حماس بمقابلہ اسرائیل کیا جنگ مسئلے کا حل ہے آخری حصہ

اسرائیل اور فلسطین کا تنازعہ اتنا سادہ نہیں جتنا عام طور پر سمجھا جاتا ہے


Zahida Hina October 18, 2023
[email protected]

اسی طرح ہمیں اس حقیقت سے بھی آگاہ ہونا چاہیے کہ ''کاروان آزادی'' جہاز پر جس کا ذکر پچھلے کالم میں کیا گیا تھا اسرائیل عرب کینسیٹ کی ممبر پارلیمنٹ حنان ال زویبی بھی سوار تھیں جنھوںنے حملے کے وقت اسرائیلی فوجیوں کو عبرانی میں میگا فون سے خبردار کیا کہ وہ حملے سے باز رہیں کیونکہ اس پر غیر مسلح رضاکار اور دنیا کے مختلف ملکوں سے آئے ہوئے صحافی سوار ہیں۔

اس ''کاروان آزادی'' کے سب سے بڑے جہاز پر فلسطینیوں سے یک جہتی کے اظہار کے لیے سوار جرمن پارلیمنٹ کے تین ارکان انیتے گروتھ' انگے ہوگر اور نارمن پیج سوار تھے۔ جہازوں کے اس کاروان میں 40 ملکوں کے لوگ شامل تھے۔

ان میں امریکی شہری گریٹا برلن شامل تھی جو 1960سے فلسطینیوں کے ساتھ انصاف کے لیے ہونے والی جدوجہد میںشامل رہی ہے۔ اس نے مقبوضہ مغربی کنارے کے تین سفر کیے ہیں اور فلسطینیوں کی تباہ حالی کے بارے میں بلاکم وکاست لکھا ہے۔

جولائی 2003 میں جنین پر لگی ہوئی تاروں کی باڑھ میں جو دروازہ لگا ہوا تھا اسے گرانے کی کوشش کرتے ہوئے وہ اسرائیلی سپاہیوں کی چلائی ہوئی گولیوں سے زخمی ہوئی تھی۔ اس جہاز پر امریکی شہری میڈی ایپسٹین بھی تھی۔

میڈی کی عمر 86برس ہے۔ وہ نسلاً اور مذہباً یہودی ہے۔ جرمنی میں 1924 میں پیدا ہوئی، اس کے ماں باپ نازی کنسنٹریشن کیمپ میں زہریلی گیس سے ہلاک کیے گئے۔ میڈی ان کی اکلوتی اولاد تھی جو خوش بختی سے زندہ رہ گئی اور ان دس ہزار یہودی بچوں کے ساتھ امریکا بھیج دی گئی جو نازیوں کے ہاتھوں سے بچ رہے تھے۔

اس ''کاروان'' میں 63 سالہ امریکی نرس کیتھرین شینز بھی شامل تھی جو غزہ کے بیماروںکے علاج کے لیے سفر کررہی تھی۔ اسی جہاز پر ڈیوڈ شرمرہارن بھی تھا۔ قومیت امریکی، عمر 80 برس، پیشہ فلم سازی۔ وہ اس سے پہلے بھی فلسطینیوں کے لیے امن و انصاف کی بات کرنے غزہ آیا تھا۔

آئر لینڈ کی کویمی بٹر لی تھی''' عمر 31 برس'' وہ حقوق انسانی کے لیے کام کرنے والی آئرش رضاکار ہے جو زمبابوے، گوئٹے مالا، لبنان، عراق، ہیٹی اور فلسطین میں کام کرچکی ہے۔ 2002 کے دوران جینین میں فلسطینیوں کے کیمپ میں اس نے ایک برس گزارا۔ اسرائیلی فوجیوں کی گولی سے زخمی ہوئی۔ گرفتار ہوئی اور جبری طور پر مقبوضہ علاقے سے نکال دی گئی۔

اس نے غزہ میں فلسطینیوں کے قتل عام کے دوران ایمبولینس چلائی، زخمی فلسطینیوں کو لاش کے انبار سے نکال کر محفوظ مقام پر پہنچایا اور اسرائیلی جنگی جرائم کی عینی شاہد ہے۔اسی طرح بلفاسٹ کی مائی ریڈماگیور اس کاررواں میں سفر کررہی تھی۔

