نوابزادہ نصر اللہ ثانی
اس وقت ملکی اداروں اور سیاستدانوں کا امتحان ہے کہ وہ ان پاکستانی نوجوانوں کو کیسے راہ راست پر لاتے ہیں
نوابزادہ نصراللہ خان پاکستان کی سیاسی تاریخ کے ناقابل فراموش کردار اور زیرک شخصیت کے مالک تھے، معاملہ فہمی، مصالحتی کردار میں ان کے ہم عصر سیاستدانوں میں ان کا کوئی ثانی نہیں تھا۔ ان کے ہوتے ہوئے جب جب ملک سیاسی انتشار کا شکار ہوا انھوں نے آگے بڑھ کر مصالحانہ راہیں تلاش کیں، جو سیاستدان ایک دوسرے کے جانی دشمن ہوتے انھیں اعتدال کی جانب لاتے اور جمہوریت کی بقا کے لیے اپنا کردار ادا کرتے تھے۔
وہ مفاہمت اور حکمت سے بڑے سے بڑے سیاسی مسئلے کا حل تلاش کر لیتے تھے۔ ''بابائے جمہوریت'' کا یقین تھا کہ پاکستان صرف جمہوریت کو مضبوط کرکے ہی آگے بڑھ سکتا ہے۔ ان کی رحلت کے بعد پاکستان کے سیاسی افق پر نشیب و فراز آتے رہے، لیکن سیاستدانوں نے مل جل کر ان کا مقابلہ کیا اور ملک کو کسی حد تک جمہوریت کی پٹڑی پر رکھنے میں کامیاب رہے۔
نواب زادہ نصراللہ خان کے بعد اگر کوئی دوسرا سیاست دان اس روپ میں مجھے نظر آیا تو وہ مولانا فضل الرحمن تھے جو آج تک مفاہمت کی سیاست کے علمبردار ہیں۔
چارٹر آف ڈیموکریسی سے پاکستانی سیاست میں تھوڑا سا سکون آیا تھا، مگر جب 2018 کے متنازعہ ترین الیکشن کے نتیجے میں چیئرمین تحریک انصاف کو قوم پر مسلط کیا گیا تو تمام سیاسی جماعتوں نے انتخابات کے نتائج کو یکسر مسترد کیا۔
مگر جمہوریت کو بچانے کی خاطر سب نے مصلحت آمیز رویہ اختیار کیا۔ مگر حیران کن طور پر وزیراعظم ہوتے ہوئے چیئرمین تحریک انصاف کا رویہ تضحیک آمیز اور آمرانہ تھا جس کی وجہ سے ملکی سیاست میں ایک نہ ختم ہونے والے تناؤ کا آغاز ہوا۔ جس دن وہ وزیر اعظم بنا، لیڈر آف اپوزیشن نے اسے کہا تھا کہ چیئرمین تحریک انصاف آئیں بیٹھیں چارٹر آف اکانومی کریں۔ اسی دن بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ چیئرمین تحریک انصاف قدم بڑھاؤ ہم تمہارے ساتھ ہیں۔
اس نے جواب میں کہا کہ تمہاری ایسی تیسی میں تم سب کو چھوڑوں گا نہیں۔ جس دن پلوامہ پر سیشن ہوا وہاں تمام لیڈر شپ بیٹھ کر ڈیڑھ گھنٹہ انتظار کرتی رہی، باجوہ صاحب ان کی منتیں کرتے رہے کہ چلیں تمام پارٹیز کو بریفنگ دینی ہے۔ اس نے کہا کہ میں وہاں جاؤں گا تو مجھے ان کے ساتھ ہاتھ ملانا پڑے گا میں تو انھیں دیکھنا بھی نہیں چاہتا۔ جو شخص سیاست میں اس حد تک نفرت اور انتقام لے آئے اس کو مفاہمت پر کون آمادہ کر سکتا ہے۔
ایک تاریخی حقیقت ہے کہ چیئرمین تحریک انصاف کے مین اسٹریم پالیٹکس اور خاص کر اقتدار میں آنے سے صرف جمہوریت کو ہی نہیں ملک اور ملک کے اہم ترین اداروں کو بھی ناقابل تلافی نقصان پہنچا۔
انھوں نے اپنے کارکنوں کو سیاسی خود کش بنا کر ریاست سے ٹکرایا، بغاوت پر اکسایا، اقتدار سے محروم ہونے کے بعد وہ اپنے ملک پر دشمن کی طرح حملہ آور ہوکر شہداء کی یادگاروں کی بے حرمتی کرنے جیسے گھناؤنے جرائم کے مرتکب ہوئے، جس کی جرات پاکستان دشمن قوتوں کو بھی نہیں ہوئی تھی۔ آج ملکی سیاست غیریقینی صورتحال سے دوچار ہے۔
لمحہ موجود تک ملکی سیاست بظاہر بند گلی میں نظر آرہی ہے۔ چیئرمین تحریک انصاف تو جیل میں سزا بھگت رہے ہیں مگر اس میں دو رائے نہیں کہ تحریک انصاف ایک زمینی حقیقت، اور چیئرمین تحریک انصاف نے اپنی محبت میں گرفتار سیاسی کارکنوں کو سیاسی خودکش بمباروں کے ایک گروہ میں بدل دیا ہے۔
اس وقت ملکی اداروں اور سیاستدانوں کا امتحان ہے کہ وہ ان پاکستانی نوجوانوں کو کیسے راہ راست پر لاتے ہیں۔ اس وقت چیئرمین تحریک انصاف کے علاوہ تمام سیاست دانوں کو حالات کی نزاکت کا اندازہ ہے اور سب مصلحت سے کام لے رہے ہیں۔
مولانا فضل الرحمان سے جب چیئرمین تحریک انصاف کے بارے میں پوچھا گیا تو انھوں نے کہا میں کسی سیاست دان کو جیل میں رکھنے کے خلاف ہوں عدالت ان کو بری کرے تو ہم ان کا خیر مقدم کریں گے سیاسی میدان میں، زرداری تو ہے ہی شوگر کوٹیڈ سیاست کا علمبردار، نواز شریف نے بھی اپنے بیانیہ میں سے انتقام کو فی الحال سائیڈ پر رکھ دیا مگر صورتحال کافی گھمبیر ہے۔
ان حالات میں سینئر سیاسی رہنما محمد علی درانی نے مفاہمتی سیاست کے لیے ٹریک ٹو ڈائیلاگ کی کامیابی کے بعد گزشتہ مہینے اپنے مفاہمتی مشن کے لیے اپنے CBMs پیش کرکے جو تحریک شروع کی ہے اس رنگ و روپ میں وہ مجھ سمیت اکثر لوگوں کو نوابزادہ نصر اللہ ثانی لگ رہے ہیں۔ ایک بار پھر انھوں نے ملکی سیاست کو پٹڑی سے نہ اترنے دینے کا بیڑا اٹھایا ہے۔
وہ سب کو تحمل اور برداشت کا مشورہ دیتے ہیں وہ نواز شریف کے پاکستان واپس آنے کو نیک شگون سمجھتے ہیں اور ان کو مشورہ دیتے ہیں کہ سب کے لیے پھولوں کا گلدستہ لے کر آئیں، آگ کے گولے نہیں۔ کیونکہ اس وقت ملکی معیشت آگ کے گولوں کی متحمل نہیں ہوسکتی۔ گو کہ ملک میں تحریک انصاف کے احتجاج کی آگ بجھ چکی ہے اور اب صرف راکھ باقی ہے، لیکن راکھ میں دبی چنگاری کو کبھی نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔
سابق وفاقی وزیر اطلاعات سینیٹر محمد علی درانی اس چنگاری کو بھی بجھانے کے مشن پر چل نکلے ہیں۔ محمد علی درانی سیاست کے اسرار و رموز کو بخوبی جانتے اور اچھی طرح سمجھتے ہیں۔ مجھے محمد علی درانی اور نواب زادہ نصراللہ خان میں جو قدر مشترک لگ رہی ہے وہ ہے معاملہ فہمی، اور بلا تفریق سب کو عزت دینا ہے۔
میرے خیال میں پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں کے سربراہوں اور صف اول کے لیڈران سے ان کا رشتہ احترام کا ہے، مگر حیرت کی بات کہ جس سیاست دان کے سیاسی اور فلاحی کاموں کی بنیادوں میں محمد علی درانی کا پسینہ شامل ہے، جن پر شوکت خانم اسپتال کی چندہ مہم سے لے کر تحریک انصاف کے ابتدائی سیاسی سفر میں بیشمار احسانات ہیں۔
