انڈیا۔ مڈل ایسٹ۔ یورپ کوریڈوربن پائے گا
مجاہدین ِفلسطین کے اسرائیل پہ حالیہ حملے نے مگر ثابت کر دیا کہ اسرائیلی بندرگاہیں محفوظ و پُرامن مقامات پر واقع نہیں۔
پچھلے ماہ بھارتی دارالحکومت، نئی دہلی میں جی 20 ممالک کی کانفرنس منعقد ہوئی۔
اس موقع پر 10 ستمبر کو بھارت، امریکا، یورپی یونین، جرمنی، فرانس، اٹلی، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی حکومتوں نے بڑے تزک واحتشام سے '' انڈیا ۔مڈل ایسٹ۔ یورپ کوریڈور'' نامی ایک بڑے منصوبے کے سلسلے میں ایم او یو( Memorandum of Understanding)پر دستخط کیے۔
اس منصوبے کے تحت بھارت سے یورپ و امریکا تک ایک تجارتی راہداری بنانا مقصود ہے جو تقریباً چھ ہزار کلومیٹر طویل ہو گی۔اس منصوبے کی رو سے بھارتی سامان ِتجارت پہلے بذریعہ بحری جہاز متحدہ عرب امارات جائے گا۔ وہاں سے پھر ریل اسے سعودیہ اور اردن سے گذار کر اسرائیل کی بندرگاہ حیفہ تک پہنچائے گی۔
وہاں سے پھر بحری جہاز پہ لاد کر سامان یورپ و امریکا پہنچایا جائے گا۔ اسی طریق ِسفرسے یورپی ممالک اور امریکا کاسامان اور عرب ملکوں سے ایندھن بھارت پہنچے گا۔
مجاہدین ِفلسطین کے اسرائیل پہ حالیہ حملے نے مگر ثابت کر دیا کہ اسرائیلی بندرگاہیں محفوظ و پُرامن مقامات پر واقع نہیں۔ اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان عرصہ دراز سے جنگ جاری ہے ۔ فلسطینی مسلمانوں کی اکثریت اسرائیل کے سامنے گھٹنے ٹیکنے کے بجائے سر کٹا دینے کو ترجیح دیتی ہے۔ حالیہ حملہ اس امر کی مثال ہے۔
چناںچہ مودی حکومت جو انڈیا ۔مڈل ایسٹ۔ یورپ کوریڈورلے کر خوشیاں منا رہی تھی، اسے احساس ہوا ہو گا کہ یہ پروجیکٹ پایہ تکمیل تک پہنچانا خالہ جی کا گھر نہیں بلکہ اس کی راہ میں کئی رکاوٹیں درپیش ہیں۔شام، لبنان، اردن اور مصر بھی اسرائیل سے اختلافات رکھتے ہیں۔
منصوبے سے منسلک ماہرین کا دعوی ہے کہ اس کی تکمیل سے بھارت اور یورپ کے درمیان سامان ِ تجارت کے سفر کا فاصلہ ''40''فیصد تک کم ہو جائے گا۔
ابھی تو بھارتی سامان پہلے بحیرہ عرب میں سفر کرتا پھر وہاں سے بحیرہ احمر کی سمت جاتا اور پھر نہر سوئز سے گذر کر یورپ و امریکا کی طرف رواں دواں ہوتا ہے۔ انڈیا ۔مڈل ایسٹ۔ یورپ کوریڈور بن جانے پر فاصلے میں چالیس فیصد کمی کچھ مبالغہ لگتی ہے تاہم یہ حقیقت ہے کہ خاصا فاصلہ کم ہو جائے گا۔
اخراجات کم ہوں گے یا زیادہ؟
لیکن کیا اس منصوبے سے سامان کی نقل وحمل کا خرچ بھی کم ہو گا؟اس بابت ماہرین نے اپنی آرا کا اظہار نہیں کیا۔ ابھی بھارت سے ایک بحری جہاز سامان لاد کر چلے تو وہ یورپ میں اپنی منزل تک پہنچ کر ہی سامان اتارتا ہے۔ مگر انڈیا ۔مڈل ایسٹ۔ یورپ کوریڈور نے عملی شکل اختیار کر لی تو صورت حال کچھ یوں ہو گی:
