اپنوں کی غداری
فلسطینی کاز کی حمایت میں ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی پر لٹکایا گیا
www.facebook.com/shah Naqvi
یہ 8دسمبر1917 کی وہ منحوس تاریخ تھی جب انگریزوں کا آخر کار400سال بعد بیت المقدس سمیت فلسطین پر قبضہ ہو گیا۔ جب آپ کو یہ پتہ چلے گا کہ اس قبضے میں انگریزوں کا کون کون مددگار تھا تو آپ یقیناً صدمے سے ڈوب جائیں گے۔
بیت المقدس تیرہ سو سال مسلمانوں کے قبضے میں رہا۔ عیسائیوں نے اسے واپس لینے کے لیے 12صلیبی جنگیں لڑیں لیکن وہ کامیاب نہ ہو سکے۔ ان صلیبی جنگوں میں مورخین کے مطابق 60لاکھ عیسائی کام آئے۔
آپ کو یقین نہیں آئے گا کہ آخری صلیبی جنگ میں بیت المقدس پر قبضے کے لیے انگریزوں کے مددگار نہ صرف یہود و نصاری بلکہ مسلمان بھی شامل تھے۔ چرچل اپنی تصنیف دی گریٹ وار میں لکھتا ہے۔
برطانوی کمانڈر انچیف ہندوستانی فوج کی قیادت کرتے ہوئے ، عرب مسلمانوں کی موجودگی میں واہ واہ مرحبا مرحبا کے نعروں کے ساتھ شہر میں داخل ہوا۔ جارج ٹاؤنسنڈ اپنی کتاب میں لکھتا ہے کہ فلسطین میں شاندار پیش قدمی کا سہرا خاص طور پر ہندوستانی مسلمان افواج کے سر ہے۔
اب آپ خود ہی غور فرمائیں کہ وہ کونسی ہندوستانی مسلمان افواج تھیں اور ان کا برصغیر کے کس حصے سے تعلق تھا۔ لاول ٹامس اپنی کتاب میں کیپٹن لارنس المعروف لارنس آف عریبیہ کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے اسے مقدس جنگجو قرار دیتے ہوئے کہتا ہے کہ اس نے برصغیر اور عرب دنیا کے دین فروشوں اور فتوی بازوں کو ایسا خریدا کہ ان کے کارہائے نمایاں دیکھ کر انگریز بھی دنگ رہ گئے۔
ٹلسن اپنی کتاب "تاریخی جنگ" میں لکھتے ہیں کہ آخری صلیبی جنگ اپنے عروج پر تھی۔ اگر سینٹ لوئس، ریمنڈ اور رچرڈ شاہ انگلستان ان "حیرت افزا" افواج کو دیکھتے تو ان کی روحیں اس وجہ سے حیرت زدہ ہو جاتیں کہ اس فوج کا بہت قلیل حصہ مغربی اقوام یعنی یورپ پر مشتمل تھا۔
الجزائری، ہندی مسلمان، عرب قبائل، ہندوستان کے سیکڑوں فرقوں کے ماننے والے، افریقہ کے حبشی اور یہودی ان لوگوں میں شامل تھے جنھوں نے نصاریٰ کے مقدس شہر کو آزاد کرا لیا تھا۔ اس طرح سات سو سال کے بعد اس شہر نے کسی عیسائی فاتح یا برطانوی سپاہی کو دیکھا۔ بعدازاں سلطنت برطانیہ نے اس راز سے پردہ اٹھا دیا کہ یہ بھی صلیبی جنگ تھی جسے مورخین تیرھویں صلیبی جنگ کہتے ہیں۔
یاد رہے کہ جب مسلمان افواج پر مشتمل لشکر فلسطین فتح کرتے ہوئے بیت المقدس پہنچا تو بغیر جنگ کے ترکوں کے آخری سپاہی نے شہر خالی کر دیا۔ اس طرح چار سو سالہ عثمانی دور کا خاتمہ ہو گیا جس میں شریف مکہ کی سازشیں بھی شامل تھیں۔
