آلودہ پانی سے کاشتکاری روکنے میں محکمے ناکام شہری بیماریوں کا شکار ہونے لگے
ڈرین کے قریب دیہاتوں میں رہنے والے لوگوں خصوصاً حاملہ خواتین کو بہت سے طبی مسائل کا سامنا رہتا ہے
حکومتی اداروں کی نااہلی اور عدم دلچسپی کی وجہ سے لاہور سمیت پنجاب کے مختلف اضلاع میں سیوریج اور فیکٹریوں کے آلودہ پانی کو آبپاشی کے لیے استعمال کیا جارہا ہے ۔
آلودہ اورمضرپانی سے کاشت کی گئی فصلوں اورسبزیوں کے استعمال سے شہری ہیپا ٹائٹس سمیت مختلف بیماریوں کا شکار ہورہے ہیں، دوسری طرف پنجاب فوڈ اتھارٹی کا کہنا ہے کہ رواں سال کے دوران مختلف اضلاع میں 57 ایکڑ رقبے پرکاشت کی گئی فصلیں اورسبزیاں تلف کی گئی ہیں۔
لاہور کے مشرقی علاقے میں بھارت سے پاکستان داخل ہونے والی ہڈیارہ ڈرین کے ساتھ پاک بھارت سرحد کے قریب واقع للو گاؤں سے لے کر پڈانہ، ہڈیارہ، برکی سے لے کر مراکہ تک 54 کلومیٹر طویل اس ڈرین کے دونوں جانب سیکڑوں ایکڑ زرعی اراضی کو زیادہ تر ڈرین کے پانی ہی سے سیراب کیا جاتا ہے۔
مقامی کسان چھوٹے پمپ کے ذریعے ڈرین سے پانی لے کر اپنی فصلوں اورسبزیوں کو سیراب کرتے ہیں اور پھر یہ فصلیں اورسبزیاں شہرکی منڈیوں میں فروخت کے لیے لائی جاتی ہیں۔ ہڈیارہ ڈرین کے علاوہ محمود بوٹی ،سگیاں، ٹھوکر نیاز بیگ سمیت دیگرعلاقوں میں بھی سیوریج اور فیکٹریوں کے آلودہ پانی کو آبپاشی کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔
واضح رہے کہ آلودہ پانی سے پیاز، گوبھی، شلجم، مٹر، پودینہ، دھنیا، مولی، بند گوبھی، پالک، سبز مرچ، گھیا کدو، بھنڈی، میتھی، گھیا توری، شملہ مرچ، مونگرے سمیت متعدد سبزیاں کاشت کی جاتی ہیں۔
برکی کے علاقے میں مقامی کاشت کار محمد ابراہیم نے ایکسپریس ٹربیون کو بتایا کہ بجلی، کھاد اوراسپرے اس قدرمہنگے ہوچکے ہیں کہ چھوٹے کسان کے لیے یہ ممکن نہیں رہا کہ وہ 2،3ایکڑ پر فصل یا سبزیاں کاشت کرتا ہے تو کھاد اور ٹیوب ویل کا پانی استعمال کرے۔ اس لیے ڈرین کا پانی استعمال کرتے ہیں ،کیوں کہ اس کے بعد کھاد استعمال کرنے کی بھی ضرورت نہیں رہتی ہے۔
کاشتکار محمد ابراہیم کے مطابق جب سے پاکستان بنا ہے، مقامی لوگ ڈرین کے پانی ہی سے فصلیں کاشت کررہے ہیں۔ جب کہ حکومت نے تو چند برسوں ہی سے کہنا شروع کیا ہے کہ یہ پانی آلودہ اور گندہ ہے، لہٰذا اسے سبزیوں کی کاشت کے لیے استعمال نہ کیا جائے۔ اس وجہ سے لوگ اب ڈرین کے پانی کو کم استعمال کرتے ہیں لیکن یہ سلسلہ مکمل ختم نہیں ہوا۔ انہوں نے کہا کہ اب کسان اس پانی سے فصلیں کاشت کرنے کے بجائے چارہ جات کاشت کرتے ہیں۔
ایک اورمقامی کاشتکار خیردین میو نے کہا کہ فصلوں کے لیے ڈرین کاآلودہ پانی استعمال کرنا ٹھیک تو نہیں ہے لیکن ہمارے پاس اس کے سوا دوسرا کوئی آپشن بھی نہیں ہے۔ زیر زمین پانی کی سطح انتہائی نیچے جاچکی ہے اور ٹیوب ویل لگانا انتہائی مشکل اورمہنگا ہے۔ سرحدی علاقوں میں کاشت کاری کے لیے بی آر بی نہرسے اپ لفٹ ایری گیشن سسٹم کے ذریعے پانی فراہم کیا جاتا ہے تاہم یہ سہولت صرف چند سو کاشتکاروں ہی کو میسر ہے۔
حکومت کی طرف سے 2009ء میں اس ڈرین کے پانی کے استعمال پر پابندی لگائی گئی تھی جب کہ پنجاب فوڈ اتھارٹی نے بھی گزشتہ چند برس میں کارروائیاں کی ہیں، تاہم اس کے باوجود اس پانی کے استعمال کا سلسلہ بند نہیں ہوسکا۔
آلودہ پانی سے کاشت کی گئی سبزیاں لاہور کی 2 بڑی منڈیوں بادامی باغ اور کاہنہ میں لائی جاتی ہیں۔ پنجاب فوڈ اتھارٹی کے مطابق رواں سال یکم جنوری سے 20 اگست تک صوبے بھر میں 1413 ایکڑ رقبے کا معائنہ کیا گیا، جہاں 133 ایکڑ رقبے کو سیوریج اور فیکٹریوں کے آلودہ پانی سے سیراب کیا جارہا تھا جب کہ 57 ایکڑ رقبے پرسبزیاں کاشت کی گئی تھیں جنہیں تلف کردیا گیا ہے۔
ترجمان پنجاب فوڈ اتھارٹی کے مطابق ہرضلع میں مقامی انتظامیہ کے ساتھ مل کر آلودہ اورمضرپانی سے سبزیوں کی کاشت روکنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ آلودہ پانی سے پٹ سن،پھول اورایسے چارہ جات کاشت کیے جاسکتے ہیں جو براہ راست انسانوں اورجانوروں کی خوراک نہیں بنتے۔
ڈبلیوڈبلیوایف کے ڈائریکٹرجنرل حماد نقی نےبتایا کہ ہڈیارہ ڈرین پر کی جانے والی تحقیق میں اس کا پانی انتہائی مضرپایا گیا تھا۔ اس پانی کا استعمال تو بہت دُور کی بات ہے اس کے قریب کھڑے ہونا بھی انسانی صحت کے لیے خطرناک ہے۔ تحقیق کے دوران یہ بات بھی سامنے آئی کہ ڈرین کے قریب بسنے والے دیہات میں لوگ ہیپا ٹائٹس ، بینائی اور جلدی بیماریوں کا شکار ہیں۔
اس بات کی تصدیق مقامی سرکاری بنیادی مرکز صحت کے ڈاکٹر نے بھی کی ہے۔ اس سلسلے میں ڈاکٹر شکیل احمد نے بتایا کہ ان کے پاس جو مریض آتے ہیں، ان میں خصوصاً بچے جلدی بیماریوں، ہیپاٹائٹس اور خون کی کمی شکار ہوتے ہیں۔ خواتین (خصوصاً حاملہ) کو بھی بہت سے مسائل کا سامنا ہے۔ یہاں لوگ چونکہ موٹرپمپ کے ذریعے حاصل کیا گیا زیرزمین پانی پینے کے لیے استعمال کرتے ہیں، اس وجہ سے ان لوگوں میں بیماریوں کی شرح زیادہ ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ڈرین کے انتہائی مضر پانی سے تیار سبزیوں میں کیڈمیم،کرومیم کی تعداد بڑھ جاتی ہے، جس سے انسانوں کے پھیپھڑے، گردے متاثر ہوتے ہیں۔ یہی دھاتیں بچوں کی دماغی نشوونما بھی روک دیتی ہیں جس سے خون میں کمی ہوتی ہے اور خون کی کمی کئی بیماریوں کو جنم دیتی ہے۔
محکمہ زراعت پنجاب کے ڈائریکٹرتوسیع ڈاکٹرانجم علی بٹر کہتے ہیں کہ آلودہ پانی سے سبزیوں اورفصلوں کی کاشت انتہائی خطرناک ہے۔ اس حوالے سے کاشتکاروں میں آگہی مہم بھی چلائی جاتی ہے اورانہیں آلودہ پانی کے استعمال کے خطرات سے متعلق بھی بتایاجاتا ہے ۔
انہوں نے کہا کہ آلودہ پانی میں موجود خطرناک کیمیکل اورمیٹل مسلسل زمین میں جذب ہوکر 4 سے 5 سال میں اسے سخت کردیتے ہیں اور زمین کی زرخیری ختم کردیتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ اب اس سلسلے میں کافی کمی آئی ہے۔ڈاکٹرانجم علی بٹر نےمزید کہا کہ گھروں کا سیوریج کا پانی اتنامضر نہیں ہوتا جس قدر فیکٹریوں کا سیوریج خطرناک ہے۔