بھارت سے چلا بحری جہاز متحدہ عرب امارات کی بندرگاہ پہ سامان اتارے گا۔ یہ سامان پھر ریل پر لادا جائے گا۔ یہ ریل حیفہ پہنچ کر سامان اتارے گی۔
حیفہ سے سامان پھر بحری جہاز پہ لادا جائے گا۔ وہ بحری جہاز پھر کسی یورپی یا امریکی بندرگاہ پہنچ کر سامان اتارے گا۔ گویا اس منصوبے کے باعث تجارتی سامان کے سفر میں اتارنے اور لادنے کے مذید چار مراحل شامل ہو جائیں گے۔
ظاہر ہے، ان مرحلوں کی وجہ سے سفر کی لاگت بڑھ جائے گی۔ انڈیا ۔مڈل ایسٹ۔ یورپ کوریڈور سے یقیناً بھارت اور یورپی یونین و امریکا کے مابین تجارتی سفر کا فاصلہ کم ہو گا، مگر سامان کی نقل وحمل کے اخراجات بھی بڑھ جائیں گے۔
گویا یہ منصوبہ اتنا بھی مفید اور منافع بخش نہیں جتنا انقلاب ساز بنا کر اسے پیش کیا جا رہا ہے۔سچ یہ ہے کہ اگر عملی طور پہ تجارتی سفر کے اخرجات حد سے زیادہ بڑھ گئے تو عین ممکن ہے، یہ منصوبہ کبھی پایہ تکمیل تک نہ پہنچ سکے۔
اسی لیے ماہرین کا ایک گروہ دعوی کرتا ہے کہ یہ محض ایک تصوّراتی منصوبہ ہے...اسے امریکی اسٹیبلشمنٹ نے جلد بازی میں تخلیق کیا تاکہ مشرق وسطی میں چین کے بڑھتے اثرورسوخ کے آگے بند باندھا جا سکے۔
چین کا مشرق وسطی میں دخول
یاد رہے، سال رواں کے ماہ مارچ میں چین نے ایران اور سعودی عرب کے مابین دوستانہ معاہدہ کرا کر دنیا بھر میںہلچل مچا دی تھی۔ اس معاہدے پہ خصوصاً عالم اسلام میں چین کو بہت سراہا گیا جس نے دو اہم اسلامی ممالک کے مابین صلح کروا کر نمایاں کارنامہ انجام دیا۔یوں ثابت ہو گیا کہ چین عالمی سطح پہ ایک بڑی طاقت بن چکا۔ امریکا روایتی طور پہ مشرق وسطی میں سپر پاور کی حیثیت رکھتا ہے۔
اسی لیے اس معاہدے سے امریکا کی حیثیت کو نقصان پہنچا ۔امریکی اسٹیبلشمنٹ کو خطے میں اپنی اہمیت کم ہوتی محسوس ہوئی۔ امریکی میڈیا کے مطابق بعد ازاں امریکی خفیہ ایجنسی، سی آئی اے کے سربراہ ، بل برنز نے سعودی ولی عہد، شہزادہ محمد بن سلمان کو درج بالا معاہدے کے سلسلے میں بتایا ''جب ہمیں اس کا پتا چلا تو ہم حیران پریشان رہ گئے۔''
بھارت و یورپی ممالک کی بڑھتی تجارت
یہ بہرحال حقیقت ہے کہ بھارت اور یورپی ممالک وامریکا باہمی تجارت بڑھانا چاہتے ہیں۔ ماہرین معاشیات کی رو سے رواں سال بھارت کا نومنل جی ڈی پی 3.7 ٹریلین ڈالر جبکہ پی پی پی جی ڈی پی13 ٹریلین ڈالر تک پہنچ جائے گا۔
پہلے لحاظ سے بھارت دنیا کی پانچویں بڑی جبکہ دوسرے اعتبار سے تیسری بڑی معیشت قرار پاتا ہے۔یورپی ممالک کانومنل جی ڈی پی 24.22 ٹریلین ڈالر جبکہ پی پی پی جی ڈی پی 35.56 ٹریلین ڈالر تک پہنچ گیا ہے۔
