بُک شیلف

اردو ادب کے فروغ میں جتنا اہم کردار مشاعروں کا ہے اس سے بڑھ کر ادبی جریدوں کا ہے


انجم جاوید May 18, 2014
تحقیق کا کوئی بھی میدان ہو ادبی پرچوں سے صرف نظر کرکے گزرا نہیں جاسکتا، فوٹو: فائل

دل درد کا ٹکڑا ہے
شاعر: ارشد ملک
ناشر: رُمیل ہاؤس آف پبلی کیشنز، کمیٹی چوک راولپنڈی
صفحات:112
قیمت :220 روپے



ارشد ملک کا شمار ملک کے ان نوجوان شعراء کی صف میں کیا جاتاہے جن کے متعلق یہ کہنا بہت آسان ہے کہ واہ شعر و ادب سے لگاؤ، محبت، عقیدت سبھی کچھ ساتھ لائے ہیں اور ادب ان کا اوڑھنا بچھونا ہے۔ ایک معتبر اشاعتی ادارے سے وابستگی جہاں کتابیں ہی کتابیں تھیں، نے ان کے شوق کو مہمیز کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ کئی شاعری کے انتخاب اور دو عدد شعری مجموعے ارشد ملک شائع کرچکے ہیں۔ وہ ایک ٹین ایج رومانٹک شاعر کی حیثیت سے منظر عام پر آئے۔

پھر رفتہ رفتہ انہوں نے اپنی شاعری کو ایک مخصوص دائرے سے نکالنے کی کام یاب کوشش کی تاہم آج بھی ان کی شاعری کا بنیادی نکتہ محبت ہے۔ محبت ہی سے ان کی شاعری کے وجود نے تشکیل پائی ہے اور اس کا اظہار ان کی شاعری میں بار بار ملتا ہے:

تجھے ایسا بنایا ہے خدا نے
خدا سے بھی محبت ہوگئی ہے
تمہارے بعد اندھیرا ہی اندھیرا
تمہارے دم سے یہ سب روشنی ہے
۔۔۔۔۔
تیری خوشبو اڑاکے لے آئی
آج باد صبا نے حد کردی

ارشد ملک کی شاعری کا یہی رنگ، جس میں وہ تتلیوں کے رنگوں کو ہتھیلی پر سجاتے ہیں اور جگنو کی آنکھوں سے رات کے اندھیرے میں بھی بکھرا حسن دیکھ لیتا ہے، ان کی نظموں کا بھی حصہ بن کر ہمارے سامنے آتا ہے۔ ارشد ملک یوں تو نظمیں اور غزلیں دونوں ہی میں کام یابی سے مصرعہ لگاتے نظر آتے ہیں۔ تاہم مجھے ان کی نظموں میں ان کا جمالیاتی وژن پوری توانائی کے ساتھ جھلکتا نظر آتا ہے۔ اس کی مثال ان کی کام یاب نظمیں ''کہا تھا یاد ہے تم نے اور ''پہچان'' پڑھی جاسکتی ہیں۔

ارشد ملک نے مکالماتی غزل میں اپنے جوہر دکھائے ہیں۔ ان میں گو شعر کہنے کا قدرتی وجدان پوری تاب ناکی سے ملتا ہے۔ سو جہاں انہوں نے محبت اور محبت سے منسوب استعاروں کو برتا ہے وہاں دوسرے موضوعات کو بھی خوبی سے شعری قالب میں ڈھالا ہے۔ ارشد ملک کا یہ مجموعہ نوجوان نسل کو زیادہ متاثر کرنے کی اہلیت رکھتا ہے۔ کتاب کو بڑے اہتمام سے شائع کیا گیا ہے۔ اس کے ساتھ صاحب کتاب نے یہ خصوصی اہتمام کیا ہے کہ اپنی نظموں پر مشتمل خصوصی wishingکارڈ کتاب کے ساتھ منسلک کردیے ہیں۔ یہ رجحان نئی نسل کو مزید متاثر کرنے کی ایک شعوری کوشش ہے۔

ماں
شاعرہ: فرخندہ شمیم
ناشر: ملٹی میڈیا افیئرز، شام نگر، چوبرجی، لاہور
صفحات: 112
قیمت: 300 روپے



فرخندہ شمیم کی بنیادی پہچان ایک افسانہ نگار کی حیثیت سے ہے اور ان کا ایک افسانوں کا مجموعہ ''مٹی اور پاؤں'' 2000 میں شائع ہوچکا ہے۔ زیر نظر کتاب ''ماں'' ان کی 52 آزاد نظموں پر مشتمل شعری مجموعہ ہے، جس کے نام سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ مجموعہ فرخندہ شمیم نے اپنی ماں سے محبت کی وجہ سے ان کے نام کیا ہے۔ تاہم کتاب کے اندر مختلف موضوعات پر نظمیں پڑھنے کو ملتی ہیں۔ ان نظموں کو پڑھ کر یہ خیال، فلسفہ، نظریہ مزید تقویت حاصل کرتا ہے کہ لکھنے کا جنون، لکھوا بھی لیتا ہے، اور اسے شائع بھی کرا دیتا ہے، اس کتاب میں نظمیں نہیں بلکہ فرخندہ شمیم کے کئی تجربات، مشاہدات، احساسات، کچھ راکھ میں دبے ہوئے جذبے ہیں، جو اظہارخیال کی عمدہ مثالیں قرار دی جاسکتی ہیں، مثلاً نظم ''برف کا آدمی'' کی یہ سطور ملاحظہ ہوں:

برف کا آدمی تو بنالوں مگر
اب وہ حدت کا موسم پرانا ہوا
اک زمانہ ہوا
اب کہیں بازوؤں کی توقع نہیں
یا پھر نظم ''اس کے نام''
درج ذیل سطور
سوچ نہ سکتی تھی مجھ سی سر پھری
گھومتا لٹو بھی آخر ٹھہر کر
سر زمینِ لذت مہروووفا چھوسکتا ہے
اک تحیر کا سماں تھا جب مجھے
پیکر آزاد نے تجسیم کا منظر دیا

فرخندہ شمیم نے ماں سے منسوب کردہ پانچ نظمیں اس مجموعی میں شامل کی ہیں، جن میں مجھے ''میری ماں'' اور ''ماں عید آتی ہے'' تخلیقی لحاظ سے عمدہ محسوس ہوئیں۔ دیگر نظموں میں ''قربتوں کے آنگن میں''،''چڑیا کے لیے ایک دعا''،''میں Piscesہوں''،''اس کے نام''،''یہ نصف صدی کا قصہ ہے''، ''جب اڑان ٹوٹ گئی'' قابل ذکر ہیں۔

فرخندہ شمیم کی نظموں میں تازگی کی کیفیت کے ساتھ ساتھ مشاہدات کا جو رنگ ملتا ہے اس کی ایک وجہ فرخندہ شمیم کی پاکستان ٹیلی ویژن سینٹر کے کرنٹ افیئرز سیکشن سے وابستگی ہے، لہٰذا وہ چاہے کشمیر کے حوالے سے UNOکو یاد کریں یا بھوجا ایئر لائن حادثے کے پس منظر میں ''جب اڑان ٹوٹ گئی'' لکھیں یا پھر 2005 کے زلزلے کو یاد کریں، سب کے سب واقعات اک طرف دستاویزی فلم تو دوسری طرف فرخندہ کی نظموں کا حصہ بن کر محفوظ ہوجاتے ہیں۔

''ماں'' میں رشید نثار اور قیوم طاہر کے تحریر کردہ فرخندہ شمیم پر منظوم تاثرات کے ساتھ ساتھ فرخندہ کا تحریر کردہ منظوم خراج تحسین ممتاز فن کار معین اختر اور شاعر نقاد پرویز نثار ترابی پر ملتا ہے۔ کتاب انتہائی خوب صورت کاغذ پر اہتمام کے ساتھ شائع کی گئی ہے۔

کوئی ہے
شاعر: سلطان سکون
ناشر: مثال پبلشرز رحیم سینٹر پریس مارکیٹ اینی یور بازار فیصل آباد
صفحات:176
قیمت: 250 روپے



سلطان سکون کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں وہ اور آصف ثاقب، ایبٹ آباد ہزارہ کے حوالے سے لیجنڈ حیثیت حاصل کرچکے ہیں۔ سلطان سکون اس لحاظ سے زیادہ معتبر مقام رکھتے ہیں کہ ہندکو ادب پر تخلیقی و تحقیقی کام کرتے ہوئے آٹھ کتابیں جن میں ہندکو اردو لغت بھی شامل ہے، شائع کرچکے ہیں۔

اس شعری مجموعے سے قبل 2001 میں ان کا اردو شعری مجموعہ ''کوئی خواب ہے نہ خیال ہے'' بھی منظر عام پر آچکا ہے۔ وہ اردو ادب اور ہندکو ادب کے حوالے سے بین الاقوامی شہرت رکھتے ہیں۔ زیرنظر شعری مجموعہ ''کوئی ہے'' 71 غزلوں، 7نظموں اور 5 عقیدت کے رنگوں پر مشتمل مجموعہ ہے۔

سلطان سکون کی شاعری کی سب سے نمایاں خوبی سادگی کے ساتھ آسان الفاظ میں اپنے خیالات کو شعری ادب دے کر دوسروں تک پہنچانا ہے اور اس طرح سے کہ یہ پڑھنے والے کے دل میں اتر جاتا ہے:

سکون آئی تھی خوش قسمتی مرے گھر بھی
مگر میں گھر پہ نہیں تھا کہیں گیا ہوا تھا
۔۔۔۔۔۔
میں تصور میں کبھی جاکے شبستاں میں ترے
بن بلایا ہوا مہمان بھی ہوجاتا ہوں
۔۔۔۔۔۔
اسی حساب سے بڑھتی گئی ہے سنگ دلی
جس اہتمام سے پختہ مکاں بنتے گئے

سلطان سکون کے بعض اشعار ضرب المثل کی حیثیت اختیار کرچکے ہیں اور بہت تیزی سے ان اشعار نے سفر طے کیا ہے:

مری مشکل کا حل کوئی نہیں ہے
ترا نعم البدل کوئی نہیں ہے
۔۔۔۔۔۔
تجھے یہ حق ہے شجر پر ہوں جو ثمر لے جا
مگر نہ اتنا کہ شاخیں بھی توڑ کر لے جا
۔۔۔۔۔۔
کن مشکلوں سے ہم نے بنایا ہے یہ چمن
اب آپ اس چمن کو نہ صحرا بنائیے
۔۔۔۔۔۔
رہے خیال نہ پہنچے کہیں گریباں تک
جو ہاتھ پیار سے رکھا ہے میرے شانے پر

سلطان سکون نے اس مجموعے میں 7 نظمیں بھی شامل کی ہیں جن میں بیوٹی پارلر، مجسم دکھ اور ہوائے شہر جاناں، اپنے موضوعاتی اعتبار سے قاری کو متاثر کرتی ہیں۔ کتاب اہتمام سے خوب صورت معنی خیز نام ''کوئی ہے'' کے ساتھ شائع کی گئی ہے۔ یہ کتاب اپنے پڑھنے والے کو مایوس نہیں کرتی اور اسے معیاری اشعار منتخب کرنے کا موقع دیتی ہے۔ شبنم رچانی نے سلطان سکون کے بارے میں کیا خوب لکھا ہے،''سلطان سکون نے زندگی کے لیے ادب نہیں لکھا بلکہ ادب کو زندگی بنالیا ہے۔''

چہار سو (ماہنامہ)
ایڈیٹر: گلزار جاوید
شمارہ: مارچ اپریل 2014
رابطہ : 537/D-1 ویسٹرج iii راولپنڈی



اردو ادب کے فروغ میں جتنا اہم کردار مشاعروں کا ہے اس سے بڑھ کر ادبی جریدوں کا ہے۔

یہ ادبی جریدے ہی تھے جن میں شائع ہو ہو کر شاعروں، افسانہ نگاروں، تنقید نگاروں نے اپنا ایک مقام بنایا، آج بھی تحقیق کا کوئی بھی میدان ہو ادبی پرچوں سے صرف نظر کرکے گزرا نہیں جاسکتا، ادبی پرچوں کی ایک لمبی تاریخ ہے اس سے گریز کرتے ہوئے کہ موضوع طول پکڑے گا کچھ عہد حاضر کے معتبر جریدوں کا ذکر کرلیتے ہیں جن میں فنون، اوراق، نقوش، سیپ، اقدار، افکار کے ساتھ ساتھ چہار سو بھی شامل ہے۔ گلزار جاوید، افسانہ نگار ہیں اور ادب سے جنون کی حد تک مخلص ہیں۔

انھوں نے چہار سو کا پہلا شمارہ 1992 میں جاری کیا جس میں ممتاز مفتی کا گوشہ شامل تھا۔ اس طرح سے اب تک چہار سو کے 168 شمارے شایع ہوچکے ہیں۔ ہر شمارے کی یہ خاص خوبی ہے کہ اس میں کسی بھی معروف ادبی شخصیت کا گوشہ مختص کیا جاتا ہے۔ پاکستان اور بھارت کے علاوہ دیگر بیرونی ممالک کے تقریباً ہر اہم اور معتبر لکھاری کا گوشہ آپ کو چہار سو میں ملے گا۔ اس کا ایک فائدہ مجھے یہ محسوس ہوا کہ اس سے تحقیقی مقالے اور ادبی مضامین لکھنے والوں کو خاصی مدد ملتی ہے اور اس لحاظ سے چہار سو کا ہر شمارہ جلد کرکے رکھے جانے کے قابل ہے۔ موجودہ شمارے میں روسی اکیڈمی برائے سائنسز شعبہ ادب کی پروفیسر لدملا وسیلیوا کا گوشہ شامل کیا گیا ہے۔

موصوفہ نے گلزار جاوید کے انٹرویوز کے سوالات کے جوابات دینے سے معذرت کی ہے۔ اگر یہ گوشہ مکمل ہوتا تو یقیناً اور معلومات بہم پہنچاتا۔ پھر بھی ان کے بارے کافی معلومات ملتی ہیں۔ پروفیسر لدملا نے فیض احمد فیض کی سوانح عمری بھی لکھی ہے۔ اس شمارے میں ''روس میں اردو'' ''ہمالہ پر ایک نظر'' اور ''فیض کی شاعری میں تنہائی کے مختلف رنگ'' کے زیرعنوان مضامین پروفیسر لدملا واسی لیوا کے تحریر کردہ ہیں، جب کہ ڈاکٹر ڈیوڈ میتھیوز، پروین شیر نے لدملا واسی لیوا کے فن کو سمیٹنے کی بھرپور کوشش کی ہے۔

اس شمارے میں دیگر روایتی تخلیقات متعدد افسانے، غزلیں، نظمیں اور دیگر سلسلے بھی شامل ہیں اور سب کا معیار عمدہ ہے گلزار جاوید نے اس ادبی جریدے کا زرسالانہ کچھ نہیں لکھا، بس ''دل مضطرب نگاہ شفیقانہ'' لکھ کر بہت کچھ کہہ گئے ہیں۔ چہار سو کے مختلف شماروں میں شامل ادیبوں کے سوالات جوابات کو جمع کرکے گلزار جاوید نے ''براہ راست'' شایع کی ہے۔ یہ بھی ایک اہم ادبی تخلیق ہے گلزار جاوید ''چہار سو'' نہیں نکال رہے بلکہ ایک ادبی جہاد کر رہے ہیں۔ یہ ایک بھرپور مکمل ادبی جریدہ ہے جس کے ہر لحاظ سے معیاری ہونے سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔

کامنی
شاعر: نوید ملک
ناشر: رُمیل ہاؤس آف پبلی کیشنز اقبال مارکیٹ کمیٹی چوک راولپنڈی
صفحات:190
قیمت:250 روپے



پچھلے دو تین سال سے یہ خوش کن رجحان دیکھنے میں آرہا ہے کہ شعراء بالخصوص نئی نسل کے شعراء غزل کے ساتھ ساتھ نظم کی اہمیت کو محسوس کرتے ہوئے نظمیں تخلیق بھی کر رہے ہیں اور انھیں کتابی شکل میں محفوظ بھی کر رہے ہیں۔ نوید ملک نے بھی 93 نظموں پر مشتمل شعری مجموعہ ''کافی'' قاری تک پہنچایا ہے۔

اس کتاب کو پڑھنے کے بعد پہلا احساس یہی ہوتا ہے کہ نوید ملک پیدائشی شاعر ہے۔ وہ شعر کہنا جانتا ہے اور مختلف طرز فکر کے ساتھ اس کے ہاں ماحول کو جذب کرنے کی صلاحیت کمال کی دکھائی دیتی ہے۔ عمومی طور پر جواں سال نوید ملک کی عمر کے شعرا محبت کے حصار سے باہر نہیں نکل پاتے لیکن نوید ملک نے محبت کو محسوس توکیا رقم بھی کیا، لیکن دیگر آفاقی و حقیقی صورت حال سے بھی نظر نہیں ہٹائی۔ ان پر نگاہ کی اور شعری روپ میں ڈھال دیا۔ نوید ملک کا نام ادبی لحاظ سے غیرمعروف ہے۔ شاید اس کی وجہ اس کی ادبی پرچوں سے یا شاعروں کی باضابطہ تحریک سے کچھ عرصے کی دوری ہو۔ تاہم پچھلے کچھ دنوں سے راولپنڈی کے ادبی حلقوں میں اس نے تیزی سے اپنی جگہ بنائی ہے۔

نوید ملک نے اپنے آپ کو کسی دائرے تک محدود نہیں کیا بلکہ جہاں جہاں اس کی حسیات نے اسے متوجہ کیا وہاں وہاں اس نے لفظوں سے تاج محل بھی تعمیر کیے اور گرتی ہوئی تہذیبی اقدار کی قبریں بھی دریافت کیں۔ اس کی قابل ذکر نظموں میں سے ''آئینے میں نادم شخص''، ''کبھی انسان بدلے گا''،''ورق پہ اڑتا غبار''، ''الجھن''،''سنا ہے سیر کرنے کو''، ''فون پر''، ''نہ جانے ہم سے پہلے کس طرح کے لوگ گزرے ہیں''، ''کٹائی اور نئی فصل کی کاشت''،''دنیا،''دادا''، ''اندھیرا، رقص اور شور''، ''کفن میں لپٹے ہمارے فوجی''،''نئے سال کی پہلی نظم'' اور ''جنت کی کنجی'' قابل ذکر ہیں۔ نوید ملک نے اپنے مضمون ''زرد رنگ'' میں اپنے ایک استاد کا ذکر کیا ہے۔ یہ ذکر بے معنی سا لگتا ہے۔ تاہم اسے شامل کرنے کی وجہ نوید ملک ہی بتا سکتا ہے۔

حسن عباسی نے نوید ملک کی ''کافی'' پر رائے دیتے ہوئے لکھا ہے،''اچھی اور خوب صورت نظمیں لکھی نہیں جاتیں بلکہ وہ خودرو پودوں کی طرح شاعر کے اندر اُگتی ہیں۔'' مجھے اس خیال سے اتفاق ہے اور میں کہہ سکتا ہوں کہ کافی میں جتنی بھی نظمیں موجود ہیں سب خودرو پودوں کی طرح نوید ملک کے اندر سے پھوٹ کر صفحہ قرطاس پر کتابی شکل میں منتقل ہونے کے لیے اگیں اور اپنی نمو پذیری کی۔ یہ کتاب بہت عمدہ کاغذ پر شایع کی گئی ہے جو قاری کو متاثر کرتی ہے۔

ہمیں چلتے ہی رہنا ہے (شعری مجموعہ)
شاعر: زاہد ظفر
ناشر : اسلامک بک سینٹر، کمرہ 7 پہلی منزل جلال دین ٹرسٹ بلڈنگ چوک اردو بازار، لاہور
صفحات:136
قیمت : 250 روپے



زاہد ظفر کا نام بحیثیت شاعر میرے لیے نیا ہے، یا ممکن ہے کہ میری کم علمی ہو کہ میں نے اسے کم کم پڑھا ہو اور مرے ذہن میں اس کا نام محفوظ نہ رہا ہو۔ بہر حال مکمل، تفصیلی تعارف، اس شعری مجموعے سے ہوا۔ ندا فاضلی (انڈیا) کے مضمون سے یہ پتا چلتا ہے کہ زاہد ظفر، دیار غیر یعنی برطانیہ میں مقیم ہیں اور اپنی زندگی کے شب و روز گزار رہے ہیں۔

زاہد ظفر کا غالباً یہ پہلا شعری مجموعہ ہے، جو معیاری کمپوزنگ اور پرنٹنگ کے ساتھ آغا نثار نے شائع کیا ہے۔ آغا نثار بذات خود معروف شاعر اور مصور ہیں اور اس شعری مجموعے کا معنی خیز ٹائیٹل بھی آغا نثار نے پینٹ (Paint) کیا ہے۔ زاہد ظفر کی شاعری متاثر کن شاعری ہے اور ان کی غزلیں قاری کو بوریت کا شکار نہیں ہونے دیتیں بلکہ دل چسپی سے پڑھی جانے والے اس شعری مجموعی میں کچھ اچھے اشعار اپنی ظفر متوجہ بھی کرتے ہیں:

صحرا میں تو سیراب تھے لیکن یہ کیا ہوا
ساحل سے اٹھ کے پیاسے مسافر چلے گئے
لکھا جبین وقت پہ سورج نے آگ سے
تھے چاند اور ستارے مسافر چلے گئے

زاہد ظفر کی شاعری میں مکمل پختگی اس بات کی دلیل ہے کہ وہ نہ صرف شعر کہنے کے ہنر سے واقف ہیں بلکہ شعری لطافتوں اور نزاکتوں سے بھی کماحقہ واقف ہیں ان کے ہاں مصنوعی پن نہیں بلکہ بے ساختگی کے ساتھ شعر امنڈ تے چلے آئے ہیں:

تازہ گلاب کس نے دریچے میں رکھ دیا
کس کی نگاہ خانہ ٔ ویراں تک آگئی
۔۔۔۔۔
دور چمن سے صحراؤں میں دیوانے
لکھتے ہیں مضمون وفا کا، اشکوں سے
۔۔۔۔۔
ہم بھی تجھ کو بھلا چکے ہوتے
گر یہ آسان مرحلہ ہوتا

زیر تبصرہ شعری مجموعہ بہت سے ایسے مجموعوں، جن میں صرف قافیہ ہوتا ہے، ردیف ہوتی ہے الفاظ ہوتے ہیں مروجہ بحروں کو فالو کیا جاتا ہے اور بس، سے کافی حد تک یوں بہتر ہے کہ اس میں شاعری ملتی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