سیاسی و انتخابی بے دخلی کے مضمرات
سیاسی او رجمہوری قوتوں کے درمیان جاری اس آنکھ مچولی کا یہ کھیل کبھی تو ختم ہونا چاہیے
پاکستان کی سیاست، جمہوریت اور انتخابی عمل میں شفافیت بنیادی نوعیت کا سوال ہے۔ ہماری سیاست کا تجزیہ یا جائزہ لیا جائے تو یہ نقطہ کافی اہمیت کا حامل ہے کہ یہاں فیصلے کی طاقت کس کے پاس ہے۔
جمہوریت اور جمہوری سیاست میں عوام کو ہی فوقیت حاصل ہوتی ہے اور وہ ہی اپنی مرضی اور منشا کے مطابق اپنے ووٹ کی بنیاد پر حکومت کو یا سیاسی جماعتوں یا قیادت کو منتخب کرتے ہیں۔
اسی کو بنیاد بنا کر جمہوری سیاست کا عمل آگے بھی بڑھتا ہے اور یہ نہ صرف پائیدار ہوتا ہے بلکہ داخلی جمہوری ساکھ کو بھی قائم کرتا ہے کیونکہ لوگوں کا یہ یقین کہ وہی جمہوری اور انتخابی سیاست میں کلیدی یا فیصلہ کن کردار ادا کرتے ہیں جمہوری نظام کی خوبصورتی کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔
مگر وہ ریاستیں یا جمہوری نظام جن کی بنیاد تو جمہوریت پر کھڑی ہوتی ہیں مگر عملی طور پر وہاں جمہوریت اور عام آدمی کے فیصلوں کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی ان کے سیاسی نظام اور ساکھ پر ہمیشہ سے سوالیہ نشان موجود رہتے ہیں۔
آج کے سیاسی بحران کو دیکھیں تو اس میں ایک بار پھر ہمیں یہ آوازیں سننے کو مل رہی ہیں کہ عام انتخابات کی صورت میں ایک دفعہ پھر مائنس ون اور مائنس ٹو فارمولے کی بنیاد پر سیاسی دربار سجایا جائے گا۔ اول یہ کوئی نئی کہانی نہیں ہماری ماضی کی سیاست اسی طرز کی مہم جوئی پر موجود رہی ہے۔ ہر کہانی میں کردار مختلف ہوتے ہیں یا ان کرداروں میں نئے رنگ بھر کر ان کو نئی جمہوری بساط کے طور پر سجایا جاتا ہے۔
لیکن ماضی کی سیاست ہو یا آج حال کی سیاست کا سب سے بڑا سبق ہی یہ ہے کہ ہم کسی بھی طور پر اس طرح کے تجربات یا مہم جوئی سے ملک کی سیاست ,جمہوریت، آئین اور قانون سمیت عام آدمی کے مفادات کو کوئی بھی فائدہ نہیں پہنچاسکے ۔سوال یہ بھی ہے کہ جو لوگ یہ منطق یا دلیل دیتے ہیں کہ یہ سب کچھ ماضی میں بھی کسی کی حمایت اور مخالفت میں ہوتا رہا ہے اور اگر یہ ہی کھیل دوبارہ دہرایا جا رہا ہے تو ہمیں کیونکر بڑا اعتراض ہے۔
اس منطق اور دلیل کو مان لیا جائے تو اس کا مطلب واضح ہے کہ ہم ماضی کی سیاسی غلطیوں اور تجربات سے کچھ بھی نہیں سیکھنا چاہتے اوریہ ہی کھیل کو جاری رکھنے پربضد ہیں۔ لیکن کیا وجہ ہے کہ ہم اپنی سیاسی او رجمہوری سیاست کے اصلاح کے لیے تیار نہیں او رکیونکر ہم اپنی ریاستی عمل کو آئین او رقانون کی پاسداری کی بنیاد پر چلانے سے گریز کرتے ہیں۔
سیاسی او رجمہوری قوتوں کے درمیان جاری اس آنکھ مچولی کا یہ کھیل کبھی تو ختم ہونا چاہیے۔ کہیں تو سیاسی محاذ پر یہ بندھ باندھنا ہوگا کہ ہم نے ان تمام حکمت عملیوں کو ناکام بنانا ہے جو جمہوری سیاست کی مخالفت میں اختیار کی جاتی ہیں ۔
سیاسی قوتیں کیونکر ایسی حکمت عملیوں کا حصہ بنتی ہیں جس کا مقصد شفافیت کی سیاست کے مقابلے میں ملک میں سازشی سیاست کو بنیاد بنایا جاتا ہے۔ اس لیے اس کھیل میں اسٹیبلیشمنٹ ہو یا سیاست دان یا سیاسی جماعتیں سب کو ہی اپنے اپنے آئینی اور قانونی یا سیاسی و جمہوری دائرہ کار میں رہ کر ہی نظام کو چلانے کی حکمت عملی اختیار کرنا ہوگی ۔
ماضی کا سیاسی سبق ہمیں یہ ہی سبق دیتا ہے کہ ڈنڈے , طاقت, دھونس, دھاندلی کی بنیاد پر سیاسی قیادتوں کو سیاسی عمل سے دوررکھنے کے کھیل نے ہماری مجموعی سیاست کو کمزور کیا ہے۔