اس کا تعلق محمد علی درانی سے دوستانہ نہیں اور شاید محمد علی درانی کی کامیابی کے راستے میں واحد رکاوٹ چیئرمین تحریک انصاف ہی ہونگے۔
درانی ٹریک ٹو ڈائیلاگ کے دوران اس وقت شہباز شریف سے جیل میں ملے جب پوری اپوزیشن زیر عتاب تھی اور پی ڈی ایم میں شامل تمام سیاسی جماعتیں اسمبلیوں سے اجتماعی استعفے دینے جا رہی تھیں۔ درانی ناصرف میاں شہباز شریف سے ملے بلکہ پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمن اور دیگر قائدین سے بھی ملاقاتیں کیں اور انھیں استعفوں کا آپشن استعمال کرنے سے روکنے میں کامیاب ہوئے۔
محمد علی درانی ٹریک ٹو ڈائیلاگ کے وقت اس وقت کی اپوزیشن قیادت کو منانے کی کوشش کررہے تھے اور آج پی ٹی آئی کو مفاہمت اور ہوشمند سیاست پر راضی کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔
ان کی خواہش ہے کہ کسی طرح جمہوریت کو بچایا جائے، ان کا خیال ہے کہ پاکستان کے معروضی حالات ہرگز کسی ایسی مہم جوئی کے متحمل نہیں ہوسکتے جو ملک اور عوام کو جمہوریت سے دور کردیں۔ اس کے لیے کبھی وہ تحریک انصاف کے علی محمد خان، اسد قیصر اور دوسرے رہنماؤں کے ذریعے چیئرمین پی ٹی آئی تک اپنا پیغام پہنچا رہے ہیں، تو کبھی صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی سے ڈائیلاگ کرتے ہیں اور کبھی پی ڈی ایم قائدین کے پاس جاتے ہیں، اور سب کے سامنے اپنا تین نکاتی مفاہمتی فارمولہ (CBMs) ''پاکستان، جمہوریت اور فوج'' رکھتے ہیں۔ ان کے مطابق سب سیاسی جماعتوں کو اگلے انتخابات سے قبل یہ عہد کرنا چاہیے کہ وہ "پاکستان، جمہوریت اور فوج" کو اپنی سیاست کے لیے استعمال نہیں کریںگے۔
چیئرمین پی ٹی آئی کے ضدی پن کو محمد علی درانی سے زیادہ کوئی نہیں جانتا، مگر پی ٹی آئی کے بہت سے رہنما محمد علی درانی کے قریبی ساتھی ہیں جو بذریعہ درانی تحریک انصاف میں شامل ہوئے تھے، درانی رشتوں اور دوستی نبھانے میں اپنا ثانی نہیں رکھتا، اور سب کے ساتھ ان کا آج بھی احترام اور دوستی کا رشتہ قائم ہے۔ صدر ڈاکٹر عارف علوی اور پی ٹی آئی کے بہت سے قائدین محمد علی درانی کے فارمولے کے حامی ہیں، لیکن پی ٹی آئی میں فیصلے صرف قاسم کے ابا کے چلتے ہیں۔
جب تک وہ کسی کے سر پر ہاتھ نہیں رکھیں گے کہانی آگے نہیں بڑھ سکتی۔ وہ ایسا ضدی شخص ہے جس نے پورا ملک اور ریاستی ادارے اپنی ذاتی سیاست کی بھینٹ چڑھا دیے، آج بھی اس کے اندر انتقام کا جذبہ ابل رہا ہے۔ بات اگر صرف پی ٹی آئی کے سلجھے ہوئے لوگوں کی ہوتی تو شاید درانی کو ٹریک ٹو ڈائیلاگ کی طرح اس بار بھی کامیابی مل جاتی۔ لیکن مسئلہ اس کا ہے جس کی ڈکشنری میں مفاہمت نام کا کوئی لفظ ہی نہیں، صرف انتقام، انتقام اور انتقام ہے، لیکن پھر بھی ہماری دعائیں محمد علی درانی کے ساتھ ہیں۔