گویا یہ خطہ پہلے اور دوسرے، دونوں لحاظ سے دنیا کی دوسری بڑی معیشت بن چکا۔جبکہ امریکا اب بھی نومنل جی ڈی پی کے حساب سے دنیا کی سب سے بڑی معیشت ہے۔لہذا آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑی مملکت، بھارت اور یورپی ممالک وامریکا کی باہمی تجارت میں اضافہ فطری بات ہے۔
انڈیا ۔مڈل ایسٹ۔ یورپ کوریڈور بن جانے پہ بھارتی سامان بذریعہ سمندر پہلے امارت کی بندرگاہ فجیرہ پہنچے گا۔ وہاں سے پھر ریلیں اسے اسرائیلی بندرگاہ حیفہ تک لے جائیں گی۔
ریل کا یہ سفر 2915 کلومیٹر طویل ہے۔ اس میں 1095 کلومیٹر پہ ابھی ریل کی پٹڑی موجود نہیں۔ تاہم 536 کلومیٹر کے علاقے میں ریل پٹڑی بچھانے کا کام شروع ہو چکا۔ گویا 559 کلومیٹر علاقے میں ریل پٹڑی بچھانے کا کام باقی ہے۔اس منصوبے پہ اربوں ڈالر خرچ ہوں گے ۔
چین اور پاکستان بھی فائدے میں
دلچسپ بات یہ ہے کہ مشرق وسطی میں ریلوے نیٹ ورک کی تکمیل سے چین اور پاکستان، دونوں کو بھی فائدہ پہنچے گا جنھوں نے ''چین پاکستان اقتصادی راہداری''کے نام سے اپنا تجارتی ومعاشی منصوبہ شروع کر رکھا ہے۔ یہ منصوبہ چین کے زیادہ بڑے اور عالمی منصوبے''بیلٹ اینڈ روڈ انشیٹیو''کا حصہ ہے۔چین اپنے منصوبے کے مطابق پاکستانی بندرگاہ گوادر کو مسلسل اپ گریڈ کر رہا ہے۔
اس کے ذریعے خاص طور پہ مغربی اور وسطی چین میں بننے والا سامان مشرق وسطی اور شمالی ووسطی افریقا تک پہنچانا مقصود ہے۔ اسی طرح مشرق وسطی اور افریقا سے سامان گوادر کے راستے مغربی اور وسطی چین تک باآسانی پہنچایا جا سکتا ہے۔ بحر ہند اور بحرالکاہل کے راستے سامان کی نقل وحمل کا بحری راستہ تو بہت طویل پڑتا ہے۔
حکومت چین کے نقطہ نظر سے گوادر کی ایک اہمیت یہ بھی ہے کہ کبھی تائیوان سے جنگ چھڑی اور بحیرہ چین میں تجارتی جہازوں کی آمدورفت ممکن نہ رہی تو چینی مملکت گوادر کے راستے بھی بیرون دنیا سے تجارت بحال رکھ سکتی ہے۔
اس تجارت کو درحقیقت مشرق وسطی میں انجام پاتا ریلوے نیٹ ورک تقویت پہنچائے گا اور چین پاکستان اقتصادی راہداری کی اہمیت میں اضافہ کر دے گا۔
عرب ریلوے نیٹ ورک اور چین
وجہ یہ ہے کہ چین کے متحدہ عرب امارات، سعودیہ، اردن اور اسرائیل، سبھی ممالک سے دوستانہ تعلقات ہیں۔ چین ہی امریکا کے بعد اسرائیل کا سب سے بڑا تجارتی ساتھی بن چکا۔ اسی طرح چین سعودیہ کا سب سے بڑا اور امارات و اردن کا دوسرا بڑا تجارتی ساتھی ہے۔
لہذا چین اگر ان ممالک سے گذرتا ریلوے نیٹ ورک استعمال کرنا چاہے گا تو یہ ملک کبھی انکار نہیں کریں گے۔ یوں چین کو انڈیا ۔مڈل ایسٹ۔ یورپ کوریڈور بن جانے سے ایک پیسا خرچ کیے بغیر یورپ وامریکا تک پہنچنے کا ایک اور تجارتی راستہ مل جائے گا ۔
تب ممکن ہو گا کہ مغربی اور وسطی چین میں بننے والا سامان پاکستان کے راستے عرب ریلوے نیٹ ورک کی وساطت سے یورپ و امریکا بھیجا جا سکے۔ اس تجارت سے پاکستان کو بھی مالی فائدہ ہو گا کہ وہ راہداری ٹیکسوں کی صورت کثیر مقدار میں قیمتی زرمبادلہ کما سکے گا۔
یہ واضح رہے کہ رواں سال چین پی پی پی جی ڈی پی کے لحاظ سے دنیا کی سب سے بڑی معاشی قوت بن گیا ہے۔ اس کٹیگری میں چین کا جی ڈی پی ''33 ٹریلین ڈالر''تک پہنچ چکا۔ جبکہ اس کا نومنل جی ڈی پی19.37 ٹریلین ڈالر کے آس پاس ہے۔ کچھ عرصے سے چین کی معیشت کوویڈ وبا اور قدرتی آفتوں کی وجہ سے سست رفتار ہو چکی لیکن بتدریج وہ پھر ترقی کر رہی ہے۔ چین ہی درآمدات میں یورپی ممالک کا سب سے بڑا ساتھی ہے۔
جبکہ برآمدات میں تیسرا بڑا ساتھی ہے۔روزانہ چین اور یورپی ممالک کے مابین ڈھائی ارب ڈالر کی تجارت ہوتی ہے۔اسی طرح چین ہی امریکا کا بہت بڑا تجارتی ساتھی بھی ہے۔ دونوں کے مابین سالانہ تقریباً سات سو ارب ڈالر کی باہمی تجارت ہوتی ہے۔
نئی تجارتی راہداریاں
امریکا کے بعد بھارتی سامان سب سے زیادہ یورپ جاتا ہے۔ گویا یورپی ممالک بھارت کے دوسرے بڑے تجارتی ساتھی ہیں۔ تاہم یورپی ممالک کے لیے بھارت دسواں بڑا تجارتی ساتھی ہے۔ یورپی ممالک کا صرف دو فیصد سامان بھارت جاتا ہے۔
اس لحاظ سے انڈیا ۔مڈل ایسٹ۔ یورپ کوریڈور بھارت کے لیے زیادہ اہم ہے۔ اس کی وساطت سے بھارت کو امریکا تک سامان بھجوانے کا بھی نیا راستہ مل جائے گا۔لیکن جیسا کہ بتایا گیا، اس نئے تجارتی راستے کو اختیار کرنے سے اخراجات بڑھ سکتے ہیں۔اسی لیے بھارت اور چین، دونوں یہ راہداری سوچ سمجھ کر ہی اختیار کریں گے۔
چین تو ویسے بھی اپنے بیلٹ اینڈ روڈ انشیٹیو کے تحت یورپ پہنچنے کے لیے دو راہداری منصوبوں پہ کام کررہا ہے۔ ایک منصوبہ ''دی نیو یورشین لینڈ برج'' (The New Eurasian Land Bridge)کہلاتا ہے۔ یہ چین کے سنکیانگ صوبے سے شروع ہو کر براہ قازقستان، روس، بیلارس اور پولینڈ جرمنی تک جاتا ہے۔
دوسرا منصوبے کا نام ''چین۔سنٹرل ایشیا۔ ویسٹرن ایشیا کوریڈور''ہے۔ یہ چین سے شروع ہو کر وسطی ومغربی ایشیائی ممالک سے گذر کر ترکی تک پہنچتا اور وہاں سے یورپ میں داخل ہوتا ہے۔ تاہم یہ دونوں منصوبے فی الحال منجمد ہیں۔ پہلا منصوبہ روس یوکرین جنگ اور دوسرا منصوبہ شام و عراق میں خانہ جنگی کی وجہ سے پایہ تکمیل تک نہ پہنچ سکا۔
گوادر بندرگاہ کی اہمیت دوچند
درج بالا دونوں منصوبوں پہ کام تقریباً ٹھپ ہو جانے کی وجہ سے چین پاکستان اقتصادی راہداری کی اہمیت میں اضافہ ہو چکا کیونکہ فی الحال یہی تجارتی راستہ فعال ہے۔ اگر عرب ممالک میں ریلوے نیٹ ورک کام کرنے لگا تو اس منصوبے کی اہمیت دوچند ہو جائے گی کیونکہ تب چین گوادر کے راستے یورپ و امریکا تک اپنا سامان بھجوانے کے قابل ہو جائے گا۔یہ یاد رہے کہ چین میں مشرقی اور شمالی صوبے زیادہ ترقی یافتہ، صنعتی اور خوشحال ہیں۔
چینی حکومت مگر اب وسطی اور مغربی چینی صوبوں کو بھی ترقی دینا چاہتی ہے جو پاکستان کے قریب واقع ہیں۔اس لیے آنے والے برسوں میں چین پاکستان اقتصادی راہداری میں تجارت بڑھ جائے گی۔
معاشی فوائد بامقابلہ مذہبی نظریات
دلچسپ بات یہ ہے کہ چین او ر بھارت کے درمیان جنگ ہو چکی۔ وقتاً فوقتاً ان کے فوجی آپس میں لڑ بیٹھتے ہیں۔ اور اب امریکہ بھارت کو تھپکی دے رہا ہے کہ وہ چین سے معاشی جنگ چھیڑ دے۔ اس تمام جنگی صورت حال کے باوجود چین اور بھارت کی تجارت جاری وساری ہے۔ درحقیقت ان کی باہمی تجارت کا حجم تقریباً 90 ارب ڈالر تک پہنچ چکا۔
گویا تمام تر اختلافات کے باوجود دونوں ملکوں نے باہمی تجارت بند نہیں کیا اورپڑوسی ہونے سے فائدہ اٹھا کر اپنے اپنے عوام کو ایک دوسرے کی سستی اشیا فراہم کر رہے ہیں۔ وجہ یہ کہ پڑوسی ہونے کے ناتے ایک دوسرے کے سامان ِتجارت پہنچانے پہ کم لاگت آتی ہے۔
درج بالا مثال مدنظر رکھتے ہوئے بعض ماہرین معاشیات حکومت پاکستان کو بھی مشورہ دیتے ہیں کہ وہ بھارت سے باہمی تجارت بحال کر دے۔ اس سے عوام کو فائدہ ہو گا کہ انھیں خاص طور پہ کھانے پینے کی سستی بھارتی اشیا میّسر آئیں گی۔ فی الوقت پاکستان میں اشیائے خورونوش کافی مہنگی ہیں۔ ایک وجہ یہ بھی ہے کہ کھانے پینے کی اشیا پاکستان سے باہر جا رہی ہیں، مثلاً چاول، گوشت، سبزیاں اور پھل۔
ماہرین یہ دلیل بھی دیتے ہیں کہ اب تو اسرائیل اور سعودی عرب بھی قریب آ رہے ہیں تاکہ باہمی تجارت شروع کر کے معاشی فوائد سے مستفید ہو سکیں۔ تاہم روایت پسند مسلمانوں کو سعودی حکومت کی اسرائیل سے دوستی پسند نہیں، وہ سمجھتے ہیں کہ اس طرح فلسطینیوں کی تحریک آزادی کمزور پڑ جائے گی اور انھیں ضعف پہنچے گا۔
اسی طرح پاکستان میں بھی کئی رہنما بھارت سے تجارت کرنے کے مخالف ہیں۔ ان کے نزدیک اس طرح تحریک آزادی کشمیر کو نقصان پہنچے گا۔گویا بھارت اور اسرائیل سے تجارتی تعلقات کے معاملے میں عالم اسلام میں معاشی فوائد اور مذہبی اعتقادات کا ٹکراؤ جنم لے چکا۔
شہزادہ محمد بن سلیمان کا ویژن
سعودی عرب میں ولی عہد ، شہزدہ محمد حقیقی حکمران ہیں۔ وہ سعودیہ کو جدید تقاضوں کے مطابق ڈھالنا چاہتے ہیں۔ نیز معاشی طور پہ ان کی حکمت عملی یہ ہے کہ مملکت اب صرف تیل کی آمدن پہ انحصار نہ کرے بلکہ آمدنی کے دیگر ذرائع بھی دریافت کیے جائیں، مثلاً کلاؤڈ کمپیوٹنگ، سیاحت، صنعت وحرفت، تجارت، لاجسٹک وغیرہ۔اس حکمت عملی پر عمل کرنے کے لیے سعودیہ میں بہترین ریلوے نیٹ ورک کی موجودگی لازم ہو چکی۔