اس طرز کی سیاسی حکمت عملی جہاں غیر جمہوری اور غیر آئینی یا غیر قانونی ہوتی ہے وہیں اس کا ہمیں ایک بڑا ردعمل قومی سیاست کی کمزوری کی صورت میں دیکھنے کو ملتی ہے۔جب لوگوں میں یہ احساس غالب ہوتا ہے کہ ان کی قیادت جسے وہ پسند کرتے ہیں ایک خاص انتظامی اور قانونی نقطوں کو بنیاد بنا کر سیاست اور سیاسی عمل یا انتخابات سے بے دخل کیا جاتا ہے تو ان کی قبولیت کو کوئی بھی تسلیم نہیں کرتا۔یہ ہی وجہ ہے کہ جب بھی سیاست دانوں کو غیر سیاسی انداز سے جبری طور پر بے دخل کیا جاتا ہے تو ان کی مقبولیت کم نہیں بلکہ اور زیادہ بڑھ جاتی ہے۔
یہ نقطہ اہم ہے کہ ہم سیاسی جماعتوں او ران کی قیادتوں کو سیاسی عمل کی بنیاد پر کمزو رکرنے کے حمایت کم اور طاقت کی بنیاد پر کمزور کرنے کی زیادہ حمایت کرتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔یہ ہی وجہ ہے کہ یہ ہی پاپولر قیادت کچھ عرصے کے بعد دوبارہ عملا سیاسی میدان میں کامیاب ہوکر آتے ہیں یا ان کی سیاسی مجبوریوں کی بنیاد پر دوبارہ لایا جاتا ہے ۔
بنیادی بات یہ ہی ہے کہ جمہوری او رانتخابی سیاست میں یہ حق لوگوں کے پاس ہی ہونا چاہیے کہ وہ اپنی مرضی او رمنشا کے مطابق اپنے ووٹ کی بنیاد پر قیادت اور اقتدار کا انتخاب کریں ۔
حکومتوں کی تبدیلی یا قیادت کی تبدیلی کا عمل ووٹ کی بنیاد پر ہی ہونا چاہیے او رہمیں سازشی کھیل سے گریز کرنا چاہیے ۔ کیونکہ سازشی کھیل کی بنیاد پر ہم نے اپنی سیاست او رجمہوریت دونوں کو بہت پیچھے چھوڑ دیا ہے او ریہ عمل کافی تک کمزور بھی ہوچکا ہے ۔
کیونکہ موجودہ تناظر میں ہی دیکھ لیں تو ہمیں قومی سیاست میں سیاسی او رجمہوری قوتوں کی کمزوری کے کئی پہلو نمایاں طور پر نظر آتے ہیں۔
اسی بنیاد پر سول سوسائٹی ہو یا میڈیا اس پر دباو بھی ہے۔ہم یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ ہم کوئی دنیا کا عجوبہ ملک نہیں جہاں دنیا سے ہٹ کر سیاسی او رجمہوری نظام کو ہی چلایا جائے گا۔ جو طرز عمل ہمارا بنا ہوا ہے او رجیسے ہم نے جمہوری عمل کو یرغمال بنایا ہوا ہے یا یہ چند بڑے طاقت ور لوگوں کی خواہشات کے گرد ہی گھومتا ہے اس سے جمہوری عمل کی نفی ہوتی ہے۔
مائنس ون، مائنس ٹو , تھری یا مائنس آل یہ سب حکمت عملیاں او رفارمولے اسی بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ ہماری ترجیحات میں سیاسی اورجمہوری عمل کی مضبوطی نہیں ہے ۔ بلکہ ہم سیاسی اورجمہوری عمل کو چلانا تو چاہتے ہیں لیکن اس کا ریموٹ کنٹرول اپنے ہی ہاتھوں میں رکھنا چاہتے ہیں۔
ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ ہم جب کسی کو بھی ایک یا ایک سے زیادہ مائنس کرنے کے فارمولے یا حکمت عملیاں اختیار کرتے ہیں تو اداروں کی خود مختاری او رساکھ کو بھی چیلنج کرتے ہیں ۔
اب وقت آگیا ہے کہ ہم ماضی کی غلطیوں یا غیر سیاسی حکمت عملیوں سے خود بھی باہر نکلیں اور دوسروں کو بھی ترغیب دیں کہ وہ غیر آئینی طرز کی یا غیر سیاسی کھیل کی کسی بھی صورت حمایت نہیں کریں گے ۔
کیونکہ غیر آئینی اور غیر سیاسی کھیل کی ایک بڑی سیاسی پذیرائی اہل دانش او رمیڈیا میں موجود رائے عامہ بنانے والوں کی طرف سے سامنے آتی ہے۔
اس کھیل میں جہاں رائے عامہ تشکیل دینے والے افراد یا اداروں کی خواہشات اہم ہوتی ہیں وہیں ان کے اپنے مالی مفادات بھی ہوتے ہیں۔یہ ہی وجہ ہے کہ اس ملک میں اہل دانش کی جانب سے ریاستی اور سیاسی کرداروں کی جوابدہی یا ان کے احتساب کا عمل کمزور ہوتا ہے ۔
طاقت ور طبقہ یہ ہی سمجھتا ہے کہ ہم اپنے کھیل میں بہت سے فریقوں کو سیاسی طور پر نواز کر اپنے مفادات کو تقویت دے سکتے ہیں ۔
اس لیے فیصلہ سازی کی سطح پر جو لوگ بھی کسی ایک فریق کو باہر نکال کر سیاسی او رجمہوری میدان سجانا چاہتے ہیں یا اس میں انتخابی رنگ بھرنا چاہتے ہیں وہ وقتی طور پر تو کچھ نہ کچھ ضرور حاصل کرلیں گے ،لیکن یہ کھیل ہمیں مزید سیاسی ومعاشی بحران کی دلدل میں دکھیلنے کا سبب بنے گا ۔