عثمانی دور وہ طویل دور تھا جس میں تمام مذاہب کے افراد کے لیے رواداری اور اعلیٰ ظرفی کا رویہ اپنایا گیا۔ یہاں تک کہ اس وقت کے ترک حکمران سلطان سلیمان قانونی نے الخلیل گیٹ پر ابراہیم علیہ السلام کے کلمے پر مشتمل عبارت کندہ کروا کر عیسائیوں اور یہودیوں کی تالیف قلب کی ۔
اس کے بعد فلسطینیوں پر ظلم و ستم کی طویل تاریخ ہے جس میں فلسطینیوں کو مسلسل کیڑے مکوڑوں کی طرح مارا جا رہا ہے۔ حالیہ حماس کا حملہ صہیونی اسرائیل اور امریکا کو یاد دہانی ہے کہ مسئلہ فلسطین تمام مسائل کی جڑ ہے اور جب تک یہ مسئلہ منصفانہ طور پر حل نہیں کر لیا جاتا خطہ میں امن قائم ہونا ممکن نہیں اس مسئلے کا واحد حل دو ریاستی حل ہے جس میں مزید تاخیر تیسری عالمی جنگ کا آغاز بن سکتی ہے، اسرائیلی وزیر اعظم نے یہ دھمکی دی ہے کہ وہ آنے والے وقت میں مشرقی وسطی کا نقشہ بدل دیں گے۔
اس سے پہلے ایسی ہی دھمکی امریکی بلیک وزیر خارجہ کنڈولیزا رائس بھی 17سال پہلے تل ابیب میں بیٹھ کر دے چکی جب اس نے نئے مشرق وسطی کی پیدائش کا نعرہ لگایا تھا۔ لیکن لبنانی حزب اﷲ نے اکیلے اسرائیل جیسی فوجی قوت کو وہ عبرت ناک شکست دی جسے تمام عرب ممالک مل کر بھی شکست نہیں دے سکے ۔
آج ایک ایران بچا ہے جو حماس اور حزب اﷲ کے شانہ بشانہ ہے ۔ امام خمینی نے پہلے دن ہی اسرائیل نامنظور اور فلسطین بیت المقدس کی آزادی کا نعرہ لگایا جس کی قیمت ایران نے لاکھوں انسانوں کی قربانیوں اور بے پناہ معاشی اور عسکری تباہی کی شکل میں ادا کی اور آج تک مسلسل ادا کر رہا ہے۔ ماضی میں شام اور لیبیا تھے جو فلسطین کاز کے ساتھ کھڑے رہتے تھے لیکن ان کو اس جرم میں امریکا نے تباہ کر دیا۔
صرف یہی نہیں فلسطینی کاز کی حمایت میں ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی پر لٹکایا گیا کیونکہ انھوں نے عرب اسرائیل جنگ میں پاکستانی پائلٹ شام بھیجے جنھوں نے اسرائیلی طیاروں کو مار گرایا۔ شاہ فیصل کو قتل کروایا گیا۔ لیکن سب سے بڑا ستم یہ ہوا جب افغان مجاہدین اور طالبان نے افغانستان میں امریکی جنگ میں امریکا کا ساتھ دے کر دنیا پر اس کا قبضہ کروا دیا۔
نتیجے میں ایک طرف افغانستان لاکھوں کی تعداد میں افغانوں کا قبرستان بنا تو دوسری طرف شام اور لیبیا کو بھی تباہ کر دیا گیا فلسطینیوں کی حمایت کے جرم میں... اور آج افغانستان کی اپنی صورت حال یہ ہے کہ اس کی معیشت 30فیصد تک سکڑ گئی ہے۔ 95فیصد عوام خط غربت سے نیچے ہیں اور پاکستانی چوری کے 8ارب ڈالر زسے ڈوبی ہوئی افغان معشیت چلائی جا رہی ہے۔ کہاں ہیں افغان طالبانوں کے مددگار سہولت کار اور ہمدرد ۔
اسرائیل حماس حملہ کیا نتائج لائے گا اس حوالے سے اہم تاریخیں 15-16اور 18-19-20-21 اکتوبر ہیں۔