اردن کا ڈراؤنا خواب
اردنی بادشاہ یورپ میں ہیں، وہ یورپ سے یقین دہانی چاہتے ہیں کہ فلسطینیوں کو اردن میں نہیں بسایا جائے گا
اس وقت دنیا کی سب سے بڑی اوپن ایئر جیل یعنی غزہ کی پٹی کے باسیوں پر آگ برس رہی ہے۔ جناب احمد ندیم قاسمی کے بقول ان پر زندگی کے جتنے دروازے ہیں، بند ہیں۔ دیکھنا، حدِ نظر سے آگے دیکھنا بھی جرم ہے۔ کیوں؟ بھی کہنا جرم ہے۔ کیسے بھی کہنا جرم ہے؟
منگل 17اکتوبر کی بعد دوپہر ایک پریس کانفرنس میں اسرائیل کے نیشنل سیکیورٹی کونسل کے سربراہ نے واضح کیا کہ اسرائیل کا ہدف حماس کا مکمل صفایا ہے اور اس کے لیے ہمیں ایک طویل جنگ لڑنی ہوگی۔
امریکی صدر جو بائیڈن اسرائیل کے ساتھ اظہارِ یک جہتی اور حماس کی قید میں 200 سے زائد اسرائیلی قیدیوں کی رہائی کے لیے تل ابیب پہنچ گئے ہیں۔ اس سے پہلے امریکی وزیرِ خارجہ بلنکن علاقے کے چھ ممالک کے دورے کے بعد تل ابیب پہنچے اور نیتن یاہو کے ساتھ 8گھنٹے طویل ملاقات کی۔
امریکا مسلم ممالک کو مجبور کر رہا ہے کہ وہ اسرائیل کے مطالبات کے مطابق چلیں اور ایک ایسی اسرائیلی ریاست کے قیام کی راہ ہموار کریں جس میں کوئی غیر اسرائیلی نہ ہو، جس کا رقبہ وسیع ہو کر گریٹر اسرائیل کی شکل اختیار کر لے۔
اس کے ساتھ اسرائیلی قیدیوں کی رہائی فوری حل طلب مسئلہ ہے کیونکہ ان قیدیوں کے لواحقین ان کی رہائی کے لیے شور مچا رہے ہیں۔
امریکی صدر کا یہ دورہ بہت حیران کن ہے کیونکہ امریکی صدور وار زون کا چکر نہیں لگایا کرتے لیکن اسرائیل یوں امریکا کے اوپر حاوی ہے کہ صدر بائیڈن کو اظہارِ یکجہتی کے لیے تل ابیب پہنچنا پڑا۔ ویسے امریکی صدر کا مشن ان کی روانگی کے ساتھ ہی مشکل میں پڑ گیا جب غزہ کے ایک اسپتال پر اسرائیلی بمباری سے 500 شہادتیں سامنے آ گئیں۔
اسرائیل پر حماس کے حیران کن کامیاب حملے کو دو ہفتے ہونے کو ہیں۔ اسرائیل کے اندر شدید غم و غصہ ہے لیکن اسرائیل نے ابھی تک غزہ پر زمینی حملہ نہیں کیا کیونکہ شہری گلیوں میں لڑائی بہت بڑی غلطی بن سکتی ہے۔
دسمبر 2022سے پہلے نیتن یاہو ایک بہت تنگ گھاٹی سے گزرے ہیں۔ ان کے لیے حکومت سے باہر ایک ایک دن گزارنا مشکل تھا۔اسرائیلی دائیں بازو کے انتہا پسند ملک میں پہلے بھی تھے لیکن وہ بہت زیادہ اہمیت کے حامل نہیں تھے۔
دسمبر 2022تک نیتن یاہو کی سیاسی پوزیشن اتنیVulnerableہو چکی تھی کہ اس نے خیریت اسی میں جانی اور انتہا پسندوں کے ساتھ مل کر حکومت بنا لی۔ ان کی مجبوری ہے کہ وہ حکومت میں رہیں چاہے انھیں کچھ بھی کرنا پڑے۔ اگر وہ آج حکومت میں نہ ہوتے تو جیل میں ہوتے۔ ان کے لیے طبلِ جنگ بجانا، دائیں بازو کے انتہا پسندوں کے ساتھ مل کر حکومت بنانا اور بڑے پیمانے پر فلسطینیوں کا قتل ِ عام کرنا ان کی ذاتی بقا کے لیے بہت ضروری ہے۔
