مسئلہ فلسطین
اگر انسانیت کے نام پر واویلا کرنے والوں میں رتی بھر انسانیت باقی ہے تو وہ اسرائیلی درندوں کو کیوں نہیں ٹوک رہے
انسانی تاریخ کا وہ سیاہ ترین دن تھا جب مئی 14، 1948 کو اسرائیل کا منحوس جنم ہوا۔ صیہونی ایجنسی کے سرغنہ ڈیوڈ بنگریان نے اِس ناجائز بچے کی پیدائش کا اعلان کیا۔ہوا یہ کہ ہٹلر کے دور میں جرمنی سے ملک بدرکیے گئے یہودیوں کو فلسطینی سر زمین پر پناہ گزینوں کی حیثیت سے لا لا کر آباد کر دیا گیا۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہودیوں نے جڑیں پکڑنا شروع کردیں اور رفتہ رفتہ اِن کی آبادیاں پھیلتی چلی گئیں اور اہلِ فلسطین سکڑتے اور سمٹتے چلے گئے حتیٰ کہ ریاستِ فلسطین پر یہودیوں کا قبضہ ہوگیا اور پھر وہی ہوا جس کا اندیشہ تھا یعنی دعویٰ جھوٹا اور قبضہ سچا۔ بیچارے فلسطینی جو اصل باشندے تھے در بدر خاک بسر ہوتے چلے گئے اور یہودیوں کی گرفت مضبوط ہوتی چلی گئی۔
معاشی وسائل پر یہودیوں کا قبضہ ہوگیا اور فلسطینی دوسرے نمبر کے شہری بن گئے۔فرنگیوں کی پشت پناہی نے انھیں مضبوط سے مضبوط ترکردیا اور اسرائیلی ریاست معرضِ وجود میں آگئی۔ دنیا کے بیشتر ممالک نے اِسے تسلیم کرنا شروع کردیا جن میں امریکا سرِ فہرست ہے ، عرب ممالک میں مصر وہ پہلا ملک تھا جس نے اسرائیل کو تسلیم کیا۔
اسرائیل کو نہ تسلیم کرنے والے مسلم ممالک میں ایران اور پاکستان سرِفہرست ہیں۔ اِس کے علاوہ تسلیم نہ کرنے والے دیگر ممالک میں عرب لیگ کے ممبران الجزائر، کموروس، جبوتی، عراق، کویت، لبنان، لیبیا، ماریطانیہ، عُمان، قطر، سعودی عرب، صومالیہ، شام، تیونس اور یمن شامل ہیں۔ اسرائیل کو تسلیم نہ کرنے والوں میں او آئی سی کے رکن ممبر ممالک افغانستان، بنگلہ دیش، برونائی، انڈونیشیا، ایران، ملائیشیا، مالدیپ، مالی، نائجیریا بھی شامل ہیں۔
اسرائیل کو تسلیم نہ کرنے والے دیگر ممالک میں شمالی کوریا اور وینزویلا شامل ہیں۔متحدہ عرب امارات وہ پہلا خلیجی ملک ہے جس نے 2020 میں اسرائیل کے ساتھ اپنے تعلقات کو استوار کیا تھا۔ اسرائیل کی حمایت کرنے والے طاقتور غیر مسلم ممالک میں امریکا، برطانیہ، آسٹریلیا، فرانس، ناروے ، آسٹریا، جرمنی، بھارت، کینیڈا، پولینڈ، اسپین اور یورپی یونین کے ممبر ممالک شامل ہیں۔
بھارت کے حوالے سے ایک بات قابلِ ذکر ہے کہ بھارت کے موجودہ وزیرِ اعظم نریندر مودی اسرائیل کے زبردست حمایتی ہیں جب کہ بی جے پی کے سابق وزیرِ اعظم اٹل بہاری واجپائی اور بھارت کے پہلے وزیرِ اعظم پنڈت جواہر لال نہرو اسرائیل کے حمایتی نہیں تھے۔
یہ بات بھی یاد رہے کہ وزیرِ اعظم نہرو کے آزادی فلسطین کی تنظیم پی ایل او کے سرکردہ رہنما یاسر عرفات کے ساتھ قریبی اور گہرے مراسم تھے۔ رہی بات بھارت کے موجودہ وزیرِ اعظم نریندر مودی کی تو وہ تو اسلام اور مسلمانوں کے کٹر مخالف ہیں اور اِسی بنا پر برسرِ اقتدار آئے تھے۔ دوسری قابلِ غور بات یہ ہے کہ مسئلہ کشمیر اور مسئلہ عرب فلسطین ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔
جس قدر روح فرسا اور انسانیت سوز مظالم بھارت مظلوم کشمیریوں پر ڈھا رہا ہے اور اُن کی اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کرنے کے لیے نت نئے ہتھکنڈے استعمال کر رہا ہے ویسی ہی صورتحال مظلوم فلسطینیوں کی ہے جن کی نسل کُشی کرنے میں اسرائیلی وزیرِ اعظم نیتن یاہو کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کر رہا۔
بیس سال سے وزارتِ عظمیٰ کی گدی پر قابض نیتن یاہو اپنے دورِ حکمرانی کو طول دینے کے لیے نت نئے حربے استعمال کر رہا ہے حالانکہ اُس کے خلاف دھوکے بازی اور اختیارات کے ناجائز استعمال کی بنا پر عدالتی فیصلے آچکے ہیں۔نیتن یاہو کے دن گِنے جا چکے ہیں۔
اُس کی نیّا ڈول رہی ہے اور وہ دن زیادہ دور نہیں جب اُس کا بیڑا غرق ہوجائے گا۔ وہ اپنے اقتدار کو سنبھالنے کے لیے ہاتھ پاؤں مار رہا ہے لیکن ظلم جب حد سے گزرتا ہے تو مٹ جاتا ہے۔ دنیا کی تاریخ گواہ ہے:
دارا رہا، نہ جم، نہ سکندر سا بادشاہ
تخت زمیں پہ سیکڑوں آئے، چلے گئے
فراعین، شداد اور نمرود کا حشر سب کے سامنے ہے۔ نریندر مودی جو یہودیوں کا سب سے بڑا ایجنٹ ہے یہود و ہنود کے گٹھ جوڑ کو نہ صرف قائم رکھنے کے لیے بلکہ اِسے مضبوط سے مضبوط ترکرنے کے لیے اسرائیل کی ہاں میں ہاں ملا رہا ہے اور اُس کی حمایت میں جامہ سے باہر ہو رہا ہے۔وہ حماس اور حزب اللہ کی دلیری پر انسانی حقوق کی دہائی دے رہا ہے۔ ایسا کر کے وہ دنیا کی آنکھوں میں دھُول جھونکنے کی ناکام کوشش کررہا ہے۔
کوئی گجرات کے اِس قصاب سے یہ پوچھے کہ جب بی جے پی کے غنڈوں نے کرناٹک میں مسلم طالبات کی بیحرمتی اور بے عزتی کی تھی تو اُس کی انسانیت کہاں تھی؟ اِس کے علاوہ چند روز قبل جب بھارتی ریاست مَنِی پور میں اقلیتی فرقہ سے تعلق رکھنے والی بیٹیوں، بہنوں اور ماؤں کو سرِ بازار برہنہ کرکے اُن کا جلوس نکالا جارہا تھا تو اُس کی میّا کہاں مر گئی تھی اور اُس کی انسانیت دوستی کو کیا ہوگیا تھا؟
انسان دوستی کے عالمی چیمپئین اُس وقت کہاں سوئے ہوئے تھے جب نہتے فلسطینیوں پر گزشتہ کئی برسوں سے مسلسل ظلم و ستم کے پہاڑ ڈھائے جا رہے تھے اور معصوم فلسطینی بچوں، بڑوں، بوڑھوں پر بے تحاشہ بمباری کی جارہی تھی اور اُن پر عرصہ حیات تنگ کردیا گیا تھا اور اُن کی نسلیں ختم کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی گئی تھی۔
اب جب کہ تنگ آمد بجنگ آمد کی صورت میں فلسطین کے مجاہدوں نے اپنے سروں سے کفن باندھ لیے ہیں اور آخری سانس تک لڑنے کا عہد کر لیا ہے تو انسانیت کے رکھوالوں کو نشہ کی حالت سے ہوش آرہا ہے لیکن پانی اب سر سے اونچا ہوچکا ہے۔
اگر انسانیت کے نام پر واویلا کرنے والوں میں رتی بھر انسانیت باقی ہے تو وہ اسرائیلی درندوں کو کیوں نہیں ٹوک رہے کہ وہ اپنی آزادی کی آخری جنگ لڑنے والے فلسطینیوں پر مظالم ڈھانے سے باز آجائیں اور ہتھیار ڈال دیں اور فلسطینیوں کے حقوق سلب کرنے پر غیر مشروط معافی مانگیں۔
مزید برآں اسرائیل کے حمایتیوں کو چاہیے کہ وہ مزید خوں ریزی رُکوانے کے لیے اِس بات کی ضمانت دیں کہ وہ مقبوضہ علاقہ خالی کردیں گے اور فلسطینیوں کے جانی اور مالی نقصانات کا تاوان ادا کریں گے۔ آخری فیصلہ فلسطینی قیادت پر منحصر ہے۔