پہلی وجہ یہ ہے کہ شہزادہ محمد سعودیہ کے طول و عرض میں اربوں ڈالر خرچ کر کے نئے شہر بسا رہے ہیں جو جدید ترین سہولیات سے لیس ہوں گے۔ ان شہروں کے درمیان رابطے کی خاطر ریل پٹڑی کا ہونا ضروری ہے۔ دوسری وجہ یہ کہ سعودیہ بھارت و چین اور یورپ و امریکا کے درمیان زمینی پل بن گیا ہے۔ اگر سعودیہ میں ریلوے نیٹ ورک بن جائے تو ایشائی ممالک اور یورپ و امریکاکے درمیان اس کے ذریعے اچھی خاصی تجارت ہو سکتی ہے۔
اس طرح سعودیہ راہداری ٹیکسوں کی مد میں ہر سال خوب قرم کما سکتا ہے۔تیسری وجہ یہ کہ ماہرین معدنیات کی رو سے سعودیہ کی زمین میں تقریباً ڈیڑھ ٹریلین ڈالر کی دھاتیں اور معدن پوشیدہ ہیں۔ چناں چہ سعودی حکومت انھیں نکالنے کے لیے کان کنی صنعت کو فروغ دے رہی ہے۔ مگر اس سلسلے میں ریلوے نیٹ ورک ہونا لازم ہے۔
درج بالا وجوہ سے عیاں ہے کہ اگر انڈیا ۔مڈل ایسٹ۔ یورپ کوریڈور کسی وجہ سے عملی جامہ نہیں پہن پاتا تب بھی کم از کم سعودیہ میں ریلوے نیٹ ورک کی تعمیر جاری رہے گی۔
سعودی حکومت اس منصوبے پہ اربوں ڈالر خرچ کر رہی ہے تاکہ مملکت میں رابطے اور نقل وحمل کا یہ تیزرفتار اور وسیع ذریعہ جنم لے سکے۔یاد رہے دنیا میں 80 فیصد تجارت بحری جہازوں کے ذریعے ہوتی ہے۔اس کے بعد ریلیں ہی نقل وحمل کا دوسرا بڑا ذریعہ ہیں۔
راہ مشکلات سے پُر
انڈیا ۔مڈل ایسٹ۔ یورپ کوریڈورکے ایم او یو میں درج ہے کہ اگلے ساٹھ دن میں منصوبے کا ایکشن پلان تیار ہو جائے گا، معنی یہ کہ سبھی ممالک کیونکر مل کر اسے انجام دیں گے۔ کون کون سا ملک منصوبے پر کتنی رقم خرچ کرے گا۔ کس کس کو کتنا منافع ملے گا۔
اور بہت سے اصول، ضوابط اور شرائط جو ایسا بین الاقوامی پروجیکٹ بناتے وقت منصوبے میں شریک ممالک طے کرتے ہیں۔پرگ کھنہ(parag khanna) امریکا کے ممتاز بھارتی نژاد ماہر جیوپالیٹکس اور گلوبل آئزیشن ہیں۔ وہ کہتے ہیں:
''میرا خیال ہے کہ ساٹھ روز میں انڈیا ۔مڈل ایسٹ۔ یورپ کوریڈور کا ایکشن پلان تیار نہیں ہو سکے گا۔ وجہ یہ ہے کہ منصوبے میں شامل اکثر ممالک کئی مسائل میں ایک دوسرے سے اختلافات رکھتے ہیں۔ مثلاً امریکا کے دباؤ پر سعودیہ اور اسرائیل کے مابین تعلقات میں اضافہ ہو رہا ہے۔مگر سعودی حکومت کبھی فلسطینیوں کی آزاد مملکت کے دعوی سے دستبردار نہیں ہو گی۔
اگر ایسا قدم اٹھایا گیا تو اسے عالم اسلام میں شدید تنقید کا نشانہ بننا پڑے گا۔اسی طرح امارات اور اردن ، دونوں بعض معاملات میں سعودیہ سے اختلاف رکھتے ہیں۔
لہذا امریکا اور بھارت کے لیے یہ خاصا کٹھن کام ہو گا کہ وہ تمام عرب ممالک کو انڈیا ۔مڈل ایسٹ۔ یورپ کوریڈور کے اصولوں اور شرائط پہ متفق کر لیں۔اس پروجیکٹ میں شامل ملکوں کو کسٹمز اور تجارت کے سلسلے میں نیا میکنزم بھی بنانا ہو گا۔''
مصر اور ترکی کی مخالفت
ترکی اور مصر نے انڈیا ۔مڈل ایسٹ۔ یورپ کوریڈور کے خلاف آٓواز بلند کر دی ہے۔ یہ یقینی ہے کہ اس مخالفت کی وجہ سے بھارت کے دونوں اسلامی ممالک سے تعلقات خراب ہو جائیں گے۔ دونوں اسلامی ممالک اس لیے ناراض ہیں کہ منصوبہ بناتے وقت ان کے مفادات کا خیال نہیں رکھا گیا۔ترک صدر طیب اردوان کا کہنا ہے کہ ایشیا کی کوئی گذرگاہ ترکی کو نظرانداز کر کے یورپ میں داخل نہیں ہو سکتی۔ مصر کا معاملہ زیادہ سنگین ہے۔
اس وقت بھارت ، چین اور سبھی ایشائی ممالک کا سامان ِتجارت مصر کی نہر سوئزسے گذر کر یورپ جاتا ہے۔ مگر انڈیا ۔مڈل ایسٹ۔ یورپ کوریڈور اسی مصری نہر کو بائی پاس کر دے گا۔ یوں مصر اس کروڑوں ڈالر کی رائلٹی یا ٹیکس سے محروم ہو جائے گا جو نہر سوئز سے گذرنے والے بحری جہاز اسے ادا کرتے ہیں۔ اسی لیے انڈیا۔مڈل ایسٹ۔ یورپ کوریڈور خصوصاً مصر کے لیے نقصان دہ ہے۔ اس کی نہ صرف آمدن کم ہو جائے گی بلکہ مصر کی سیاسی وجغرافیائی اہمیت بھی پست ہو گی۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ نہر سوئز کے ذریعے سامان ِتجارت بھجوانا آسان، سستا اور اتارنے چڑھانے کی پیچیدگیوں سے پاک ہے۔ انڈیا ۔مڈل ایسٹ۔ یورپ کوریڈور سے بھارت کے تعلقات سعودیہ اور امارات سے مزید بہتر ہو جائیں گے مگر مالی طور پہ یہ منصوبہ بھارتی حکومت کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔بلکہ عین ممکن ہے کہ اگلے سال نریندر مودی الیکشن نہ جیت سکا تو نئی حکومت اس پروجیکٹ کو ختم کر دے کیونکہ اس کی مالی نہیں سیاسی حیثیت ہے۔ یہ بنیادی طور پہ امریکی منصوبہ ہے جو مشرق وسطی اور ایشیا میں چین کے بڑھتے اثرورسوخ کو محدود کرنے کے لیے بنایا گیا۔
فائدہ اور نقصان
یہ بھی یاد رہے کہ ماضی میں کئی ممالک انڈیا ۔مڈل ایسٹ۔ یورپ کوریڈور سے ملتے جلتے منصوبے شروع کرنے کا اعلان کر چکے۔ مگر جب پروجیکٹ میں شامل ممالک کو معاشی اور جیوپالیٹکس مسائل و رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑا تو منصوبے رفتہ رفتہ مٹی میں مل گئے۔
مثلاً دسمبر 2010ء میں یوپی یونین اور امریکا نے بڑے طمطراق سے ''گلوبل گیٹ وے''(Global Gateway) منصوبے کا اعلان کیا تھا۔ یہ منصوبہ چین کے ''بیلٹ اینڈ روڈ انشیٹیو''کا مقابلہ کرنے کی خاطر بنایا گیا تھا جس پہ چھ سو ارب ڈالر لاگت آنی تھی۔ مگر دو سال گذر چکے، یہ منصوبہ صرف کاغذوں ہی میں زندہ ہے۔
انڈیا ۔مڈل ایسٹ۔ یورپ کوریڈورفوائد رکھتا ہے مگر اس کے منفی پہلو بھی کافی اہم ہیں۔ لہذا یہ وقت ہی بتائے گا کہ منصوبہ عملی جامہ پہن پاتا ہے یا گلوبل گیٹ وے پروجیکٹ کی طرح ناکام ہو کر قصہّ ِپارنیہ بن جائے گا۔
یہ بہرحال طے ہے کہ عرب ممالک میں ریلوے نظام بن جانے سے پاکستان اور چین، دونوںکو مالی وتجارتی لحاظ سے فائدہ ہو گا۔ نیز گوادر بندرگاہ کی وجہ سے پاکستان کی جیوپالیٹکس اہمیت بڑھ جائے گی۔