ناول ’’ انجامِ بخیر‘‘
امریکا ہمیشہ سے ہی پاکستان اور دوسرے اسلامی ممالک میں مداخلت کرنا اپنا فرض سمجھتا ہے
'' انجام بخیر'' محمود شام کا تازہ ناول ہے، جس طرح محمود شام شعر وسخن اور فکشن رائٹر کی حیثیت سے اپنی نمایاں شناخت رکھتے ہیں، سخن وری اور ادبی امور سے کہیں زیادہ صحافت کے میدان میں انھوں نے اہم خدمات انجام دی ہیں ملکوں، ملکوں کا سفرکیا ہے اور دوسرے ملکوں کے رہنماؤں کے خیالات جاننے کے بعد اپنے ملک کی بہتری کے لیے مصلحت پسندی اور حکمت عملی کو مدنظر رکھتے ہوئے امور انجام دیے ہیں۔
ان کا ایک بڑے اور کثیرالاشاعت اخبار سے گہرا تعلق رہا ہے، کئی علمی و ادبی رسائل بعنوانات، پہچان اور ماہنامہ '' اطراف'' کی اشاعت کا اہتمام بڑی لگن اور جانفشانی کے ساتھ کیا ہے، ''اطراف'' کے اوراق پر سرسری سی نگاہ ڈالنے کے بعد ہی وطن کی محبت اور اس کی ترقی و خوشحالی کے نغمے قاری کی سماعت سے ٹکراتے ہیں جوکہ خوشگوار اور خوش آیند سوچ کی نمایندگی نہ صرف یہ کہ ''اطراف'' کے قارئین کو محسوس ہوتی ہے بلکہ اہل نظر، اہل بصیرت بھی اس کا خیر مقدم کرتے ہیں۔
''انجام بخیر'' کی کہانی ایک طویل جدوجہد پر محیط ہے بلکہ یہ کہنا مناسب ہوگا کہ پاکستان کی وجودیت اور تعمیر وطن کی مخالفت اور موافقت کرنے والوں کی قربانیوں میں رکاوٹوں کی مظہر ہے۔ ناول کی ابتدا قائد اعظم کی جنم بھومی کراچی سے ہوئی ہے، پہلا صفحہ ہی بے قصور لوگوں کے خون سے تر ہو چکا ہے۔
ناول میں تین اہم کردار اپنی دیانت داری اور صحافتی ذمے داریوں کے ساتھ سامنے آئے ہیں، احمد حماد کا کردار محمود شام کا خود کا ہے، وہی لب و لہجہ، متانت، سنجیدہ گفتگو اور نپے تلے جملے تجربات کی آنچ میں کندن بننے اور بصیرت و بصارت کے ساتھ صفحہ قرطاس پر جلوہ گر ہوئے ہیں۔
سدرہ اور خلیل بھی احمد حماد کے شاگرد ہیں، وہ اہم مسائل پر گفتگوکرتے اور مشورے لیتے ہیں، احمد حماد بھی یہی چاہتے ہیں کہ جوکچھ انھوں نے کھلی آنکھوں سے دیکھا اور سمجھا ہے، وفاداری اور غداری کی تصویروں سے انھیں آگاہ کریں کہ وہ نئی نسل کے لوگ ہیں، پاکستان کی اس بنجر زمین کو انھیں ہی سینچنا ہے جو دہشت گردوں کے دھماکوں، بارودی سرنگوں سے ناکارہ ہو چکی ہیں، ایک بار پھر یہ نوجوان اپنی محنت اور ملک سے محبت کے نتیجے میں بہار کے نغمے گائیں، ملک کو خوشحال بنانے اور دشمن کو نیست و نابود کرنے میں اہم کردار ادا کریں۔
سدرہ اور خلیل ایک نجی ٹی وی چینل کے رپورٹر ہونے کے ساتھ ذہنی ہم آہنگی اور محبت کے بندھن میں بندھ چکے ہیں، لیکن اپنی ذمے داریوں کے درمیان خلوص کے اس رشتے کو حائل نہیں ہونے دیتے ہیں بلکہ بے دھڑک آتش نمرود میں کود جاتے ہیں ان دونوں ہی کی وجہ سے چینل کو مقبولیت حاصل ہوتی ہے اور ان کی نیک نامی اور اعلیٰ صلاحیتوں کی داستان دور دور تک جاتی ہے، لوگ ان دونوں سے محبت اور عزت کرتے ہیں۔
احمد حماد کی پوری زندگی حقائق کی نقاب کشائی کرنے اور تخریبی سرگرمیوں کو اجاگر کرنے میں گزری ہے، اس وقت بھی جب دھماکا ہوتا ہے تو اس دوران بے حد اضطراب کے عالم میں وہ اپنے اپارٹمنٹ کی کھڑکیوں سے باہر دیکھنے کی کوشش میں مصروف ہیں، ایک کہنہ مشق ایڈیٹر اور سینئر اخبار نویس ان حالات میں کیسے چین سے بیٹھ سکتا ہے وہ چند ثانیوں بعد ہی ڈرائیور سے گاڑی نکالنے کا کہتے ہیں، بیگم کے منع کرنے پر وہ بامعنی اور دانائی سے بھرپور جواب گہرے دکھ سے دیتے ہیں، یہ تو تاریخ کا سوال ہے، مجھے ہی تو لکھنا ہے، صدیاں مجھے بلا رہی ہیں آنے والی نسلوں کو کیسے علم ہوگا اس ملک میں کیا ہوتا رہا ہے۔
کیا منظر ہے؟ آگ اور دھواں، اونچی اونچی بلڈنگیں چشم زدن میں زمین پر آگئیں، آسمان کی طرف لپکتے شعلے زخمیوں کی آہ و بکا اور لاشوں کی اسپتال منتقلی۔ تھوڑی دیر بعد دوسرا بم پھٹ جاتا ہے، ایک بار پھر وہی افراتفری، چیخیں، سسکیاں، امدادی تنظیموں کی کارکردگی، میڈیا کی ذمے داری انھیں سب سے پہلے خبر نشر کرنے کی جلدی ہوتی ہے۔
سدرہ باصلاحیت، بہادر اور فرض شناس رپورٹر ہے لہٰذا دھماکے کے وقت بھی اپنی بہتر سے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کر رہی ہے اور چلتے چلتے ایس پی اور ڈی ایس پی کی گفتگو کو ریکارڈ کر لیتی ہے اور ان دونوں پولیس افسران کی گفتگو کو براہ راست نشر ہونے دے رہی ہے اس طرح ایک بار پھر جگنو دوسرے چینلوں کی نسبت سبقت لے گیا ہے۔
مصنف نے جائے وقوع کا پورا نقشہ الفاظ کی شکل میں کھینچ دیا ہے۔ سدرہ کی ذمے داری کے حوالے بہترین کارکردگی کو سب نے دیکھ لیا ہے، اسی دوران خلیل کو اغوا کر لیا جاتا ہے۔ خلیل کا اغوا ہونا اس کے لیے بہت سی معلومات کے در وا کر دیتا ہے، دہشت گردوں کا سرغنہ اتفاق سے اس کا کلاس فیلو نکلتا ہے جس کا نام عمر حیات ہے۔ بڑے منظم طریقے سے جہاد کی تربیت دی جا رہی ہے طلبا کو مختلف ان زبانوں کو سکھایا جا رہا ہے جو زیادہ بولی جاتی ہیں، مثلاً انگلش، اردو، عربی وغیرہ۔
مدرسے کا نام مدرسۃ العریبیہ ہے، امریکی سفیر اپنے ساتھیوں کے ساتھ مدرسے کا دورہ کرتا ہے، ان کی آمد سے قبل مدرسے کا نقشہ ہی بدل دیا جاتا ہے، پھولوں سے ہر راستے اور خاص جگہوں کو آراستہ کر دیا جاتا ہے۔ ملاقات کے وقت وہ لوگ مدارس کی تعریف اور اہل کتاب ہونے پر فخرکرتے ہیں۔
احمد حماد ماضی کے تلخ حالات سے آگاہ کر رہے ہیں، ابھی خلیل کا کچھ پتا نہیں ہے لیکن سدرہ کو سب معلوم ہے کہ خلیل کو دہشت گردوں نے اغوا کر لیا ہے۔
امریکی محکمہ خارجہ کا اس بات پر پورا زور ہے کہ دینی مدارس کا جائزہ لے اور معلوم کریں کہ یہاں کیا پڑھایا جا رہا ہے، کیسے ذہن تیار کیے جا رہے ہیں۔
امریکا ہمیشہ سے ہی پاکستان اور دوسرے اسلامی ممالک میں مداخلت کرنا اپنا فرض سمجھتا ہے۔ ناول میں مکالمہ نگاری، ماحول سازی اور منظر نگاری قاری کے لیے دلچسپی کا باعث بنتی ہے، منظر چلتے پھرتے نظر آتے ہیں اور انسان مثبت و منفی کردار کے ذریعے قاری کے دل و دماغ میں جگہ بنا لیتے ہیں۔
ملکی حالات نے احمد حماد کو چین، سدرہ کو فاٹا اور خلیل کو واشنگٹن (امریکا) روانہ کردیا ہے۔ احمد حماد صاحب کا دورہ چین بہت سی معلومات کے در وا کرتا ہے، ڈائریکٹر لی شی سے ملاقات کے وقت مصنف نے ان کے پورے سراپے کا جائزہ لے لیا ہے۔ کچھ خاکہ نگاری کا رنگ بھی غالب ہے۔ ڈائریکٹر صاحب کو احمد حماد کا تحقیق کا موضوع بھی بہت پسند آیا ہے۔ ایک سڑک، ایک پٹی کو ایک دل و دماغ سے تعبیر کیا جانا، ان کا یہ نظریہ مقبولیت اختیار کرگیا ہے۔ ''ایک پٹی، ایک سڑک، ایک ذہن، ایک دل'' سدرہ کا فاٹا میں اہم رول نظر آتا ہے۔
سدرہ کی کراچی ایئرپورٹ پر اکبرگچکی سے ملاقات ہوتی ہے وہ قومی سلامتی کے رکن بھی رہ چکے ہیں، سدرہ نے ان سے بہت سی معلومات حاصل کی ہیں، گچکی صاحب سولر انرجی کے بارے میں سدرہ کے سوال کا جواب دیتے ہیں کہ یہ کام جنرل مشرف کے دور میں شروع ہوا تھا، لیکن اس کی بنیاد 90 کی دہائی میں ایک جوالہ سالہ انجینئر حسن ناصر نے رکھی تھی، وہ امریکا سے ملازمت چھوڑ کر آیا تھا، اس کی محنت کی بدولت بلوچستان سے محبت کے نتیجے میں پانی کے آثار اور ہریالی نظر آئی تھی لیکن بہت جلد اسے گھیر کر مار دیا گیا، بلوچستان کے بعض سرداروں کو یہ ہریالی اور خوشی پسند نہیں آ رہی تھی۔
'' انجام بخیر'' ایک مکمل اور سیاسی وسماجی معلومات سے لبریز ناول ہے۔ آخری باب میں کورونا کا ذکر اور سدرہ اور خلیل کی شادی سادگی سے قرار پاتی ہے لیکن دونوں کی شادی سے سب خوش ہیں۔