کو ہیروئن بنانے کا سہرا بھی اداکار دلجیت مرزا کے سر جاتا ہے۔
اس فلم میں دلجیت مرزا نے ایک نیا ہیرو دانیال پیش کیا مگر وہ بری طرح فلاپ ہو گیا تھا اور پھر اسے کسی فلم ساز نے کوئی موقعہ نہیں دیا تھا۔