حالات بتاتے ہیں کہ دسمبر 2022 سے اب تک فلسطینیوں کو اتنا تنگ،اتنا ذلیل و رسوا کیا گیا کہ اس کا لازمی نتیجہ تنگ آمد بجنگ آمد ہی ہو سکتا تھا۔نیتن یاہو اور اس کی انتہا پسند کابینہ نے فلسطینیوں کوختم کرنے کے عزم کو یوں عام کر دیا ، کہ ان کے لیے زندگی بے معنی ہو کر رہ گئی۔ان کے پاس سیمسن کی طرح مرنے مارنے کے سوا کوئی چوائس نہ رہی۔
قارئینِ کرام پچھلے 33سال میں فلسطین اسرائیل تنازعے کے اوپر امریکا نے کبھی کوئی Initiativeنہیں لیا۔ اسرائیل نے امریکا کی بات سننی بند کر دی ہے بلکہ اسرائیلی حکومت گاہے بگاہے امریکی رہنماؤں کو دھمکیاں لگاتی ہے اور وہ بھیگی بلی بنے ان کی ہر بات ماننے پر مجبور ہیں۔
امریکا وہی کچھ کرتا ہے جس کا اسے تل ابیب سے حکم ملتا ہے اسی لیے امریکی وزیرِ خارجہ پہلے تل ابیب پہنچے اور ہدایات لے کر اسرائیل کے پڑوسی ممالک کے دورے پر گئے۔
بلنکن جب ولی عہد سے ملنے سعودی عرب پہنچے تو ملاقات کے لیے اسی شام کی استدعا کی گئی لیکن ولی عہد نے بلنکن کو نہیں بلوایا اور کئی گھنٹے انتظار کروانے کے بعد اگلی دوپہر کو وقت دیا۔ مصر کے صدر نے بھی بلنکن کا پر تپاک استقبال نہیں کیا۔
بلنکن کو کہا گیا کہ غزہ والوں کا پانی، خوراک، فیول اور ادویات وغیرہ بند کر دینا حماس کو سزا دینے کے بجائے ساری فلسطینی آبادی کو مشترکہ سزا دینا ہے جو ٹھیک نہیں۔ بظاہر ایسے لگتا ہے کہ بلنکن اسرائیلی اہداف حاصل کرنے میں ابھی تک کامیاب نہیں ہوئے۔
ایران اس جھگڑے میں بیانات کی حد تک حماس اور فلسطینیوں کے ساتھ ہے لیکن بظاہر کوئی عملی قدم نہیں اُٹھائے گا۔ اس سال کے شروع سے ایران کے تعلقات خلیجی ممالک خاص کر سعودی عرب سے دوبارہ استوار ہوئے ہیں۔ ایران، چین اور روس سے بھی اچھے تعلقات بنا چکا ہے۔ افغانستان کے ساتھ اس کی تجارت ہر روز فروغ پا رہی ہے اس طرح ایران قبولیت کی سنہری دھوپ میں نہا رہا ہے۔ایران کا تیل بکنا شروع ہو چکا ہے جس سے قیمتی زرِ مبادلہ آ رہا ہے۔ اس کی افراطِ زر کی شرح 47فیصد ہے۔ ایران کے امریکا میں منجمد اکاؤنٹس میں سے ایک خطیر رقم ملنے کی توقع ہو چلی ہے۔ ایران اب پچھلی کئی دہائیوں کی نسبت پہلی بار Comfortable محسوس کر رہا ہے۔ باوثوق ذرائع کے مطابق ایران اس جنگ کو پھیلانے میں حصہ نہیں لے گا۔
