کہاں ہیں عرب اور کہاں ہیں مسلمان
دنیا بھرکی یہودی کمیونیٹی سے ایسی آوازیں بلندہونا شروع ہوگئی ہیں جوکھل کراسرائیل اوراس کے سرپرستوں کی مذمّت کررہی ہیں
غزہ کے مظلوم فلسطینیوں پر کوئی کیا لکھے اور اسے کیا عنوان دے! اسرائیل نے درندگی کے تمام ریکارڈ توڑ دیے ہیں۔
چالیس لاکھ فلسطینیوں کو صفحۂ ہستی سے مٹادینے کے لیے ان پر اوپر سے آگ اور بارود برسا رہا ہے اور نیچے ان کی بجلی اور پانی کے کنکشن کاٹ دیے ہیں۔
وہ ہمارے سامنے موت کے منہ میں جارہے ہیں، مائیں معصوم بچوں کی لاشیں اُٹھائے پکارہی ہیں کہ ''کہاں ہیں عرب اور کہاں ہیں مسلمان بھائی! دیکھو ہمارے ساتھ کیا ہورہا ہے!!'' دکھ اور شرم کے مارے یہ مناظر دیکھنے کی ہمّت نہیں پڑتی۔نئی نسل اور نئے حکمران شاید نہیں جانتے کہ ہمارا فلسطینی بھائیوں کے ساتھ رشتہ کتنا پرانا ہے۔
1940میں قائدِاعظم نے دو قراردایں منظور کرائی تھیں، ایک علیحدہ ملک پاکستان کے لیے اور دوسری فلسطینیوں سے اظہارِ یکجہتی کے لیے۔ پاکستان کے پہلے وزیرِخارجہ کو اقوامِ متحدہ میں فلسطین کا Defecto وزیرِخارجہ کہاجاتا تھا۔
تمام غیر جانبدار مبصرین کے بقول حماس کی کارروائی، اسرائیل کے بے پناہ مظالم کا قدرتی ردِّعمل اور اپنی آزادی کے لیے جدوجہد کا حصہ ہے جس کی یو این او کا چارٹر اجازت دیتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ حماس کا وہ پُراسرار کمانڈر کون ہے جس نے اسرائیل پر حملے کا منصوبہ تیار کیاپھر دنیا کے جدید ترین سیکیوریٹی سسٹم کو روند ڈالا اور اسرائیل کے اندر گُھس کر ان کی ملٹری پوسٹوں پر قبضہ کیا اور ایک میجر جنرل سمیت درجنوں فوجیوں کو قیدی بنا لیا۔
باخبر ذرایع کے مطابق اس حیرت انگیز آپریشن کا منصوبہ ساز حماس کا طلسماتی کردار اور کرشماتی کمانڈر محمد دائف ہے جو اس آپریشن کی منصوبہ بندی پچھلے دو سالوں سے کررہا تھااور جس نے خود اس کا نام ''طوفان الاقصیٰ'' رکھا تھا۔
محمد دائف نے اس آپریشن کا فیصلہ اُسی وقت کرلیا تھا جب مئی 2021میں اسرائیل نے مسلمانوں کے قبلۂ اوّل مسجد الاقصیٰ کی بے حرمتی کی تھی۔ جب ٹی وی اسکرینوں پر دکھایا گیا کہ اسرائیلی فوجی رمضان المبارک کے مقدّس مہینے میں عبادت کے لیے آنے والے فلسطینی مسلمانوں پر ٹوٹ پڑے، عورتوں کو بندوقوں کے بٹ اور ٹُھڈّے مارے گئے، بوڑھوں کو بے دردی سے لٹا کر ان پر تشدد کیا گیا اور گھسیٹ کر مسجد سے باہر پھینک دیا گیا۔
ٹی وی اسکرینوں پر وہ مناظر دیکھ کر دنیا بھر کے مسلمانوں میں غم و غصّے کی لہر دوڑ گئی، کچھ عرب نوجوانوں نے اس پر تحریرو تقریر کے ذریعے ردّ ِعمل کا اظہار کیا مگر محمد دائف جیسے مجاہد نے اس کا عملی جواب دینے کا فیصلہ کیا۔ عالمی میڈیا کے مطابق اسرائیلی فوج اور اس کے خفیہ ادارے محمد دائف کو جان سے مارنے کی سات بار کوشش کرچکے ہیں۔
اس پر آخری حملہ 2021میں کیا گیا تھا، وہ بچ گیا لیکن ایک آنکھ ضایع ہوگئی ، چونکہ اسرائیلی خفیہ ایجنسیاں اس کا پیچھا کررہی ہیں اس لیے وہ خود منظرِ عام پر نہیںآتا اور شاید ہی کبھی کسی نے اس کی تصویر دیکھی ہو۔ اس نے کبھی کسی مجمع سے خطاب نہیں کیا مگر فلسطینیوں کا بچہ بچہ اس کا نام جانتا ہے کیونکہ وہ ان کا ہیرو ہے۔
ذرایع بتاتے ہیں کہ 2014 میں اسرائیل کے ہوائی حملے میں اس کی بیوی، سات ماہ کا بچّہ اور تین سال کی بیٹی تینوں شہید ہوگئے تھے ۔ اب تازہ حملوں میں اسرائیل نے اس کے والد کے گھر پر بمباری کی ہے جس سے اس کا بھائی اور دوسرے فیملی ممبر شہید ہوگئے ہیں۔
ٹی وی اسکرینوں پر مختلف مناظرسامنے آرہے ہیں، ایک نوجوان کسی اینکر سے بات کررہا ہے کہ ''غزہ جو ملبے کا ڈھیر بن گیا ہے، کہنے کو ایک انسانی بستی ہے جہاں بیس لاکھ انسان رہتے ہیں مگر دراصل وہ ایک بڑی جیل ہے۔
جہاں سودا سلف کے لیے گھر سے نکلنے والوں کو اسرائیل کی قائم کردہ درجنوں چیک پوسٹوں سے گذرنا پڑتا ہے جہاں اسرائیلی فوجی فلسطینی عورتوں اور بچوں کو بھی دہشت گرد سمجھ کر کتوں کے ذریعے ان کی تلاشی لیتے ہیں۔ کینسر کے موذی مرض میں مبتلا ایک بوڑھی خاتون جو پاؤں گھسیٹتے ہوئے چل رہی تھی چوتھے ناکے پر تلاشی کے دوران گر پڑی جسے اسرائیلی فوجی نے ٹھڈے مار کر ایک طرف دھکیل دیا۔
یہ پہلا واقعہ نہیں یہ تو معمول ہے اور یہاں کے مکین کئی دہائیوں سے یہ عذاب سہہ رہے ہیں۔ وہ حقیقت میں جانوروں سے بدتر زندگی گزاررہے ہیں۔
مگر اس سے زیادہ دکھ کی بات یہ ہے کہ ان کی چیخیں دنیا کے کسی ایوان تک نہیں پہنچ رہیں، انسانی حقوق کا کوئی نام لیوا ان کے زخموں پر مرہم رکھنے کے لیے تیار نہیں، کوئی ملک ظالم کا ہاتھ روکنے کی جرأت نہیں کرتا۔'' یہ کسی فلسطینی کی فریاد نہیں بلکہ ایک یہودی صحافی کے الفاظ ہیں جو کل ایک ٹی وی چینل پر تجزیہ کررہا تھا۔
ایک اور منظر سامنے ہے اپنے مکان کے ملبے پر کھڑا ایک روتا ہوا معصوم بچہ پکاررہا ہے، ''میری امی، ابو اور بھائی کو اسرائیل کے بمبوں نے ماردیا ہے۔
کوئی ہے جو ہماری مدد کے لیے آئے۔'' اس کی پکارپتھر کے دل بھی پاش پاش کردے مگر مسلم دنیا کے حکمران غلامی کا کمبل اوڑھ کر بے حس پڑے ہوئے ہیں۔
اس پکار کا جواب صرف آئرلینڈ کی پارلیمنٹ سے آیا جس میں ایک وزیر نے کھڑے ہو کر کہا ''میں آئرلینڈ کے عوام کی طرف سے مظلوم فلسطینی بچے کو یقین دلاتا ہوں کہ ہم تمھارے ساتھ ہیں'' اسلامی ممالک سے صرف ایک آواز سنائی دی ہے کہ ''اگر یروشلم ہم سے چھن گیا تو پھر جکارتہ ، استنبول اور اسلام آباد بھی ہمارے پاس نہیں رہیں گے، اور اگر استنبول اور اسلام آباد نہ رہے تو پھر مکہ اور مدینہ بھی نہیں رہے گا''آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ یہ آواز ترکی کے جرأت مند لیڈر طیب اردوان ہی کی ہوسکتی ہے۔
اردوان کے مرحوم قائد اربکان نے کہا تھا کہ ''ڈیڑھ ارب مسلمان آسمان کی طرف منہ کیے ابابیلوں کے منتظر ہیں کہ وہ آکر ہمیں چھوٹے سے ملک اسرائیل سے بچائیں۔ یاد رکھو! اس بار اگر ابابیلیں اتریں تو وہ اسرائیل پر نہیں مسلمانوں پر پتھر برسائیں گی۔''
مظلوم فلسطینی باشندوں پر جب اسرائیل نے ظلم اور بربریّت کے پہاڑ توڑ ڈالے تو خود اسرائیل سے اور دنیا بھر کی یہودی کمیونیٹی سے ایسی آوازیں بلند ہونا شروع ہوگئی ہیں جو کھل کر اسرائیل اور اس کے سرپرستوں کی مذمّت کررہی ہیں۔
ایک یورپی ملک کا سابق وزیر کہہ رہا ہے ''اس صورتِ حال کے بڑے مجرم ہم ہیں یعنی یورپ اور امریکا جو ظالم کو روکتے نہیں اور انسانوں پر اتنا ظلم دیکھ کر بھی نہ صرف خاموش ہیںبلکہ ظالم کی مدد کررہے ہیں جس طرح امریکا اور یورپ نے ساؤتھ افریقہ میں نسل پرست حکومت کا خاتمہ کیا تھا۔
اسی طرح اسرائیل کی نسل پرست حکومت کا خاتمہ کرے، تب ہمارے گناہوں کا کفارہ ادا ہوگا۔'' حق اور باطل کے حلیف اور حریف واضح ہوکر سامنے آگئے ہیں، خود امریکا اور یورپ میں فلسطینیوں کے حق میں بہت بڑے بڑے جلوس نکل رہے ہیں اور مشرق میں اسرائیل کی ظالم اور نسل پرست حکومت کا کوئی ہمنوا بنا ہے تو وہ ہندو توا کے علمبردار بھارت کے حکمران ہیں۔
سات اکتوبر نے تمام کرداروں کے نقاب اتار دیے ہیں، ایک طرف مسلم ممالک کے حکمرانوں کی بے حسی کھل کر سامنے آئی ہے اور دوسری جانب نام نہاد ''مہذّب'' مغرب کا شدید تعصب اور نسل پرستی پوری طرح بے نقاب ہوگئی ہے'' امریکا اور یورپ فلسطینی بچوں کا قتلِ عام جائز سمجھتا ہے، ان پر بارود اور آگ کی بارش کو درست قرار دیتا ہے۔
ان پر بجلی اور پانی بند کرنا اسرائیل کا حق سمجھتا ہے، وہ چالیس لاکھ فلسطینیوں کو انسانوں کا بنیادی حق دینے کے لیے تیار نہیں ہے۔ وہ انھیں انسان سمجھنے کے لیے بھی تیار نہیں کیونکہ ان کی نسل اور عقیدہ مختلف ہے۔
حیرت ہے کہ ایسی سوچ کے حامل لوگوں کو ہم حقارت سے دیکھنے کے بجائے اپنے سے برتر سمجھتے ہیں اور ان کی تہذیب کی نقّالی کرتے ہیں جو ہمارے بدترین احساسِ کمتری کا غمّاز ہے۔ مشرق کے بے مثل شاعر سو سال پہلے مسلمانوں کو منتبہ کرگئے تھے کہ ان سے خیر کی امید مت رکھو کہ ان کی رگِ جاں پنجۂ یہود میں ہے۔
ان کا چہرہ سفید ہے مگر ان کا اندرون چنگیز سے تاریک تر ہے اور ان کی دانش اور حکمت دراصل ہوس کے پنجۂ خونی میں تیغِ کارزاری کے سوا کچھ نہیں۔ جب مجرموں کی نشاندہی ہورہی ہے تو یہ اعتراف کرنا ہوگا کہ ہم خود بھی مجرم ہیں جو اپنی موج مستیوں اور اپنے میلوں کھیلوں میں مست ہیں اور ہمیں اپنے مظلوم بھائیوں کے مصائب اور دکھوں کا ذرا بھی احساس نہیں ہے۔
بہرحال فوری طور پر کرنے والے کام یہ ہیں کہ او آئی سی کا سربراہی اجلاس بلایا جائے جو امریکا اور یورپ پر دباؤ ڈال کر اسرائیل کی درندگی کو رکوائے۔ اور ریڈکراس جیسی تنظیموں کے ذریعے طبّی امداد، پینے کا پانی، خوراک اور خیمے فوری طور پر غزہ بھیجنے کا انتظام کرے۔ تمام مسلم ممالک اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات ختم کریں اور اس سے ہر قسم کی تجارت بند کردیں۔ تمام مسلم ممالک اسرائیلی مصنوعات کا مکمل بائیکاٹ کریں۔
ایک بات بہرحال یقینی ہے کہ 7 اکتوبر نے مشرقِ وسطیٰ ہی نہیں پوری دنیام میں تبدیلی کی دستک دے دی ہے۔ فلسطینیوں کی قربانیوں اور ان کے خون میں آزادی کی چمک نظر آتی ہے کہ مسلم ملت کا شاعر اور حکیم بتا چکا ہے کہ خونِ صد ہزار انجم سے ہوتی ہے سحر پیدا۔