عمر 66 برس، 1976 میں اسے امن کا نوبل انعام دیا گیا۔ اسرائیلیوں' فلسطینیوں اور دوسرے یورپی ملکوں کے امن رضاکاروں کے ساتھ فلسطینیوں کے حق میں جلوس نکالنے کی خطا میں اسے گولی ماری گئی تھی۔

برطانیہ سے 32 سالہ ایریک ہیرسن، اسکاٹ لینڈ سے 43 سالہ تھریسا میک ڈرموٹ' 55 سالہ ڈینس ہیالی' جرمنی سے 56 سالہ انیتے گروتھ جو اپنی پارلیمنٹ کی رکن ہے اور حقوق انسانی کے حوالے سے کئی اہم بین الاقوامی اداروں میں کام کرچکی ہے۔

59 سالہ انگے ہوگر جرمن رکن پارلیمنٹ' 75 سالہ پروفیسر ڈاکٹر نارمن پیج جرمنی کا رکن پارلیمنٹ اس کے علاوہ ہالینڈ کی 29 سالہ این ڈی جونگ جو پی ایچ ڈی ہے' یونان کا 39 سالہ گیورگوس کولنتاز' بیلجیئم کی مارگریٹا اور انگے نیفس' دونوں نوجوان ہیں۔ پیشے کے اعتبار سے یہ دونوں لڑکیاں استاد ہیں اور دونوں فلسطینیوں کے حق آزادی کو درست سمجھتی ہیں۔ اسی طرح لندن میں رہنے والی پولش ادیب اور صحافی ایواجینی وکز اس کاروان میں شامل تھی ۔

مذکورہ بالا حقائق دہرانے کا مقصد یہ بتانا ہے کہ عالمی ضمیر فلسطینیوں کے ساتھ ہے۔ یہ ایک انسانی مسئلہ ہے اس کا یقینا مذہبی تناظر بھی ہے۔

تاہم، یہ فرض کرلینا درست نہیں ہوگا کہ یورپ اور امریکا کی رائے عامہ اور دانشور اسرائیل کی غیر قانونی اور غیر انسانی کارروائیوں کی حمایت کرتی ہے۔

یہاں لوگوں کو یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ خود اسرائیلی عوام بھی اپنی حکومت کے مظالم کے خلاف آواز بلند کرتے ہیں۔ جنوری 1988 میں ''سیاہ پوش عورتیں'' نامی تحریک فلسطین میں انتفاضہ کے ایک ماہ بعد شروع ہوئی۔ یہ اسرائیلی عورتیں سیاہ رنگ کے لباس میں خاموشی سے تل ابیب کی کسی مصروف شاہراہ کے چوراہے پرکھڑی ہوجاتیں۔

ہاتھوں میں گتے کا ایک سیاہ پنجہ ہوتا جس پر عبرانی میںسفید رنگ سے ''قبضہ ختم کرو'' لکھا ہوتا۔ اس خاموش مظاہرے کی اطلاع اسرائیل کے تمام شہروںمیں پھیلتی گئی اور اسرائیل کے مختلف شہروں کی عورتوں نے ہر جمعہ کو یہ مظاہرہ شروع کردیا۔دسمبر 2001میں 5 براعظموں کے 150 شہروں میںمختلف قومیتوں' نسلوں اور عقیدوں کی سیاہ پوش عورتوں نے بھرپور مظاہرے کیے۔

ان میں سب سے بڑا مظاہرہ یروشلم میں ہوا جہاں 5ہزار سے زیادہ اسرائیلی اور فلسطینی عورتوں نے اس مظاہرے میں حصہ لیا۔ ان میں دوبینروں کی عبارت لوگوں کی توجہ کا مرکزرہی۔ ''قبضہ ہم سب کو ہلاک کررہا ہے'' ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ اکیسویں صدی میں نہ فلسطینی سمندر میں غرق کیے جاسکتے ہیں اور نہ کسی ریاست کو دنیا کے نقشے سے کھرچا جاسکتا ہے۔

ہم یہ کیسے بھلا دیتے ہیں کہ فلسطینیوں پر ہونے والے مظالم میں ہمارا بھی کچھ حصہ تھا۔ کیا جنرل ضیاء الحق کی وردی پر نیلے رنگ کے ریشمی پٹکے میں جو ''ستارۂ اردن'' آنکھوں کو خیرہ کرتا تھا' وہ انھیں اردن میں پناہ لینے والے مظلوم فلسطینیوں کے خلاف کارروائی کے انعام میں نہیں دیا گیا تھا؟

مغربی کنارے پر فلسطینی اتھارٹی کی حکومت ہے۔ غزہ پر عملاً حماس کی حکمرانی ہے۔ مذکورہ علاقوں میں رہنے والے فلسطینی دونوں سے زیادہ خوش نہیں ہیں۔دریائے اردن کے مغربی کنارے پر اسرائیل نے 1967 کی جنگ میں قبضہ کیا تھا۔ یہ مقبوضہ علاقہ اب 30 سال پہلے قائم ہونے والی فلسطینی انتظامیہ کے پاس ہے جس کے سربراہ 87 سال کے محمود عباس ہیں۔

محمود عباس طویل عرصے سے حکمران ہیں لیکن ان کی انتظامیہ نے فلسطینیوں کو ووٹ کے حق سے مسلسل محروم رکھا ہوا ہے۔

1993 فلسطین کی تاریخ کا اہم دن تھا جب اس وقت کے اسرائیلی وزیر اعظم اسحاق رابن اور پی ایل او کے صدر نے تاریخی امن معاہدے پر دستخط کیے تھے۔ جس کے تحت غزہ اور مغربی کنارے کا انتظام سنبھالنے کے لیے فلسطینی اتھارٹی کا قیام عمل میں لایا گیا تھا۔ محمود عباس ایک آمر کی طرح حکومت کررہے ہیں انھوں نے کئی سال پہلے پارلیمنٹ تحلیل کردی تھی اور اپنی سیاسی عدم مقبولیت کے باعث وہ انتخابات کرانے سے گریزاں ہیں۔

یہ امر خوش آیند ہے کہ سرد جنگ کے خاتمے کے بعد مسلمانوں بالخصوس عرب ملکوں میں ایک نئی سوچ پیدا ہورہی ہے اور ان کا سیاسی طرز عمل بھی تبدیل ہورہا ہے۔ تیل پر انحصار کرنے کے بجائے یہ ملک مذہبی اور مسلکی امتیاز سے بالاتر ہوکر ہر ملک کے ساتھ تجارتی اور کاروباری تعلقات استوار کررہے ہیں۔جس سے علاقائی اور عالمی کشیدگی میں بتدریج کمی واقع ہورہی ہے۔ فہم اور فراست کا تقاضا ہے کہ تاریخ سے سبق حاصل کیا جائے۔

جاپان پر امریکا نے ایٹم بم گرائے لیکن جاپان نے امریکا سے بدلہ لینے کے لیے معاشی میدان میں مقابلہ کرنے کا فیصلہ کرلیا اور آج جاپان دنیا کی تیسری سب سے بڑی معاشی طاقت ہے اور اس سے تعاون کرنا امریکا کی مجبوری بن چکی ہے۔

جرمنی اور چین سمیت درجنوں ملکوں کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں جنھوں نے تشدد اور انتقام کا راستہ نہیں اپنایا بلکہ معاشی طاقت بن کر ماضی کے حریفوں کو سیاسی طور پراپنے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا۔

اسرائیل اور فلسطین کا تنازعہ اتنا سادہ نہیں جتنا عام طور پر سمجھا جاتا ہے۔ عالمی برادری کے تعاون اور مذاکرات کے ذریعے ہی اس مسئلے کا حل ممکن ہے۔

تشدد، جوابی تشدد کا باعث بنتا ہے اور اس میں لڑنے والوں سے زیادہ ہلاکتیں بے گناہ شہریوں کی ہوتی ہیں۔ ہر فریق کے پاس تشدد اور جوابی تشدد کا ہمیشہ کوئی نہ کوئی جواز موجود ہوتا ہے لیکن اس سے جنگ نہیں بلکہ صرف بحث ہی جیتی جاسکتی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں