فلسطینیوں پر مظالم عالمی قوانین کی خلاف ورزی

غزہ ایک چھوٹا سا علاقہ ہے اس کا محاصرہ کرکے وہاں پر غذائی اشیا کا پہنچنا ناممکن بنا دیا گیا ہے


Editorial October 20, 2023
فائل فوٹو

اسلامی تعاون تنظیم ( او آئی سی ) نے اسرائیل کی غزہ کے اسپتال پر بمباری کی شدید مذمت کرتے ہوئے اسے منظم ریاستی دہشت گردی اور جنگی جرم قرار دیدیا اور مطالبہ کیا کہ جنگی جرائم میں ملوث عناصر کو سزا ملنی چاہیے۔

جب کہ امریکی صدر جوبائیڈن نے اسرائیل پہنچ کر اسلحہ کی فراہمی اور خارجہ معاملات میں بھی مکمل تعاون کی یقین دہانی کرائی، دوسری جانب چھ خلیجی ممالک نے غزہ کے بمباری زدہ متاثرین کے لیے مشترکہ طور پر دس کروڑ ڈالر کی فوری امداد غزہ بھجوانے کا فیصلہ کیا ہے۔

بلاشبہ او آئی سی نے غزہ پر جاری اسرائیلی حملوں کے حوالے سے جو اعلامیہ جاری کیا ہے، وہ بروقت اور صائب ہے، سب سے پہلے اسرائیل کو جنگ بندی پر نہ صرف آمادہ بلکہ اُسے غزہ کی ناکہ بند ی ختم کرنے پر بھی مجبور کرنا ہوگا کہ غذائی قلت اور دوسری اشیاء ضرورت کی عدم دستیابی نے بچوں اور بوڑھوں کو بے حال کر رکھا ہے۔

اسپتال زخمیوں سے بھرے پڑے ہیں۔ ابھی صورت حال یہ ہے کہ غزہ کی پٹی، فلسطینیوں کے خون سے سیراب ہو چکی ہے۔ انسانی حقوق کی پامالی کی جا رہی ہے، بے گناہ لوگوں کا خون بہایا جا رہا ہے۔

اس حالیہ جنگ میں ہی غور کیا جائے، جو سات اکتوبر کو شروع ہوئی، تو یہ سمجھ میں آ جائے گا کہ امریکا، مشرق وسطیٰ میں، صرف اپنے مفاد کے لیے اسرائیل کو بڑھاوا دے رہا ہے، وہ آنکھ بند کر کے اسرائیل کی حمایت کر رہا ہے۔

یہ نہایت ہی افسوس کا مقام ہے کہ اب تک امریکا اور عالمی برادری نے واضح الفاظ میں اسرائیل سے یہ نہیں پوچھا، یہ سب وہ کیوں کر رہا ہے؟ جب کہ قابض ریاست کا ان رہائشی عمارتوں، اسپتالوں اور اسکولوں پر حملہ کرنا، عالمی قوانین کی صریح خلاف ورزی ہے۔ آج ایک مرتبہ پھر فلسطین سُلگ اٹھا ہے، آگ اور خون کا کھیل ہے کہ رکنے کا نام نہیں لے رہا۔

اسرائیل نے ایسے بھیانک حملے کر کے، ہزاروں مکینوں کو بے گھر کرنے کے بعد، اب شمالی غزہ پٹی کے شہریوں کو باضابطہ نوٹس جاری کیا ہے کہ وہ اپنے گھروں کو خالی کر کے، جنوبی غزہ ہجرت کر جائیں۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ اسرائیل چاہ رہا ہے کہ وہ کسی طرح غزہ کو خالی کروا لے اور وہ شہری مجبور ہوکر، کسی طرح مصر میں پناہ لینے پر مجبور ہوں۔

1948 کی ہجرت والی صورت حال پیش آئے اور غزہ، اسرائیل کے لیے خالی میدان بن جائے۔ پھر طاقت کے زور پر، وہ اپنے آباد کاروں کو وہاں بسانا شروع کردے۔ شمالی غزہ میں تقریباً گیارہ لاکھ لوگ رہتے ہیں۔ اتنی بڑی تعداد، کہاں جا سکتی ہے؟ وہاں کے اسپتال زخمی مریضوں سے بھرے ہیں۔

ان مریضوں کا کیا ہو گا؟ اسرائیلی ریاست کی اس وارننگ کے بعد، بہت سے بہادر لوگوں نے اپنی رہائش گاہوں کو چھوڑنے سے انکار کر دیا ہے۔