مصر کا بارڈر چونکہ غزہ کے ساتھ لگتا ہے اس لیے اس تنازعے میں مصر کا کردار بہت اہم ہے۔ خوراک و ادویات سے بھرے بڑے ٹرک رفاہ بارڈر کی جانب روانہ ہو چکے ہیں لیکن مصر اسرائیل کی جانب سے رفاہ بارڈر کھولنے کی اجازت کا منتظر ہے۔ اسرائیل ابھی اپنے بارڈر سے غزہ کے ساتھ کل چھ بارڈر کراسنگ سے تو کچھ جانے نہیں دے گا اس لیے مصر کی جانب سے ہی اقدامات کیے جا سکتے ہیں۔
اسرائیل نے شمالی غزہ کو خالی کرنے کا الٹی میٹم دیا ہے لیکن وہاں سے ہجرت کرنے والے لٹے پٹے لوگ جب جنوبی غزہ پہنچے تو ان پر اسرائیل نے بموں کی بارش کر دی اور کئی پورے کے پورے خاندان ابدی نیند سو گئے۔
یہودی یورپ میں صدیوں سے آباد چلے آرہے ہیں لیکن یورپ نے یہودیوں کو برابر کا شہری نہیں سمجھا۔ یہودیوں کی بستیاں الگ رہیں جہاں کسی قسم کی کوئی سہولت نہیں ہوتی تھی۔ فلسطین جب برطانیہ کی عملداری میں چلا گیا تو یورپی اقوام نے یہودیوں کی ایک بڑی تعداد کو یورپ اور امریکا سے نکال کر فلسطین میں آباد کرنے کا منصوبہ بنایا۔ یہودی چونکہ یورپ میں بہت برے حالات میں رہ رہے تھے اور پھر ان کی فلسطین کی زمین کے ساتھ مذہبی وابستگی تھی اس لیے یہودی خوشی خوشی اس بات پر راضی ہوگئے کہ وہ فلسطین میں آباد ہو کر اپنا ملک بنائیں۔ فلسطینیوں نے اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارتے ہوئے اپنی زمینیں یہودیوں کے ہاتھ بیچنی شروع کر دیں،یوں اسرائیل کی ریاست کا بیج پڑ گیا۔
اب یورپی اقوام کو ایک دفعہ پھر یہ ڈر ہے کہ کسی بھی خوف کی حالت میں یہ یہودی، اسرائیل سے بھاگیں گے تو لامحالہ واپس یورپ کا رخ کریں گے، اس لیے اس تجویز پر عمل ہو رہا ہے کہ فلسطینیوں سے یہودی ریاست کو پاک کر کے یہودیوں کو مکمل امن دیا جائے اور گریٹر اسرائیل بنانے کے کام کو آگے بڑھایا جائے۔
نیتن یاہو نے دو ہفتے پہلے اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے اسرائیل کا جو نقشہ دکھایا،اس میں مغربی کنارا، غزہ کی پٹی، گولان ہائیٹس اور لبنان کے کچھ علاقے اسرائیل میں شامل تھے۔ اس منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے فلسطینیوں سے اس سارے علاقے کو پاک کرنا ضروری ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ سارے فلسطینی مارے تو نہیں جا سکتے۔ آخر طے ہوا کہ فلسطینیوں کو گریٹر اسرائیل کے علاقوں سے بے دخل کر کے اردن میں بسایا جائے۔ اردن کو یہ قبول نہیں۔ اردن کے شاہ عبداﷲ کے لیے یہ تجویز ایک ڈراؤنا خواب کی مانند ہے۔ اسی لیے اردنی بادشاہ یورپ میں ہیں، وہ یورپ سے یقین دہانی چاہتے ہیں کہ فلسطینیوں کو اردن میں نہیں بسایا جائے گا۔