اچھی حکومت
اچھی حکومت اور بری حکومت کے درمیان فرق کی بہترین عکاسی معروف مصور آمبرو جو لور نیزیٹی نے اپنی تصویری ۔۔۔
حال ہی میں دنیا کے پچاس ملکوں سے اعدادوشمار حاصل کرکے ایک تجزیہ مرتب کیاگیا ہے جس میں مختلف علاقوں اور معاشروں میں پائے جانے والی خوشی ومسرت کے مختلف درجوں اور ان کے تعین میں اہم کردار ادا کرنے والے عوامل کا جائزہ لیاگیا ہے۔ اس تجزیے کو جسے کہ ہم اب تک کیا جانے والا بہترین تجزیہ قرار دے سکتے ہیں کے مطابق عوام کی خو شی و خوشحالی پر اچھی حکومت جس قدر زیادہ اثرات مرتب کرتی ہے وہ ان اثرات سے کہیں زیادہ بڑھ کر ہیں جوکہ اچھی تعلیم اچھی آمدن اور بہترصحت سے مرتب ہوتے ہیں کیونکہ یہ سب چیزیں خود معیار حکومت کی مرہون منت ہوتی ہیں۔
اچھی حکومت اور بری حکومت کے درمیان فرق کی بہترین عکاسی معروف مصور آمبرو جو لور نیزیٹی نے اپنی تصویری تخلیقات میں کی تھیں جو اس نے سی اینا میں پلا زوپبلکو کی فرمائش پر جدید دور کے آغاز میں تیار کی تھیں ۔ان تصاویر میں اچھی اور بری حکومت کی تمثیل پیش کی گئی جن دیواروں پر اچھی حکومت کو پیش کیا گیا ان میں کلاسیکی خوبیوں سے متصف ایک حکمران دکھایاگیا جس میں سے دو ڈوریاں نکل کر شہریوں کے ہاتھوں سے گذرتی چلی جاتی ہیں۔ (جس سے ایک رضا کارانہ سیاسی نظام دکھانا مقصود ہے ) اور پھر یہ ایک ایسی شخصیت کی طرف چلی جاتی ہے جو عدل وقضا کی نمائندگی کرتی ہے۔
مزید برآں اس میں ایک خوشحال قصبے کو دکھایا گیا جس کے بازار مال سے لدے ہوئے ہیں اور لوگ ہنسی خوشی اپنے اپنے کام کی طرف رواں دواں ہیں ۔دیواروں سے پرے ایک خوبصورت مضافاتی منظر ہے یہ ایک فلاحی نظام کا وژن ہے جو حکام اور رعایا کے درمیان اشتراک انصاف اور ہم آہنگی پر مبنی ہے۔ اس کے مقابل میں بری حکومت کی تمثیل دکھائی گئی اس تصویر میں ایک شیطان صفت مورکھ کو حکومت کرتے دکھایاگیا ۔ عدل کا کوئی پرسان حال نہیں اور بیماری قتل وغارت اور قحط نے ملک کا ستیا ناس کیا ہوا ہے یہ تصاویر ایک فلسفہ اورایک وژن پیش کر رہی ہیں۔
فلسفہ ان میں یہ ہے کہ ریاست کی حکومت کا مطمع نظر فلاح عامہ ہونا چاہیے بجائے اس کا مرکز بادشاہ یا شہنشاہ کی ذات ہو ان تصاویر میں اس اصول کی عکاسی بھی کی گئی ہے کہ ریاست کی آزادی کاانحصار اس کے شہریوں کی آزادی پر ہوتاہے ۔ لیکن یہ دیکھے کہ پھر آنے والے دنوں نے لور نیزیٹی کی اچھی حکومت کی تمثیل کا کس بے دردی سے مذاق اڑایا ، کیا کہ چند ہی سال بعد اس کے شہر کو طاعون نے آن لیا جس میں وہ بھی مارا گیا اور اس کا بیشتر خاندان بھی ۔سی اینا پر بیرونی حملوں کا سلسلہ شروع ہوگیا جس کے پیچھے سی اینا کے پرانے حریف فلورنس کا ہاتھ تھا پھر اس جمہوریہ کی جگہ آمریت وجود میں آگئی۔
وہ فلاحی نظام جس کی تصویر کشی لور نیزیٹی نے اتنے پیار سے کی تھی ملیامیٹ ہوگیا اور جمہوری و فلاحی حکومت کا تصور آئندہ کئی صدیوں تک ایک ناقص نظرئیے کے طور پر دیکھا جاتا رہا لیکن سی ینا کے باسیوں نے یہ جان لیا تھا کہ انھوں نے اس قدیم مسئلے کا حل ڈھونڈ لیا ہے کہ اچھی حکومت کے خد و خال کیسے ہونے چاہییں۔ اس مسئلے کو دو ہزار برس سے زائد عرصے تک فلسفہ سیاسیات میں ایک مرکزی مسئلے کی حیثیت حاصل رہی ہے اور اس سلسلے میں غور وفکر اور خیال آرائیاں عیسائیوں اور بودھیوں کی تحریروں میں بھی ملتی ہیں اور مسلمانوں کی تصنیفات میں بھی اور آزاد خیال،اشتراکی اور قدامت پسند دانشوروں کی کتابوں میں بھی۔
ان تحریروں میں ایک خاص بات جو ہماری توجہ اپنی طرف کھینچتی ہے وہ یہ ہے کہ زمانے گزرے مگر دلائل کے ناک نقشے میں کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی کہ اچھی حکومت کا دارو مدار بہترین افراد کے ہاتھ میں بہترین پالیسیاں دے کر انہیں حکمران بنانے پر ہے۔ ''ارتھ شاستر '' سنسکرت کی یہ عظیم کتا ب150 سے لے کر 400 قبل مسیح کے دوران کسی وقت لکھی گئی تھی اسی کتاب کے مندرجات سے متاثر ہوکر میکاولی نے ''پرنس '' لکھی ۔ اس کتاب کے مصنف کا فلسفہ یہ ہے کہ بادشاہ کو ہرحال میں رعایا کا بھلا سوچنا چاہیے، بادشاہ کو نظم و ضبط کا پابند ہونا چاہیے اس کا فرض ہے کہ جہاں دیدہ افراد سے بہتر حکمرانی کے اطوار سیکھے ۔ اور کسی بھی حال میں عوام کی بھلائی اور سلامتی کے لیے ہر وقت مستعد رہے ۔صوفیائے کرام کی کتابوں اور ارشادات میں بھی بار بار اسی انسان دوستی پر زور دیاگیا ہے ۔
مولانا روم نے مثنوی میں اس بات کو واضح کر نے کے لیے ایک حکایت لکھی ہے ۔ فرماتے ہیں ۔ حضرت ابراہیم ؑ کی عادت تھی کہ جب تک کوئی مہمان دستر خوان پر موجود نہ ہوتا کھانا نہ کھاتے۔ ایک دفعہ کئی دن تک کوئی مہمان نہ آیا۔ ایک دوپہر کو آپ گھر سے نکل کر مہمان کا انتظار کررہے تھے ۔ سخت گرمی کا موسم تھا۔ لو چل رہی تھی اور تپش کے مارے ہر ذی روح کا براحال تھا ۔ دیکھتے کیا ہیں کہ دور ایک بوڑھا گرتا پڑتا چلا آرہا ہے ۔ اس کے کپڑے پھٹے ہوئے ہیں ۔ اس کا جسم گردوغبار سے اٹا پڑا ہے ۔ ہونٹوں پر پپڑیاں جمی ہوئی ہیں۔
حضرت ابراہیم ؑنے بڑے شوق سے مہمان کا استقبال کیا اور خوشی خوشی اسے مکان کے اندر لے گئے ۔ دستر خوان چنا گیا اور آپ نے بسم اللہ کہہ کر لقمہ توڑا۔ مہمان نے اللہ کا نام لیے بغیر کھانا شروع کردیا۔ حضرت ابراہیم ؑکو تعجب ہوا اور پوچھنے پر اس نے کہا کہ میں تو اللہ کو مانتا نہیں ہوں ۔ حضرت ابراہیم ؑ کا اتنا سننا تھا کہ غصے سے بے تاب ہو گئے اور اسے اسی حال میں بے کھائے پئے گھر سے باہر نکال دیا۔ مولانا روم فرماتے ہیں کہ اس کے بعد فوراً ہی اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی آئی اور حضرت ابراہیم ؑ سے کہا گیا میں تو اپنے اس بندے کو ساٹھ سال تک کھانا پانی دیتا رہا اور اس کی ہر ضرورت کو پورا کیا لیکن تم سے یہ بھی نہ ہو سکا کہ میرے بندے کو ایک وقت کاکھانا ہی کھلاسکتے۔
اسی مضمون کی رسول اللہ ﷺ سے ایک حدیث بھی مروی ہے ۔ ارشاد ہوتا ہے کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ ایک بندے سے پوچھے گا کہ میں بھوکا تھا تو نے مجھے کھانا نہ دیا ۔ بندہ حیران ہو کر کہے گا کہ اے باری تعالیٰ ! تو تو بھوک سے بے نیاز ہے ۔ تجھے کھانے کی کیا حاجت ۔ پھر ارشاد ہوگا کہ میں پیاسا تھا تو نے مجھے پانی نہ پلایا اور پھر پوچھے گا میں ننگا تھا تو نے مجھے کپڑا نہ پہنایا ۔ ہر سوال کے جواب میں بندہ کہے گا کہ اے میرے رب ! تجھے ان چیزوں کی کیا ضرورت ؟ تو تو ان سب سے بے نیاز ہے۔
اس وقت خدا تعالیٰ فرمائے گا کہ میرا ایک بندہ بھوکا تھا تو نے اسے کھانا نہ کھلایا ۔ وہ پیاسا تھا تو نے اسے پانی نہ دیا ننگا تھا تو نے اسے لبا س نہ پہنایا ۔کیا ہم اپنی حکومت کو اچھی حکومت کہہ سکتے ہیں کیا یہ ہر شہری کی بنیادی ضروریات پوری کررہی ہے یہ وہ سوال ہے کہ جس کا جواب ہاں میں ہر گز نہیں ہوسکتا، دنیا کے تمام خوشحال ، آزاد، ترقی یافتہ ممالک کی حکومتیں نہ صرف یہ کہ آنکھیں رکھتی ہیں بلکہ کان ، عقل اور ماں کا ممتا بھرا دل بھی رکھتی ہیں اور وہ اپنے ایک شہری جی ہاں صرف ایک شہری کی تکلیف ، مصیبت ، اور پریشانی پر تڑپ جاتی ہیں جب کہ ہماری حکومت نہ صرف یہ کہ اندھی واقع ہوئی ہے بلکہ بہری ، عقل سے پیدل بھی واقع ہوئی ہے اور ظلم تو یہ ہے کہ وہ سوتیلے باپ کا دل بھی رکھتی ہے۔
یہ دنیا بھر کی وہ واحد حکومت ہے جو اپنے ہی شہریوں سے لا تعلق بنی ہوئی ہے جسے اپنے شہریوں کی تکلیفوں پر یشانیوں اور مصیبتوں سے کوئی بھی سروکار نہیں ہے جسے اپنے سوا کچھ بھی دکھائی نہیں دیتا ہے اور نہ ہی سنائی دیتا ہے۔ ایک بات تو حکمرانوں تم اچھی طرح ذہن نشین کرلو ، لوگوں کا یہ وقت تو جیسے تیسے گذر ہی جائے گا آج نہیں تو کل خدا حالات بدل ہی ڈالے گا لیکن تم یہ سوچو کہ تم خدا کا سامنا کیسے کروگے ۔ خدا کے سوالات کا کس منہ سے جواب دو گے۔
آج نہیں تو کل تمہیں انصاف کے کٹہرے میں کھڑا ہونا ہی ہے اگر تم یہ سمجھے بیٹھے ہوکہ تمہیں کبھی بھی اپنے اعمال کا حساب نہیں دینا ہے تو تم ایک اور عبرتناک غلطی کے مرتکب ہورہے ہو یہ عیش و آرام یہ شان و شوکت ایک دن ختم ہو جانا ہے ہو سکتا ہے تمہیں آج یہ نصیحت بہت بری لگے لیکن جلد ہی تمہیں اپنی شرمناک غلطیوں کا احساس ہو ہی جانا ہے لیکن یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس وقت بہت دیر ہو چکی ہواور معافی اور شرمندگی کا دروازہ بند ہوچکا ہو۔ اور یہ کروڑوں ،بلکتے ، سسکتے ، تڑپتے انسان تمہارے خلاف گواہی دے رہے ہوں۔