انھوں نے ہر صورت میں شمالی غزہ میں رہنے کو ترجیح دی ہے جب کہ شمالی غزہ کے کچھ شہری اسرائیلی فوج کی اس وارننگ اور دہشت گردی سے عاجز آ کر، با دل ناخواستہ اپنی جان بچانے کے لیے جنوبی غزہ کے لیے نقل مکانی کر رہے تھے کہ ان کے قافلوں پر اسرائیلی طیاروں نے بمباری کردی، جس میں بہت ساری قیمتی انسانی جانوں کا ضیاع ہوا، اس کا ذمے دار اسرائیل کا وزیراعظم نیتن یاہو ہے۔

عام طور پر یہ دیکھا جاتا ہے کہ کچھ بڑی بڑی تنظیمیں اور بہت سے ممالک '' انسانی حقوق ، بچوں کے حقوق'' جیسے الفاظ کا استعمال کر کے، عام لوگوں کو حقوق کا درس دیتے ہیں، مگر آج ان میں یہ ہمت نہیں ہے کہ اسرائیل کو بتائے کہ وہ حقوق انسانی کی پامالی کر رہا ہے۔

غزہ ایک چھوٹا سا علاقہ ہے اس کا محاصرہ کرکے وہاں پر غذائی اشیا کا پہنچنا ناممکن بنا دیا گیا ہے۔ طاقتور مسلمان ممالک کے درمیان گِھرا ہوا اسرائیل ایک چھوٹا سا ملک ہے، جس کو بڑی قوتوں کی سرپرستی حاصل ہے۔

اس سے نمٹنا اگرچہ ان مسلمان ممالک کے لیے مشکل ہے مگر فلسطینیوں کو بچانا اور ان کو تحفظ دینا یہ تو مشکل نہیں ہے، یہ بھی نہیں کیا جا رہا ہے۔

اسرائیل پر حماس کے حملے کے بعد اسرائیلی فوج کا جو رد عمل سامنے آیا ہے، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسرائیل اس جنگ کو دانستہ طور پر یہ شکل دینا چاہتا تھا۔ حماس کے خلاف انتقامی کارروائی کے نام پر اسرائیل جس طرح غزہ پر پے در پے حملے کررہا ہے، اس سے یہ اندازہ لگانا کچھ مشکل نہیں کہ اسرائیل اس جنگ کے بہانے غزہ کو پوری طرح اپنے کنٹرول میں لینا چاہتا ہے۔

اس مقصد کے حصول کے لیے نیتن یاہو نے غزہ کے عوام کو جس انتہائی انسانیت سوز حالات میں پہنچا دیا ہے، اسے محض حماس کے حملے کا رد عمل نہیں کہا جا سکتا۔ اسرائیل اور حماس کے درمیان اس حالیہ فوجی کارروائی سے قبل بھی غزہ کے حالات اطمینان بخش نہیں تھے۔ پوری دنیا میں حقوق انسانی کے تحفظ کے لیے کوشاں افراد اور تنظیمیں پہلے ہی غزہ کو دنیا کی سب سے بڑی کھلی جیل قر ار دے چکے ہیں۔

او آئی سی اور اقوام متحدہ کسی عملی حل کی طرف بڑھ نہیں سکتے جب تک امریکا جانبدار کردار ترک نہیں کرتا، خطے میں مزید خون ریزی ہوگی۔

مظلوم فلسطینی مزاحمت کا راستہ اختیار کرنے کے علاوہ کچھ نہیں کرسکتے کیونکہ امن کے ٹھیکیدار انصاف کرنا نہیں چاہتے۔ اسرائیل کی سرپرستی کا مطلب امن کے بجائے ظالم کو موقع دینا ہے۔ جنگ کسی مسئلہ کا حل نہیں بلکہ جنگ خود ایک مسئلہ ہے۔ اس کی تمام تر ذمے داری امریکا اور اس کے اتحادی ممالک پر عائد ہوتی ہے۔ عالمی طاقتیں اپنے مفاد کے لیے مظلوم فلسطینیوں کے خون پر سیاست کرنے میں مصروف ہیں۔

در اصل کچھ طاقتوں نے عرب کے قلب میں، ایک صیہونی ریاست اپنے مفاد کے لیے قائم کیا، وہ طاقتیں آج تک مشرق وسطیٰ میں امن قائم نہیں کروا سکی۔

فلسطینیوں کو ان کے جائز حقوق نہیں ملے۔ فلسطینی عوام کے بنیادی مفادات کا آج تک کوئی خیال نہیں رکھا۔ امریکا نے اس اہم تنازع کو حل کرنے کے بجائے، اس خطے کا ہیرو بن کر، پورے خطے پر اپنا تسلط قائم کر لیا۔ وہ آج تک کوئی ایسا سمجھوتہ نہیں کرا سکا، جو فریقین کے لیے قابل قبول ہو۔ فلسطین کے حوالے سے امریکا اور عالمی برادری کی یہ ایک بڑی ناکامی ہے۔

یہودی سرمایہ دار اسرائیل کی مالی مدد کرتے ہیں، اب جیسے ہی اس تنازع نے جنم لیا ہے فلسطین اور اسرائیل کے مابین ایک اور جنگ شروع ہوئی ہے، تو اسرائیل کی امداد میں اضافہ کر دیا گیا ہے ۔ دوسری جانب اس وقت فلسطین میں شدید غذائی قلت پیدا ہو چکی ہے۔

جو اسرائیلی جارحیت سے بچ رہے، ان کے بھوک سے مرنے کا خدشہ لاحق ہے۔ اسی تناظر میں یو این کے ادارہ صحت ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن ( ڈبلیو ایچ او) نے اپیل کی ہے کہ بڑی تباہی سے بچنے کے لیے فلسطین میں فوری امداد بھیجی جائے۔ اسلامی ممالک کے سرمایہ داروں کو بھی چاہیے کہ وہ فلسطینیوں کی مالی کریں تاکہ وہ مشکل حالات کا مقابلہ کرسکیں۔

امریکا سمیت یورپی ممالک اور بھارت اسرائیل کے ساتھ کھڑے ہیں چینی وزارت خارجہ نے مزید کہا کہ فلسطین اور اسرائیل کے درمیان تنازع کا بار بار رونما ہونا اس حقیقت کو عیاں کرتا ہے کہ امن عمل کا طویل مدتی تعطل ناقابل برداشت ہے۔ تنازع کے حل کا بنیادی راستہ دو ریاستی فارمولے پر عمل درآمد اور ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام میں مضمر ہے۔

بین الاقوامی برادری کو فلسطین کے مسئلے پر مزید زور دیتے ہوئے فلسطین اور اسرائیل کے درمیان امن مذاکرات کی جلد بحالی کو آگے بڑھانا ہوگا اور دیرپا امن کے حصول کا راستہ تلاش کرنا ہوگا۔ چین اس مقصد کے لیے بین الاقوامی برادری کے ساتھ مل کر کام کرتا رہے گا، روس نے بھی پر امن حل پر زور دیا ہے لیکن امریکا اپنی ہٹ دھرمی پر قائم ہے، وہ اپنی چوہدراہٹ قائم رکھنے کے لیے اسرائیل کی پشت پناہی کررہا ہے، جو کہ عالمی امن کے لیے شدید خطرہ ہے۔

عالمی طاقتوں' بالخصوص اقوام متحدہ اپنی بے بسی اور بے حسی کی زنجیریں توڑکر اپنے چارٹر اور قراردادوں کی روشنی میں مسئلہ فلسطین فوری حل کرائے اور وہاں انسانی المیے کو فوری روکنے کے لیے اسرائیل کی جارحیت کو روکے۔حماس کی لیڈر شپ کو بھی حالات کی سنگینی کا احساس کرنے کی ضرورت ہے۔

یہ طے ہے کہ حماس کے پاس اتنے وسائل نہیں کہ وہ غزہ کے عوام کا تحفظ کر سکے اور نہ ہی اس کے پاس باقاعدہ فوج ہے 'ٹینک بھی نہیں ہیں اور فضائیہ بھی موجود نہیں ہے' مالی وسائل بھی نہ ہونے کے برابر ہیں'اس جنگ میں اگر کوئی ہار رہا ہے تو وہ غزہ کے فلسطینی عوام ہیں' اس وقت اہم ترین ایشو یہ ہے کہ غزہ کے فلسطینی عوام کو بچایا جائے کیونکہ ان کے گھر تباہ ہو رہے ہیں 'ان کے کاروبار بند ہیں 'اسکول کالج وغیرہ بند ہیں 'اسپتال تباہ ہیں 'اس لیے سب سے اہم کام یہ ہے کہ فلسطینیوں کے مفادات کا تحفظ کیا جائے ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں